تھالی کے بینگن
تھالی کے بینگن کی کئی اقسام ہیں جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں ان سب کا رنگ نسل اور بود و باش مختلف ہے۔
بطور سبزی 'بینگن' کے بہت سے طبی فوائد ہیں۔ یہ دنیا بھر میں کئی طریقوں سے پکایا اور کھایا جاتا ہے لیکن ہم یہاں یہ بات نہیں کر رہے کہ بینگن کو کس طرح پکایا جائے یا کس طرح اس سبزی کی غذائیت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائے۔ اس لئے آپ کے قیمتی وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ان نکات پر روشنی ڈالنے کے بجائے براہ راست موضوع پر آجانا بہتر ہوگا، سو آج ہم بات کریں گے کچھ اور ہی طرح کے بینگن کی، ان کی جو شکم سیری کے کام نہیں آتے اور اپنی حرکات و سکنات کے باعث اچھی شہرت سے محروم ہیں تاہم ہر روز ہم ان کا ذائقہ ضرور چکھتے ہیں۔ عقل کے گھوڑے کو تھوڑا سا دوڑائیں تو موضوع خود بخود واضح ہوجائے گا۔ جی ہاں! اب آپ صحیح سمجھے یہاں بات ہورہی ہے ' تھالی کے بینگن' کی۔
تھالی کے بینگن کی کئی اقسام ہیں جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں۔ ان سب کا رنگ نسل اور بود و باش مختلف ہے لیکن فطرت میں یہ سب ایک دوسرے کا پر تو ہیں یعنی 'صرف میں اور میرا نفع'۔ ان میں سے ہم چیدہ چیدہ اقسام کا جائزہ لیتے ہیں۔
'تھالی کے بینگن کی پہلی قسم سیاسی ہے'
یہ قومی بھی ہوتے ہیں اور بین الاقوامی بھی۔ آپ انٹرنیشنل تھالی کو سامنے رکھ کر کچھ ممالک کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو یہ اوصاف حمیدہ خود بخود سامنے آجائیں گے کہ جہاں بھیڑ دیکھی اس کیمپ کا حصہ بن گئے، بعد میں اسی کیمپ کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کردیئے۔ جس ملک کی اجتماعی بربادی میں حصہ لیا بعد میں اسی کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہا دیئے۔ کبھی نسل پرستی کا لبادہ اوڑھ لیا تو کبھی انسانی حقوق کے علمبردار بن گئے۔ کچھ قوموں کیلئے جمہوریت کا ڈھول پیٹتے رہے اور کہیں بدترین آمریت مسلط کروادی، جو پہلے دوست تھے بعد میں دشمن قرار پائے۔ کسی کے تیل پر لڑھک گئے تو کہیں وہی تیل آنکھوں میں کھٹک گیا۔ اس کی ایک واضح مثال اقوام متحدہ کی کارکردگی ہے، جو جنگوں اور تنازعات کے موقع پر اکثریت کی طرف لڑھکنا ضروری سجھتی ہے پھر چاہے اقلیت کتنی ہی مظلوم کیوں نہ ہو اسکی دلجوئی اوراشک شوئی بس کاغذوں تک محدود رہ جاتی ہے۔ دوسری مثال پاکستان اور بھارت کے معاملے میں امریکا کی پالیسی ہے کہ جب بھارت کے مہمان یا میزبان بنے تو وہی کہا جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو خوش کرسکے جب پاکستان کی جانب رخ کیا تو الفاظ، لہجہ اور بیانیہ بدل دیا۔
قومی سطح کی سیاسی تھالیوں کا جائزہ لیں تو یہ بیگن ہمارے یہاں سب سے زیادہ عام ہیں اور کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ اکثر طاقت کے ایوانوں میں براجمان رہتے ہیں جبکہ باہر بیٹھ کر بھی تھالی کا بیلنس آؤٹ کرنے کی بھرپور طاقت رکھتے ہیں۔ کسی بھی سیاسی تحریک کی کامیابی اور ناکامی بھی ان ہی کی مرہون منت ہوتی ہے کیونکہ یہ اکثرعین موقع پر اپنی عادت سے مجبور ہو کر سائیڈ بدل لیتے ہیں۔ یہ آج یہاں تو کل وہاں ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ صبح جس کے نام پر دھمال ڈال رہے ہوں شام کو بھی اس کے صدقے واری اسی شدت سے جائیں۔ یہ موسم اور ہوا کا رخ بھی خوب پہچانتے ہیں۔ اس لئے ذاتی فائدہ کے رخ پر سورج مکھی کے پھول کی طرح کھڑے رہتے ہیں۔ یوں تو دنیا میں ہر چیز کا زوال لازم ہے لیکن ہمارے ملک میں ان کا عروج ہمیشہ ہی رہتا ہے یقین نہیں آتا تو کچھ سیاسی لوگوں کے ماضی اور حال پر نظر ڈال لیں۔
