پاناما لیکس پر اب پی ٹی آئی پیچھے نہیں ہٹے گی

پرویز مشرف کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں، کراچی کا سیاسی خلا ہم پُر کریں گے


Iqbal Khursheed October 06, 2016
پی ٹی آئی کے مرکزی راہ نما، فردوس شمیم نقوی سے ایک ملاقات۔ فوٹو: فائل

اُن کی زندگی کے تمام ادوار قابل ذکر، مگر یہ چوتھا دور ہے، جو اہم ترین!

پہلے مرحلے میں ہم اُنھیں ایک عالم دین کے پوتے، ایک بینکار کے بیٹے کے طور پر دیکھتے ہیں، جو اسپورٹس کا دل دادہ ہے، تیراکی میں صوبائی اور قومی سطح کے مقابلوں میں حصہ لے چکا ہے۔ دوسرے دور میں وہ ایک پُرجوش، نڈر اسٹوڈنٹ لیڈر ہیں، اور سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ تیسرے دور میں وہ ایک کام یاب بزنس مین کے روپ میں دکھائے دیے، جو صنعتی دنیا میں نئے رجحانات متعارف کرواتا ہے۔

چوتھے دور کا آغاز 1996 میں پی ٹی آئی میں شمولیت سے ہوا، اور یہی سبب سے اہم۔ اس پلیٹ فورم سے خاصے سرگرم رہے۔ 2007 سے پارٹی کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ 2013 میں پی ٹی آئی کی مینی فیسٹو کمیٹی کے سربراہ رہے۔ دیگر عہدوں پر بھی ذمے داریاں نبھائیں۔ آج پی ٹی آئی، کراچی کے صدر اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہیں۔

ملاقات ہوئی، تو ہم نے پوچھا؛ خان سے متعلق کوئی ایسی بات، جو لوگ نہ جانتے ہوں؟ ہنسنے لگے،''لوگ شاید نہ مانیں، مگر یہ سچ ہے، خان دوسروں کی بات بھی سنتے ہیں۔ کم از کم میری تو سنتے ہیں۔ اور مانتے بھی ہیں۔''

پاناما لیکس کے معاملے پر ان کا موقف واضح۔ پی ٹی آئی اب پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ''جب وزیر اعظم کے خاندان پر کرپشن کا الزام ہو، وزیر اعظم اپنی تقاریر سے عوام کو مطمئن نہ کر سکیں، کسی انکوائری کے سامنے پیش نہ ہوں، وزیر اعظم کے بیٹے اپنے ملک میں انویسٹ کرنے کے بجائے باہر کھربوں کی جائیداد خریدیں، تو ہم اپنے موقف سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ چاہے تنہا احتجاج کرنا پڑے، ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔''

اسکول سے امریکا تک

ان کے اجداد کا تعلق امروہہ سے۔ دادا، مولانا سید ظفر حسن امروہوی ایک جانی مانی علمی شخصیت تھے۔ مولانا کے بیٹے، شمیم الحسن نقوی نے بینکاری کے میدان میں نام کمایا۔ فردوس شمیم نقوی ان ہی کے سپوت۔ والد کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کی روشن خیالی کا بالخصوص ذکر کیا۔ علی گڑھ سے پڑھے ہوئے تھے۔ خاندان نے ہجرت کا فیصلہ اُن ہی کی ایما پر کیا۔ کراچی مسکن ٹھہرا۔ یہیں مئی 1956 میں فردوس صاحب پیدا ہوئے۔ بچپن مختلف شہروں میں گزرا۔ چھے بہن بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا۔ بچپن میں گنتی شرارتی بچوں میں ہوا کرتی۔ غلطیوں پر سزا بھی ملتی۔

تیراکی، ہاکی، کرکٹ، برج، اسکریبل؛ ہر کھیل میں آگے آگے رہے۔ 71ء میں حبیب اسکول سے میٹرک کیا۔ 73ء میں ڈی جے کالج سے انٹر کا مرحلہ طے ہوا۔ این ای ڈی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ پھر ملک کے سیاسی حالات مشی گن، امریکا لے گئے، جن کا آگے تفصیلی تذکرہ آئے گا۔ ادھر سے کنسٹریکشن مینجمنٹ اور ہائی وے ڈیزائننگ میں ماسٹرز کیا۔ یونیورسٹی میں پڑھایا۔ ایک فرم میں ملازم رہے۔ 83ء میں لوٹے۔ اُسی برس والد کے انتقال کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔

