پاک بھارت کشیدگی مذاکرات کا سیاسی آپشن
بھارت مذاکرات کے بجائے جنگی ماحول پیدا کرنے کو اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنائے ہوئے ہے
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کو کم یا ختم کرنے میں جو اہم کنجی ہے وہ مذاکرات کی بحالی کا عمل ہے ۔کیونکہ تعلقات کی خرابی، کشیدگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بداعتمادی اسی صورت قائم رہتی ہے یا اس میں مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے جب مذاکرات کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔
مذاکرات کا عمل اسی صورت ممکن ہوتا ہے جب دونوں فریق اس نقطہ پر یقین رکھتے ہوں کہ ہمیں تعلقات کی بحالی میں مذاکرات کی کنجی کو ہی اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنانا ہے۔ اسی طرح مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے میں ایک بنیادی نقطہ دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے بارے میں اعتماد اور باہمی مسائل کے بارے میں بہترآگاہی کا موجود ہونا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت بھارت مذاکرات کے راستے سے بلاوجہ دور ہوکر ایک ایسی جنگ میں کود رہا ہے جو عملی طور پر دونوں ملکوں سمیت خطہ کی سیاست اور استحکام کے مفاد میں نہیں۔
عمومی طور پر جب دو ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی میں تعصب ، دشمنی اور بلاوجہ کی نفرت کی سیاست کا پہلو غالب ہوجائے تو پھر بات چیت یا مذاکرات کا عمل کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اس وقت بھارت اور پاکستان اسی بحرانی کیفیت سے گزر رہے ہیں جہاں مذاکرات یا تعلقات کی بحالی کا عمل خواب بن کر رہ گیا ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر امریکا نے بھی دونوں ملکوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کشیدگی کے عمل کو کم کرنے میں مذاکرات کے حل کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ ان کے بقول اختلافات کا حل تشدد میں نہیں بلکہ مذاکرات سے جڑا ہوا ہے ۔جب بات مذاکرات کی بحالی کی ہوتی ہے تو اس کا ایک واضح اشارہ سفارت کاری کے محاذ پر سیاسی اور قانونی جنگ سے جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ یعنی سفارتی محاذ پر بھارت اور پاکستان کو آگے بڑھ کر مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اجتماعی مفادات کو تقویت دینی چاہیے۔
لیکن تعلقات کی بحالی اور مذاکرات کا عمل اول تو کوئی جادوئی عمل نہیں اور نہ ہی یہ عمل کسی سیاسی تنہائی میں ممکن ہے۔ اس کے لیے محض ایک فریق کا راضی ہونا ضروری نہیں ، بلکہ دونوں فریق اس نقطہ پر اتفاق کرکے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں ۔اس کے لیے موجودہ صورتحال میں پہلی ضرورت دونوں اطراف سے سخت گیر سیاسی بیان بازی کی سیز فائر کا ہے۔ لفظوں کی جنگ بلاوجہ دونوں اطراف ایک جنگی جنون پر مبنی ماحول کو پیدا کرکے مزید انتشار اور نفرت کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بن رہا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی کی حالیہ تقریر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بھارت مذاکرات کے بجائے جنگی ماحول پیدا کرنے کو اپنی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بنائے ہوئے ہے ۔جب بھارت اپنی سفارتی حکمت عملی سے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے، سارک کانفرنس کا التوا اور پاکستان کو دہشت گردی برآمد کرنے والا ملک قرار دے کر ریاستی دہشت گردی جیسے الزامات لگائے گا تو مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔ سیکریٹری خارجہ کی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان جو بات چیت یا مذاکرات کا عمل شروع ہونا تھا وہ بھی بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث تعطل کا شکار ہے۔
کئی مواقع ایسے آئے جہاں مذاکرات کا عمل دوبارہ پٹری پر چڑھ سکتا تھا، لیکن بھارت کی حالیہ سخت گیر قیادت کے طرز عمل نے اس کے کئی اہم مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ عمومی طور پر بھارت کی حکومت اور ان کے سخت گیر مزاج کی جماعتوں ، افراد سمیت میڈیا نے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو پاکستان کی کمزوری سے جوڑا ہوا ہے۔ ان کے بقول پاکستان اس وقت عالمی دنیا میں تنہائی کا شکار ہے اور وہ دوستی کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس تنہائی کو کم کرنا چاہتا ہے۔ ان کے بقول یہ اچھا موقع ہے کہ ہمیں پاکستان کو مستحکم سیاست کی طرف لے کر جانے کے بجائے غیر مستحکم سیاست کی طرف دھکیلنا چاہیے۔
عالمی سیاسی پنڈت تجزیہ کرسکتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں مذاکرات کی راہ میں پاکستان اور بھارت میں سے کون رکاوٹ ہے ، تو جواب بھارت ہی ہوگا۔مذاکرات کی بحالی کا عمل چار بنیادوں پر مستحکم ہوسکتا ہے ۔ اول دونوں ملکوں کی قیادت میں یہ اتفاق پایا جاتا ہو کہ ہمیں ہر صورت میں تناؤ کو کم کرکے مذاکرت کا راستہ ہی اختیار کرنا ہے۔
دوئم دونوں ملکوں پر داخلی اور خارجی محاذ سے دباو بڑھایا جائے کہ وہ تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں ۔ کیونکہ بعض اوقات حکومتیں خواہشات سے زیادہ دباؤ کی سیاست کا شکار ہوکر وہ فیصلے کرتی ہیں جو مختلف طبقات کی جانب سے سامنے آتے ہیں۔ لیکن عمل بغیر کسی مزاحمت کے ممکن نہیں ہوتا، اس دباؤ کی جھلک ہمیں دونوں ملکوں کے مختلف طبقات کی جانب سے نظر بھی آنی چاہیے۔
سوئم مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے فریقین میں سیاسی لچک بھی ہو اور تحمل و بردباری سمیت معاملات کے حل میں وقت دینا ہوگا۔کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فوری طور پر مسائل حل ہونگے تو یہ درست نہیں۔ چہارم، علاقائی اور عالمی فورمز کو خطہ کی مستحکم سیاست ، تنازعات کے خاتمہ اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے عمل کو بڑھانا ہوگا اور اس میںبڑے ممالک اور فورمز کو نگرانی اور جوابدہی کے عمل کے ساتھ جوڑنا ہوگا ۔اس وقت مذاکرات کی بحالی کی کنجی بھارت کے ہاتھ میں ہے۔
وہ ایک بڑا جمہوری ملک ہے اور اس کو ایک بڑے ملک ہونے کے ناتے خود کو دوستی یا تعلقات کی بحالی کے عمل میں پیش کرنا ہوگا ، لیکن یہ کام حالیہ جنگی جنون کی سیاست کو طاقت فراہم کرنے کے بجائے اسے کمزور کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔خطہ کی سیاست میں استحکام کی کنجی بھارت کے پاس ہی ہے اور کیا بھارت اس مثبت عمل میں پہل کر کے ایک بڑا جمہوری ملک ہونے کا ثبوت دے گا تواس پر کئی سوالیہ نشان ہیں اور ہمیں اسی کا جواب تلاش کرکے محفوظ راستہ تلاش کرنا ہے۔