ایسے بینگن بہت چالاک ہوتے ہیں، ان کی سمجھ بوجھ کتنی ہی محدود کیوں نہ ہو لڑھک جانے کی صلاحیت لامحدود ہوتی ہے۔ ان کی سوچ اپنا نفع نقصان دیکھ کر پنپتی ہے لہذا انتہائی ناقابل اعتبار ساتھی ثابت ہوتے ہیں۔ انہی میں سے کچھ پھرتی اور قلابازی کی اوج کمال تک پہنچ کر اپنا لقب بدل ڈالتے ہیں۔ اب وہ تھالی کے محدود دائرہ سے باہر آکر سیاسی کہکشاں کی وسعتوں کو کھوجنا شروع کردیتے ہیں۔ انہیں عرف عام میں جو کہا جاتا ہے ہم اس کی بحث میں نہیں پڑیںگے صرف یہ کہیں گے کہ عام دنوں میں یہ بیان بازی کی حد تک رہتے ہیں لیکن الیکشن سے پہلے اپنے جلوے بار بار بکھیر کر اپنا ریٹ اونچا کرنا شروع کردیتے ہیں، باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔
'تھالی کے بیگن کی دوسری قسم کی بہتات پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہے'
جو فکری نظریات اور معاشرتی اصلاح کی تھالی میں میکاولی سے مارکس اور افلاطون سے ابن رُشد تک لڑھکتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یہ اگر ایک دن ہمیں ایتھنز کے ایوانوں میں لے جا کر جمہوریت پر درس دیں گے تو اگلے ہی دن دریائے آمو کے کنارے کھڑا کردیں گے۔ ان کو پرولتاریہ اور بورژوا یکساں طور پرعزیز ہیں۔ یہ وقت پڑنے پر سیکولر لبادہ اوڑھ کر سامنے آجاتے ہیں ورنہ مذہب سے نزدیکی کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ اپنے ساتھ ساتھ قوم کو بھی لڑھکاتے رہتے ہیں۔
'تھالی کے بیگن کی تیسری قسم خاندانی ہے'
یہ ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔ کسی بھی خاندانی جھگڑے یا رنجش کے دوران ان کا کردار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی ایک فریق کا کھلےعام ساتھ دینے کے بجائے یہ لفاظی اور اپنا الو سیدھا رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ چونکہ یہ نیوٹرل رہنے کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں اسلئے اکثر اِدھر کی باتیں اُدھر اور لگائی بجھائی سے بھی نہیں چوکتے، لہذاٰ یہ بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کے سامنے منہ کھولنے سے پہلے دس دفعہ سوچیے ورنہ یہ آپ کے راز لیکر دوسری طرف لڑھک جائیں گے ویسے آپس کی بات ہے، یہ دوسروں کے راز آپ تک پہنچا کر آپکا فائدہ بھی کروا سکتے ہیں۔
ان کے علاوہ دوستوں میں پائے جانے والے والے تھالی کے بیگن بہت مزیدار ہوتے ہیں۔ یہ آپ سے دوستی کا دم بھی بھرتے ہیں اور موقع آنے پر فوراً آپ کی اصلاح کا بیڑہ اٹھا لیتے ہیں، تاکہ کوئی انگلی ان کی طرف نہ اٹھ سکے اور تاثر یہی ابھرے کہ یہ سب کے خیرخواہ ہیں۔ یہ بھی اپنی امیج بنانے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھتے ہیں اس لئے زیادہ دیر کسی ایک سے نبھانے کے بجائے حلقہ یاراں وسیع سے وسیع تر کرنے میں ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ اس چکر میں سب کی صحیح غلط بات کا بیک وقت ساتھ دے کر دوستی کی تھالی میں یہاں وہاں لڑھک لڑھک کر وقت گزار دیتے ہیں۔ انہیں اپنی فرینڈز لسٹ میں ضرور رکھیں لیکن ان پر تکیہ ہرگز نہ کریں۔
یہ ہیں چند تھالیوں کے بیگن جن سے آج ہم نے آپ کو روشناس کروایا، ان کےعلاوہ بے شمار اقسام آپ کے اردگرد ہیں بس! پہچاننے کی دیرہے۔
اختلافی نوٹ: اوپر بیان کئے گئے نکات سے مجھے شدید اختلاف ہے۔ میں ایک بیگن ہونے کے ناطے اپنے اوپر لگائے گئے ان الزامات کو رد کرتا ہوں۔ انسان نے اپنی لالچ اور جبلت کی برائیوں کا بوجھ کم کرنے کیلئے ہم بیچاروں کو بدنام کر رکھا ہے ورنہ دنیا شاہد ہے کہ اسی موقع پرست انسان کے ہاتھوں بھرتا ہمیشہ ہمارا ہی بنتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