والدہ کو کینسر کی تشخیص ہوئی۔ اُن کے علاج کے لیے خاصی بھاگ دوڑ کی۔ گھر کی ذمے داریوں کے باعث سیاست دماغ سے نکل گئی۔ پیشہ ورانہ سفر میں حبیب گروپ سے وابستگی رہی۔ پری کاسٹنگ فیکٹری لگائی۔ پھر بلڈر ہوگئے۔ کئی منصوبے مکمل کیے۔ بلڈرز کی تنظیم ''آباد'' کے پلیٹ فورم سے متحرک رہے۔ اس کے چیئرمین بھی تھے۔ سپراسٹورز کی چین شروع کی۔ آج بھی مختلف پراجیکٹس سے جڑے ہیں۔

بنگلا دیش منظور تحریک

گو بھٹو صاحب نے بھی متاثر کیا، مگر یہ سقوط ڈھاکا تھا، جس کے اثرات سیاست میں کھینچ لائے۔ دائیں یا بائیں بازو کے بجائے اعتدال کی راہ چنی۔ ڈی جے میں ''سوسائٹی آف انڈیپینڈنٹ اسٹوڈنٹس'' بنائی۔ ایک ایسی تحریک شروع کی، جس کا اس وقت تصور بھی محال تھا۔ یہ تھی؛ بنگلادیش منظور تحریک! بہ قول ان کے،''ہم نے جو غلطیاں کیں، ان کا ازالہ یہی تھا کہ بنگلادیش کو تسلیم کیا جائے، اور آگے بڑھا جائے۔ دو مسلمان ممالک ہیں، وہ ایک دوسرے کے قریب رہیں، یہی بہتر ہے۔ اس پر ہمیں بڑے جوتے پڑے، مگر بنگلادیش بعد میں منظور ہوا۔''

این ای ڈی میں قدم رکھنے سے قبل کچھ وقت کراچی یونیورسٹی میں بھی گزرا۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں،''ڈی جے اور این ای ڈی کی دیوار ملی ہوئی تھی۔ آنا جانا رہتا تھا۔ جس زمانے میں ہم نے 'سوسائٹی آف انڈیپینڈنٹ اسٹوڈنٹس' بنائی تھی، ادھر 'پروگریسو اسٹوڈنٹس فرنٹ' قائم ہوا۔ ایجنڈا ایک جیسا تھا، 73ء میں این ای ڈی جانے کے بعد اس تنظیم سے وابستگی ہوگئی۔'' اس پلیٹ فورم سے بھی متحرک رہے۔

یونیورسٹی یونین کے الیکشن جیتے۔ جنرل سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا۔ جب اُن کی تنظیم کے سابق جنرل سیکریٹری کو، جو اب پی پی کا حصہ تھے، گرفتاری کے بعد کوڑوں کی سزا ہوئی، تو ایک بھرپور تحریک شروع کی۔ بڑا کٹھن دور تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی تھی۔ صحافی، طلبا اور مزدور یونینز کو کچلا جارہا تھا۔ ان کا بھی تعاقب کیا جاتا۔ گرفتار بھی ہوئے۔ دن بہ دن گھٹن بڑھتی جارہی تھی۔ حالات سے دل برداشتہ ہو کر وہ بیرون ملک چلے گئے۔

اُس زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہا،''طلبا سیاست میں آپ ایکٹو ہوں، تو سب ہی آپ کو جانتے ہیں۔ این اے ڈی میں ہم پاور میں تھے۔ جب کسی یونیورسٹی جاتے، تو آدھے لوگوں کے لیے ہیرو ہوتے، آدھوں کے لیے ولن۔'' جب پوچھا؛ کیا اب بھی لیفٹسٹ ہیں؟ تو کہنے لگے،''رسل نے کہا تھا، جو تیس سال سے کم ہو، اور لیفٹسٹ نہ ہو، وہ انسان نہیں ہے۔ اور تیس سال کے بعد بھی جو لیفٹسٹ رہے، وہ عقل مند نہیں (قہقہہ)۔''

