سرمایہ داری تنزلی کا شکار
عالمی سرمایہ داری مسلسل تنزلی کا شکار ہے
عالمی سرمایہ داری مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ جو ملک بھی معاشی انحطاط کا شکار ہوا ہے، وہاں کے عوام سرمایہ داری کے متبادل نظام پر غورکرنے لگے ہیں بلکہ کمیونسٹ تحریک پھر سے دنیا بھر میں ابھرنے لگی ہے۔سعودیہ نے ایک لاکھ غیر ملکی مزدوروں کو اپنے ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں پاکستان کے 35 ہزار ملازمین بھی شامل ہیں۔
سعودی حکمراں شاہ سلمان نے حکم جاری کیا ہے اور ریاض میں کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وزرا کی تنخواہوں میں20 فیصد کمی اور شوریٰ کونسل کے ممبران کی تنخواہوں میں 15 فیصد کمی کی جائے گی۔ شہری شوریٰ کونسل کے ارکان کی گاڑیوں اور مکان کے لیے ملنے والے ایڈوانس میں بھی 15 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔
شاہ سلمان نے سینئر سرکاری ملازمین کو آیندہ ایک سال کے لیے سرکاری گاڑی دینے پر پابندی عائد کی ہے۔ وزرا کو ایک ہزار سعودی ریال تک موبائل اور ٹیلی فون مفت استعمال کرنے کی اجازت ہو گی، اس سے زیادہ کا بل وہ خود ادا کریں گے۔ 1438 ہجری میں تنخواہوں میں سالانہ اضافہ نہیں ہو گا جب کہ کنٹریکٹ کے اجرا اور توسیع کے موقعے پر بھی تنخواہیں نہیں بڑھائی جائیں گی۔
وزرا اور ان کے عہدوں کے برابر سرکاری ملازمین کو 42 دن کے بجائے 36 دن کی سالانہ چھٹیاں حاصل ہوں گی، اور سرکاری ملازمین کو سالانہ چھٹی کے دوران ماہانہ ٹرانسپورٹ الاؤنس نہیں ملے گا۔ تمام سرکاری محکموں اور منصوبوں پر آیندہ سال کے آخر تک بھرتیوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ سعودی عرب کے آئی ایم ایف کے قرضوں کے حجم میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ ان معاشی کٹوتیوں سے قبل ہی یہاں کے مزدوروں، اساتذہ اور نرسوں نے ہڑتالیں کیں، کچھ نے اپنے مطالبات منوائے بھی۔
روس بحیثیت سوشلسٹ ریاست کے خاتمے کے بعد سامراجیوں نے یہ سمجھا تھا کہ اب یہاں سرمایہ داری عروج پر ہوگی اور مغربی سامراج کی ایک منافع بخش مارکیٹ بنے گی، مگر عوام میں اس نظام زر کے خلاف نفرت اور بغاوت کے جذبات ابھرنے شروع ہو گئے ہیں۔ روس میں ان کے پاس سوویت یونین کی شکل میں ماضی کی ایسی یادیں ہیں جہاں کم ازکم تعلیم، علاج، ٹرانسپورٹ، بجلی اور دوسری سہولیات عوام کو مفت حاصل تھیں اورروزگار کی ضامن ریاست تھی۔
امریکی جریدے ''نیوز ویک'' کے 13 اگست 2016ء کے شمارے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ''ایک چوتھائی صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کمیونسٹ نظریات روس میں بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔'' گزشتہ برس کینیڈین پیسفک ریل کے ہڑتالی مزدوروں کو پارلیمنٹ میں بل پیش کر کے اس ہڑتال کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور مزدوروں کو کام پر جانے کا حکم دے دیا گیا، یہی حکم نامہ ایئرکینیڈا اورکینیڈین پوسٹ کی ہڑتالوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہاں اس خبر کے خلاف کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازوکی قوتوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
چین کے سماجی اور معاشی حالات کے دیگر پہلوؤں کی بدترین حالت کے علاوہ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کی بدترین حالت چین میں دنیا کی اول سطح پر ہے۔ یہاں فضائی آلودگی سے ہر سال 10 لاکھ انسان مر جاتے ہیں جب کہ بھارت میں 6 لاکھ، روس میں ایک لاکھ اور پاکستان چوتھے نمبر کے ساتھ 57 ہزار۔ واضح رہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کوئلے کا ایندھن چین میں استعمال ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر کاربن فضا میں مل جاتا ہے اور نتیجتاً یہاں اکثر تیزابی بارش ہوتی ہے۔
