دہشت گردوں کے ہاتھوں کوئٹہ پھر سے لہو لہان
نفرتوں کی ایسی فصل کاشت ہوچکی ہے جسے مکمل طور پر تلف کیے بغیرکوئی چارہ نہیں
پہاڑوں کے دامن میں آباد حسین وادی کوئٹہ جس کے حسن کو دیکھنے پاکستان بھر سے لوگ آتے تھے اور پھر اس کے قدرتی حسن کے اسیر ہوجاتے تھے، طویل عرصے سے بدامنی کا شکار ہے، ایسے ایسے دل ہلادینے والے سانحات رونما ہوچکے ہیں کہ جن کو صرف ترتیب وار درج کیا جائے تو کئی صفحات درکارہوں۔
سانحہ کوئٹہ میں سو کے قریب وکلا جاں بحق اور بے شمار زخمی ہوئے، لواحقین کے زخم ابھی بھرے بھی نہ تھے کہ گزشتہ روزکیرانی روڈ پر مسلح موٹرسائیکل سواروں نے لوکل بس رکوائی اور لیڈیزکمپارٹمنٹ میں گھس کر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں چار خواتین موقعے پر جاں بحق جب کہ ایک خاتون اور بچہ زخمی ہوگئے، ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے، واقعے کی ذمے داری لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کرلی ہے۔
نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پرقتل وغارت کا بازارعرصے سے سرگرم ہے اور تاحال اس پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے، نفرتوں کی ایسی فصل کاشت ہوچکی ہے جسے مکمل طور پر تلف کیے بغیرکوئی چارہ نہیں، سیکیورٹی ایجنسیوں سمیت تمام حکومتی اداروں کو مل کر ایک ایسا پلان تشکیل دینا چاہیے جس سے عام آدمی کے جان ومال کو تحفظ حاصل ہو۔لیکن سانحات کا تسلسل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں خامی موجود ہے جو دہشتگرد معصوم جانوں کو بآسانی نشانہ بنا کر فرار ہوجاتے ہیں، اور پھر ایک کال یا ایک پریس ریلیزکے ذریعے واقعے کی ذمے داری دیدہ دلیری سے قبول کرلی جاتی ہے اور پولیس بھی مطمئن ہوکر بیٹھ جاتی ہے کہ یہ واقعہ فلاں گروپ نے کیا ہے۔
انتظامی امور میں کوتاہی برتنے والے عناصر کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے تو کسی صورت ممکن نہیں کہ دہشتگرد عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکیں ۔نفرت کو محبت میں بدلنے کے لیے سول سوسائٹی کو بھی آگے آنا چاہیے تاکہ وادی میں خون کی ہولی بند ہو اور محبت کے نغمے پھر سے سنائی دیں۔
سانحہ کوئٹہ میں سو کے قریب وکلا جاں بحق اور بے شمار زخمی ہوئے، لواحقین کے زخم ابھی بھرے بھی نہ تھے کہ گزشتہ روزکیرانی روڈ پر مسلح موٹرسائیکل سواروں نے لوکل بس رکوائی اور لیڈیزکمپارٹمنٹ میں گھس کر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں چار خواتین موقعے پر جاں بحق جب کہ ایک خاتون اور بچہ زخمی ہوگئے، ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے، واقعے کی ذمے داری لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کرلی ہے۔
نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پرقتل وغارت کا بازارعرصے سے سرگرم ہے اور تاحال اس پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے، نفرتوں کی ایسی فصل کاشت ہوچکی ہے جسے مکمل طور پر تلف کیے بغیرکوئی چارہ نہیں، سیکیورٹی ایجنسیوں سمیت تمام حکومتی اداروں کو مل کر ایک ایسا پلان تشکیل دینا چاہیے جس سے عام آدمی کے جان ومال کو تحفظ حاصل ہو۔لیکن سانحات کا تسلسل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں خامی موجود ہے جو دہشتگرد معصوم جانوں کو بآسانی نشانہ بنا کر فرار ہوجاتے ہیں، اور پھر ایک کال یا ایک پریس ریلیزکے ذریعے واقعے کی ذمے داری دیدہ دلیری سے قبول کرلی جاتی ہے اور پولیس بھی مطمئن ہوکر بیٹھ جاتی ہے کہ یہ واقعہ فلاں گروپ نے کیا ہے۔
انتظامی امور میں کوتاہی برتنے والے عناصر کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے تو کسی صورت ممکن نہیں کہ دہشتگرد عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکیں ۔نفرت کو محبت میں بدلنے کے لیے سول سوسائٹی کو بھی آگے آنا چاہیے تاکہ وادی میں خون کی ہولی بند ہو اور محبت کے نغمے پھر سے سنائی دیں۔