سیاست میں واپسی اور دھاندلی

اکثر ہم خیال دوستوں کے ساتھ بیٹھک ہوتی۔ حلقے میں نجیب ہارون اور عارف علوی بھی شامل تھے۔ بیٹھ کر سوچا کرتے، کوئی سیاسی پارٹی جوائن کی جائے۔ مزاج سے مطابقت رکھنے والا کوئی پلیٹ فورم دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پھر منظر میں عمران خان کی آمد ہوئی۔ فردوس شمیم نقوی کو ایک امید نظر آئی۔ مئی 1996 میں عمران خان سے ملاقات ہوئی۔ پارٹی کا حصہ بن گئے۔

آنے والے برسوں میں، جب پارٹی تشکیل کے مراحل سے گزر رہی تھی، خاصے سرگرم نظر آئے۔ کراچی کی سطح پر کام کیا۔ اوروں کی الیکشن مہم چلائی۔ 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں خود چیئرمین کی نشست پر کھڑے ہوئے۔ بہادر آباد سے فاتح قرار پائے۔ گلشن اقبال سے شکست ہوئی، جسے وہ دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ہم نے سوال کیا، بلدیاتی انتخابات میں تو کراچی میں رینجرز موجود تھی، پی ٹی آئی پھر بھی دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔ کہنے لگے،''یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ اُس دن رینجرز پولنگ بوتھ کے اندر اور باہر نہیں تھی۔ پھر پاکستان کی سیاست میں، چاہے کراچی ہو، سندھ ہو، پنجاب یا بلوچستان، شفاف الیکشن نہیں ہوسکتے۔ تھوڑی بہت بہتری خیبرپختون خوا میں آئی ہے۔

سبب یہ ہے کہ وہاں فیوڈل ازم کم زور ہوا۔ جہاں تک کراچی کا تعلق ہے، ایم کیو ایم نے اپنے دور میں بے تحاشہ سیاسی بھرتیاں کیں۔ یہی افراد الیکشن میں پریزائیڈنگ آفسر بنتے ہیں۔ جس نے نوازا تھا، اُسی کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ کے نوازے ہوئے لوگ ہیں۔ اندرون سندھ میں پی پی کے نوازے ہوئے لوگ۔ اسی وجہ سے پی پی 71ء سے پاور میں ہے۔''

نظریاتی کارکن کہاں گئے؟

عام خیال ہے کہ 30 اکتوبر 2011 کے لاہور جلسے کے بعد پارٹی کے نظریاتی اور بانی ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا، روایتی سیاست داں آگے آگئے؟ کہنے لگے،''ایسا نہیں ہے۔ بانی ارکان مرکزی عہدوں پر رہے۔ عارف علوی 2013 تک سیکریٹری جنرل تھے۔ اب بھی سندھ کے صدر ہیں۔ عمران اسماعیل ایڈیشنل جنرل سیکریٹری رہے۔ نعیم الحق بھی بانی رکن ہیں۔

دراصل 30 اکتوبر 2011 کے جلسے سے پہلے ہماری یہ پالیسی تھی کہ عمران خان ہی میڈیا میں پارٹی کی نمایندگی کریں۔ اِس سے پارٹی کی مقبولیت بڑھی۔ بعد میں مختلف سیاست داں پارٹی میں شامل ہوئے۔ جو لوگ میڈیا میں آنے لگے، وہ چہرہ تصور کیے جاتے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ پی ٹی آئی کبھی کام یاب نہیں ہو سکتی، کیوں کہ اس میں بڑا سیاست داں نہیں۔ بعد میں معروف سیاست داں آئے۔ مگر یہ بھی پیش نظر رکھیں کہ روایتی سیاست داں کو پارٹی کے مزاج سے ہم آہنگ میں ہونے میں دقت ہوتی ہے۔''

الیکشن، کراچی اور پی ٹی آئی

2013 میں پی ٹی آئی کو کراچی میں، حیران کن طور پر، آٹھ لاکھ ووٹ پڑے۔ فردوس شمیم نقوی اُنھیں خاموش ووٹر کہتے ہیں، جو عمران خان کے نعرے پر باہر نکلے۔ ''سیکیورٹی ادارے ہم سے کہتے ہیں، اگر اس روز کراچی میں شفاف الیکشن ہوتا، تو آپ تیرہ سیٹیں نکال سکتے تھے۔ غیرجانب دار مبصرین بھی آٹھ سیٹوں پر متفق ہیں۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کے ساتھ اینٹی ایم کیو ایم ووٹ بھی تھا۔''

