پارلیمانی کمیٹی نے اسٹیٹ بینک دفاتر کی لاہور منتقلی رد کردی
70سال سے کراچی میں کام ہورہا ہے،اب دشواری کیوںپیش آرہی ہے، ساکھ متاثرہوگی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے 5 اہم دفاتر کو کراچی سے لاہور منتقل کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قائمہ کمیٹی خزانہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو سختی سے مسترد کرتی ہے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے مرکزی بینک کے اس فیصلے کا نوٹس لے لیا ہے اور یہ آئندہ اجلاس میں سب سے پہلے زیر بحث لایا جائے گا۔
ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ حکومت تمام سرکاری اداروں کو لاہور منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مرکزی بینک کے دفاتر کو بھی سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے لاہور منتقل کیا جا رہا ہے، پیپلزپارٹی حکومت کے اس فیصلے کی سختی سے مذمت کرتی ہے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ مرکزی بینک کا دفتر گزشتہ 70 سال سے کراچی میں انتہائی احسن سے طریقے سے کام کررہا ہے مگر مسلم لیگ نون کے دور اقتدار میں ایسا کیا ہوا کہ اسے کام کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے، حکومت کے اس فیصلے سے مرکزی بینک جیسے خود مختار ادارے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی، فیصلے سے لاہور اور کراچی کے ملازمین کے درمیان فاصلے پیدا ہوں گے جس سے مرکزی بینک کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے سے مرکزی بینک میں بری گورننس آغاز ہو گا، مرکزی بینک کی کارکردگی پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگائے جارہے ہیں، صارفین کو بنیادی بینکاری خدمات کی فراہمی ناقص طریقے سے کی جارہی ہے اب دفاتر کی منتقلی سے کون سی گڈ گورننس جنم لے گی، پیپلزپارٹی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور مرکزی بینک کے دفاتر کو کراچی سے لاہور منتقل نہ کیا جائے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اگر حکومت نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا تو پیپلزپارٹی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج پر مجبور ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پاکستان اسٹیل ملز کی 157ایکڑزمین غیرقانونی طریقے سے پنجاب حکومت کو منتقل کررہی ہے جس کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