بعض علاقوں میں چوراہوں پر ٹریفک سگنل کے نشانات تک مٹ جاتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ اور بے روزگاری و مہنگائی میں کمی پر اپنی آمدنی کو خرچ کرنے کے بجائے اسلحہ اور جاسوسی پر خرچ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں یہاں افلاس اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کے سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اس خفیہ جنگ کے بارے میں خود اقرار کیا ہے۔ دی گارجین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مشرف نے کہا تھا ''پاکستان اور ہندوستان کی اپنی اپنی پروکسیاں ہیں جو ایک غیر صحت مندانہ عمل ہے۔ میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں۔ یہ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان میں ہے کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسے بند ہونا چاہیے۔ ہندوستان کی ''را'' اور پاکستان کی آئی ایس آئی آزادی کے وقت سے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے (دی گارڈین 13 فروری2015ء)۔''
جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو وہاں بھی 10 فیصد یعنی 3 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ اسلحہ سازی اور غیر ملکوں میں مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ''زیگانیو برزنسکی'' سے ایک فرانسیسی اخبار نے پوچھا کہ امریکا نے ان بنیاد پرستوں کو کیوں تخلیق کیا تو اس کا جواب تھا ''ہمارے لیے زیادہ اہم یہ تھا کہ سوویت سلطنت کو شکست دیں نہ کہ چند انتہا پسند مسلمانوں کے بارے میں فکرمند ہو جائیں۔
جکارتہ میں مزدوروں کی اجرت میں اضافے کے لیے انسانوں کا سمندر امڈ آیا جب کہ اس کی خبر میڈیا سے غائب تھی۔ ہندوستان میں 2 ستمبر 2016ء کو کمیونسٹ اتحاد کی جانب سے 18 کروڑ مزدوروں کی ہڑتال نے عالمی تاریخ رقم کی۔ جنوبی کوریا کی جانب سے شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) کی جانب رخ کرکے میزائل نصب کرنے کے خلاف جنوبی کوریا کی کمیونسٹ پارٹی اور مزدور فیڈریشنوں نے لاکھوں کا جلوس نکالا۔
کیوبا میں سوشلسٹ نظام رائج رہنے کے باوجود امریکا کو مذاکرات کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور اب کولمبیا کی سامراج نواز فوجی حکومت کولمبیا کے فارک کمیونسٹ گوریلا باغیوں سے امن مذاکرات کے ذریعے امن معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی۔ سارک کانفرنس ملتوی ہونے کے بعد اب نیپال کی کمیونسٹ حکومت اور نو سارک کانفرنس منعقد کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔
حال ہی میں ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری سیتارام نے اپنے ایک انٹرویو میں جنگی جنون کو ہوا دینے پر مودی سرکار کی شدید تنقید کی ہے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے بھارت سرکار کی جانب سے پاکستان کو پانی بند کرنے کی دھمکی، اڑی اور سرجیکل اسٹرائیک کی مذمت کی ہے۔
پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ چاول 100 روپے، آٹا 55 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ ان بگڑتے ہوئے حالات سے عوام تنگ آ چکے ہیں۔ پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں مرکزی حکومت میں حصہ دار رہی ہیں مگر کسی نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اب رہ گئی پی ٹی آئی جس کے رہنما عمران خان ہیں۔
گزشتہ دنوں دھواں دھار تقریر میں بہت ساری اچھی باتیں کی ہیں لیکن دیگر جماعتوں کی طرح انھوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہم اقتدار میں آکر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے جات بحق سرکار ضبط کرلیں گے، دفاعی بجٹ میں کمی کرکے تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کریں گے جاگیرداری ختم کرکے زمین کسانوں میں بانٹ دیں گے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان کی سماجی ملکیت میں تبدیل کردیں گے۔ چونکہ یہ اعلانات نہیں کیے اور اقتدار میں آ بھی جائیں تو ان اقدامات کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ میں کمیونسٹ انقلاب کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے انقلابی اقدامات کی بات کر رہا ہوں۔ ہرچندکہ مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے جہاں کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ سب مل کر پیداوارکریں گے اور ملکرکھائیں گے۔