سوال ہوا، کیا 2018 میں بھی وہ اینٹی ایم کیو ایم ووٹ ہی پر انحصار کریں گے، کیوں کہ گراؤنڈ پر تو پی ٹی آئی نظر نہیں آتی؟ ان کا کہنا تھا، کراچی کا ووٹر باشعور اور تعلیم یافتہ ہے، 2018 میں اُسے پھر فیصلہ کرنا ہوگا، کیا وہ Status quo کو برقرار رکھے گا۔ ''پی ٹی آئی کو درپیش اصل چیلینج یہ نہیں کہ وہ ہمیں ووٹ دے گا یا نہیں، اصل ایشو یہ ہے کہ وہ ووٹ دے گا بھی یا نہیں۔ ہمارے انتخابی نظام میں کئی خرابیاں ہیں۔''

کیا یہ خیال درست نہیں کہ پی ٹی آئی، کراچی یونٹ کی کارکردگی ناقص رہی؟ فردوس شمیم نقوی کے بہ قول،''اِس بات میں کسی حد تک سچائی بھی ہوگی۔ البتہ کراچی نے ہمیں دو تین بار بھرپور سپورٹ کیا۔ جیسے 25 دسمبر 2011 کا مزار قائد کا جلسہ، جو پاکستانی تاریخ کا سبب سے بڑا جلسہ تھا۔ الیکشن میں اتنا ووٹ پڑنا۔ آٹھ لاکھ تو شناخت ہوا۔ ایک لاکھ 75 ہزار رد ہوا تھا۔

جانے کتنا جلا دیا گیا۔ تو ہمارا ووٹ 12 لاکھ کے قریب بنتا ہے۔ پھر دھرنے کے دوران ہڑتال کی کال۔ پی ٹی آئی کے پاس کوئی فورس نہیں تھی، شہریوں نے رضاکارانہ طور پر شہر بند کیا۔ کچھ عرصے قبل خوف کا عنصر تھا۔ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جاتا تھا، اس لیے گراس روٹ لیول پر ہم منظم نہیں ہوسکے۔ اب کراچی میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے، اسے ہم پُر کریں گے۔ تنظیم سازی کے معاملات میں جلد تیزی آئے گی۔''

6 ستمبر 2016 کو کیا ہوا؟

25 دسمبر 2011 کا جلسہ تو کام یاب تھا، مگر 6 ستمبر 2016کو کیا ہوا کہ نشتر پارک خالی رہا؟ جواب میں کہا، اس روز پیغام اہم تھا، دیگر عناصر ثانوی تھے۔ ''اس وقت یوں لگ رہا تھا کہ اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے، اُنھیں ملک دشمن قرار دیا جارہا تھا۔ وہ جلسہ اُس تاثر کے خلاف تھا۔ پھر اس روز ورکنگ ڈے تھا، نشتر پارک کی لوکیشن بھی مسئلہ بنی، وہاں پارکنگ کے لیے جگہ نہیں تھی۔''

معاملہ فیصل واوڈا اور علی زیدی کا

کچھ حلقوں کا خیال کہ جلسے کے اگلے روز شارع فیصل پر فیصل واوڈا کا ''شو'' 6 ستمبر کی ناکامی کی جھنجھلاہٹ تھی، مگر وہ اس سے متفق نہیں۔ ان کے مطابق جھنجھلاٹ فوری ہوتی ہے، انھوں نے تو پہلے پریس کانفرنس کی، شہر بھر میں بینر لگے، پھر ایونٹ ہوا۔ یعنی یہ خیال پہلے سے ان کے ذہن میں تھا۔ ''دراصل اِس جھنجھلاہٹ کی وجہ یہ تھی کہ ایک شخص سات آٹھ ماہ کوشش کرکے لندن سے ثبوت لایا، حکومت کو دیے، مگر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔

پاناما لیکس پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ آخر یہ کون سا نظام ہے۔'' ان کے مطابق پارٹی نے اُن کے موقف کی حمایت کی تھی، ایکشن کی نہیں۔ پی ٹی آئی نے نہ تو کبھی کوئی دکان بند کروائی ہے، نہ ہی سڑک بلاک کی۔ یہ معاملہ اب سیکریٹری جنرل کے پاس ہے، فیصل واوڈا سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔

جمہوری نظام میں ووٹر سب سے اہم ہوتا ہے، مگر کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی شکست کے بعد پی ٹی آئی راہ نما، علی زیدی ووٹرز ہی کو طعنے دیتے نظر آئے۔ اس پر اُن کی رائے پوچھی۔ فردوس شمیم نقوی نے مذمت کے بجائے ایک جواز پیش کیا،''پی ٹی آئی نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ووٹرز کو جھنجھوڑے، جگائے۔ کراچی کے عوام کو سوچنا چاہیے کہ اُنھوں نے اس روز پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا تھا یا خلاف ووٹ ڈالا۔''

جسٹس وجیہہ الدین احمد کے خلوص پر اُنھیں شک نہیں، ان کے کردار کے قائل۔ خواہش مند ہیں کہ استعفے کے معاملے پر جسٹس صاحب اور پارٹی چیئرمین، دونوں نظر ثانی کریں۔

کتابوں اور فلموں کی باتیں

خوش لباس آدمی ہیں۔ پینٹ شرٹ بھی پہنتے ہیں، شلوار کرتا بھی۔ کھانے میں دال سے رغبت۔ ہر قسم کا موسم بھاتا ہے۔ نصرت فتح علی خان کی آواز پسند۔ امیتابھ بچپن اور عامر خان کی صلاحیتوں کے معترف۔

غالب اور فیض کی شاعری کے وہ مداح۔ مشتاق احمد یوسفی کا مزاح، مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے اور اشفاق احمد کے ڈرامے بہت پسند۔ انگریزی فکشن بھی مطالعے میں رہتا ہے۔ آج کل صوفی ازم مطالعے کا محور ہے۔ اس موضوع پر مغربی مصنفین کو پڑھ رہے ہیں۔ کتاب Why Nations Fail بھی مطالعے میں ہے۔ 84ء میں شادی ہوئی۔ بیگم ڈاکٹر ہیں۔

خدا نے چار بیٹیوں، ایک بیٹے سے نوازا۔ دو بیٹیاں Visually handicapped ہیں۔ اس تلخ تجربے نے تبدیل بھی کیا، بہت کچھ سکھایا بھی۔ بیگم نے اِس محاذ پر بہت ساتھ دیا۔ بچیوں نے بھی بڑے حوصلے سے اس مشکل کا مقابلہ کیا۔ تعلیم حاصل کی، ملازمت کی۔ زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کا دو لخت ہونا زندگی کا سب سے کرب ناک لمحہ تھا۔

جہانگیر ترین کے لیے مشورہ

یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ جہانگیر ترین سے متعلق کارکنوں میں کچھ بے چینی پائی جاتی ہے۔ ''ہم تو ووکرز میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ جب چار افراد تھے، تب بھی ہم پارٹی میں تھے، اب چار کروڑ ہیں، تب بھی ہم ہیں۔ جہانگیر ترین بعد میں آئے، تو ان کا گراس روٹ پر ووکرز سے رابطہ نہیں۔ پھر ان کا فوکس پنجاب کی سیاست رہی۔ میرا اُنھیں یہی مشورہ ہے کہ وہ جتنا ووکرز سے گھلیں ملیں گے، اتنی اُنھیں آسانی ہوگی۔ پھر ایک پہلو اور ہے۔ وہ کام یاب اور سیلف میڈ انسان ہیں، ایسے افراد سے لوگ رنجش اور فاصلہ رکھتے ہیں۔ سوچتے ہیں، وہ اپنی دولت سے اُنھیں مرغوب کرنا چاہتے ہیں۔''

تین ایم کیو ایم اور عشرت العباد

کراچی پر بات ہوئی، تو ایم کیو ایم کا ایشو بھی زیر بحث آیا۔ ان کے بہ قول،''ایم کیو ایم کو بڑی سوچ بچار کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ یہاں آکر بسنے والے قائد اعظم کے اصول Unity, faith and discipline پر یقین رکھتے تھے۔ ایم کیو ایم نے صرف discipline یاد رکھا۔ میرے نزدیک ایم کیو ایم کے مستقبل کی دو صورتیں ہیں، یا تو یہ بٹ بٹ کر ختم ہوجائے گی، یہ پھر تینوں ایم کیو ایم، حقیقی، پاک سر زمین اور ایم کیو ایم پاکستان، عشرت العبار کی سرپرستی میں ایک ہو جائیں گی۔'' جب ہم نے کہا، اس ضمن میں پرویز مشرف کا نام بھی لیا جا رہا ہے، تو نفی میں گردن ہلائی۔ ''پرویز مشرف کا سیاست میں اب کوئی مستقبل نہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں