شاباش بابر اعظم
بابراعظم کو قوم مبارکباد پیش کرتی ہے کہ اس نے پاکستانیوں کے جنون یعنی کرکٹ کی لاج رکھی۔
KARACHI:
پاکستان کرکٹ پر سیاہ بادل طویل مدت سے چھائے ہوئے ہیں اور یہ سائے تاحال بھی منڈلا رہے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل شاہد آفریدی کو کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تو کچھ جذباتی دوست لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے۔ ہمارا مدعہ یہ تھا کہ ایسا لیڈر جس کی اپنی کارکردگی مشکوک ہو وہ کیونکر کسی ٹیم کی قیادت کرے؟ لیکن کیا کرتے کروڑوں کی اشتہاری پارٹی کی سرمایہ کاری تھی اس لئے آخری معرکے کے لئے سپہ سالار بنا دیا گیا۔ پھر وہی ہوا جس کے خدشات تھے کپتان کی ناقص کارکردگی، مینجمنٹ کا اختیارات سے کھیل کا یہ نتیجہ نکلا کہ کھلاڑیوں میں گروہ بندی عروج پر پہنچ گئی۔
اس سے بڑی بے وقوفی کیا ہوگی جنگ کے دوران گھوڑے تک بدلنے سے گریز کیا جاتا ہے اور یہاں سپہ سالار بدلنے کی منادی کرادی گئی، چنانچہ پاکستان میگا ایونٹ میں عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔ پھر وہی ہوا ایک کپتان کو ہٹا کر ٹھیکے داروں کے ٹولے کو بچالیا گیا۔ سنجیدگی سے کارکردگی کا جائزہ نہ لیا گیا، سلیکٹرز اور کوچ اپنی من مانیاں کرتے چلے گئے اور پاکستانی قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہتا چلا گیا۔ نئے کوچ مکی آرتھر اور چیف سیلیکٹر انضمام الحق کی محنتیں اپنی جگہ لیکن پاکستان کی کرکٹ کی دنیا میں باعزت واپسی میں نہایت کلیدی کردار ''کنگ مصباح '' کا ہے جس نے پاکستانی کرکٹ کو واپس ٹریک پر لاکھڑا کیا ہے۔
مصباح الحق کا شمار پاکستان کی تاریخ میں واحد کپتان کی صورت ہوگا جو'' ون مین آرمی'' کی مانند کھیلتا رہا اور ساری تنقید بھی برداشت کرتا رہا۔ پھر اسے اللہ نے سخت حریف انگلینڈ کے مقابلے میں سرفراز کیا اور قومی ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں نمبرون ٹیم بن کر سامنے آئی۔ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ مصباح الحق پاکستانیوں کی آنکھ کا تارا بن گیا اور سب ہی کی زبان کپتان مصباح کے گن گانے لگی۔ موجودہ پاک ویسٹ انڈیز سیریز کے بارے میں ایک دوست نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ زمبابوے کی ٹیم کا شکار کرکے خود کو تیس مارخاں ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ایک لمحے کے لیے میرا ماتھا ٹھنکا پھر میں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے ویسٹ انڈیز ٹیم کے موجودہ تجربہ کار کھلاڑیوں کو اسکواڈ میں ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کی تو دوست کی بات میں صداقت پائی گئی۔ دنیا کی ہر ٹیم ہی کمزور حریفوں کے ساتھ کھیل کر اپنی رینکنگ کے ساتھ ساتھ اپنے کھلاڑیوں کا مورال بلند کرتی ہے، چنانچہ ہوم گراؤنڈ پر سیریز کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کی بدقسمتی کہ تاحال وطن عزیز میں کھیل کے میدان نہیں سجائے جاسکے، تو مجبوراََ متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر پنجہ آزمائی جاری ہے۔
ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کی پاکستان کے ہاتھوں درگت نے ہماری کرکٹ کو آکسیجن مہیا کیا ہے اور سب سے زیادہ توانائی تو ہمارے مڈل آرڈر بیٹنگ لائن اپ کو بابر اعظم کی صورت میسر آئی ہے۔ بابراعظم یقینی طور پر ایک بہترین کھلاڑی ہے اور اس نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں اپنا آپ منوا رکھا تھا لیکن قومی ٹیم میں اسے بہت نیچے کے نمبر پر کِھلا کر ضائع کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ بھلا ہو کپتان اظہرعلی اور چیف سلیکٹر انضمام کا کہ جنہوں نے اس کھلاڑی پر اعتماد کیا اور اسے کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ بابراعظم نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گئے پہلے ایک روزہ میچ میں سینچری ماری تو پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ دوسری سینچری ماری تو میرا دل کہہ رہا تھا کہ آخری میچ میں بھی 100 ضرور کرے گا۔ اللہ کا فضل ہوا، اور بابراعظم نے تیسری سنچری بھی جڑ دی اور ایک روزہ کرکٹ میں لگاتار تیسری سینچری بنانے والے دنیا کے آٹھویں اور ظہیر عباس اور سعید انور کے بعد پاکستان کے تیسرے بلے باز بن گئے، جبکہ ایسا کرنے والے کم عمر ترین کھلاڑیوں میں بابر اعظم کا نمبر جنوبی افریقی بلے باز Quinton De Kock سے ایک نمبر پیچھے ہے، لیکن ایک ریکارڈ ایسا بھی جس میں بابر اعظم Quinton De Kock سے بھی آگے نکل گئے اور وہ میدان تین میچوں کی سیریز میں کم عمر میں سب سے زیادہ 342 رنز کا ریکارڈ ہے۔ ایک روزہ کرکٹ میں سب سے زیادہ لگاتار سنچریوں میں سب سے آگے سری لنکا کے کمار سنگاکارا ہیں جنہوں نے گزشتہ ورلڈ کپ میں لگاتار چار سنچریاں بناکر سب کو پیچھے چھوڑی دیا، لیکن بابر اعظم کے پاس یہ سنہری موقع موجود ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف اگلی سیریز میں وہ بھی یہ سنگ میل حاصل کرلیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ کو اس سے ایک سبق ضرور سیکھنا چاہیئے کہ کھلاڑی اور سپاہی اپنی صلاحیتوں کو تب ہی منواسکتا ہے جب اسے موزوں ماحول اور کھیلنے کا مناسب موقع دیا جائے۔ کتنے ہی پاکستانی بلے بازوں کو جان بوجھ کرغلط پوزیشن پر کھلا کر ضائع کیا گیا۔ اسد شفیق اس کی ایک دردناک مثال کی صورت میں موجود ہیں۔
بابراعظم کو قوم مبارکباد پیش کرتی ہے کہ اس نے پاکستانیوں کے جنون یعنی کرکٹ کی لاج رکھی۔ لیکن اس نوجوان کھلاڑی کو ابھی اور اپنے آپ کو منوانا ہوگا، آسٹریلیا جیسے سخت حریف کی مشکل وکٹوں پر ثابت قدم رہنا ہوگا، اور یہ ذمہ داری صرف بابر اعظم یا کچھ کھلاڑیوں کی نہیں ہے بلکہ اِس مشکل ترین سیریز میں ہر ایک کھلاڑی کو صلاحیتوں سے بڑھ کر پرفارم کرنا ہوگا تاکہ رینکنگ میں اضافہ ہو اور یوں پاکستان بغیر کوالیفائنگ راونڈ کھیلے ورلڈ کپ میں شامل ہوجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان کرکٹ پر سیاہ بادل طویل مدت سے چھائے ہوئے ہیں اور یہ سائے تاحال بھی منڈلا رہے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل شاہد آفریدی کو کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تو کچھ جذباتی دوست لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے۔ ہمارا مدعہ یہ تھا کہ ایسا لیڈر جس کی اپنی کارکردگی مشکوک ہو وہ کیونکر کسی ٹیم کی قیادت کرے؟ لیکن کیا کرتے کروڑوں کی اشتہاری پارٹی کی سرمایہ کاری تھی اس لئے آخری معرکے کے لئے سپہ سالار بنا دیا گیا۔ پھر وہی ہوا جس کے خدشات تھے کپتان کی ناقص کارکردگی، مینجمنٹ کا اختیارات سے کھیل کا یہ نتیجہ نکلا کہ کھلاڑیوں میں گروہ بندی عروج پر پہنچ گئی۔
اس سے بڑی بے وقوفی کیا ہوگی جنگ کے دوران گھوڑے تک بدلنے سے گریز کیا جاتا ہے اور یہاں سپہ سالار بدلنے کی منادی کرادی گئی، چنانچہ پاکستان میگا ایونٹ میں عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔ پھر وہی ہوا ایک کپتان کو ہٹا کر ٹھیکے داروں کے ٹولے کو بچالیا گیا۔ سنجیدگی سے کارکردگی کا جائزہ نہ لیا گیا، سلیکٹرز اور کوچ اپنی من مانیاں کرتے چلے گئے اور پاکستانی قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہتا چلا گیا۔ نئے کوچ مکی آرتھر اور چیف سیلیکٹر انضمام الحق کی محنتیں اپنی جگہ لیکن پاکستان کی کرکٹ کی دنیا میں باعزت واپسی میں نہایت کلیدی کردار ''کنگ مصباح '' کا ہے جس نے پاکستانی کرکٹ کو واپس ٹریک پر لاکھڑا کیا ہے۔
مصباح الحق کا شمار پاکستان کی تاریخ میں واحد کپتان کی صورت ہوگا جو'' ون مین آرمی'' کی مانند کھیلتا رہا اور ساری تنقید بھی برداشت کرتا رہا۔ پھر اسے اللہ نے سخت حریف انگلینڈ کے مقابلے میں سرفراز کیا اور قومی ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں نمبرون ٹیم بن کر سامنے آئی۔ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ مصباح الحق پاکستانیوں کی آنکھ کا تارا بن گیا اور سب ہی کی زبان کپتان مصباح کے گن گانے لگی۔ موجودہ پاک ویسٹ انڈیز سیریز کے بارے میں ایک دوست نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ زمبابوے کی ٹیم کا شکار کرکے خود کو تیس مارخاں ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ایک لمحے کے لیے میرا ماتھا ٹھنکا پھر میں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے ویسٹ انڈیز ٹیم کے موجودہ تجربہ کار کھلاڑیوں کو اسکواڈ میں ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کی تو دوست کی بات میں صداقت پائی گئی۔ دنیا کی ہر ٹیم ہی کمزور حریفوں کے ساتھ کھیل کر اپنی رینکنگ کے ساتھ ساتھ اپنے کھلاڑیوں کا مورال بلند کرتی ہے، چنانچہ ہوم گراؤنڈ پر سیریز کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کی بدقسمتی کہ تاحال وطن عزیز میں کھیل کے میدان نہیں سجائے جاسکے، تو مجبوراََ متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر پنجہ آزمائی جاری ہے۔
ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کی پاکستان کے ہاتھوں درگت نے ہماری کرکٹ کو آکسیجن مہیا کیا ہے اور سب سے زیادہ توانائی تو ہمارے مڈل آرڈر بیٹنگ لائن اپ کو بابر اعظم کی صورت میسر آئی ہے۔ بابراعظم یقینی طور پر ایک بہترین کھلاڑی ہے اور اس نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں اپنا آپ منوا رکھا تھا لیکن قومی ٹیم میں اسے بہت نیچے کے نمبر پر کِھلا کر ضائع کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ بھلا ہو کپتان اظہرعلی اور چیف سلیکٹر انضمام کا کہ جنہوں نے اس کھلاڑی پر اعتماد کیا اور اسے کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ بابراعظم نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گئے پہلے ایک روزہ میچ میں سینچری ماری تو پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ دوسری سینچری ماری تو میرا دل کہہ رہا تھا کہ آخری میچ میں بھی 100 ضرور کرے گا۔ اللہ کا فضل ہوا، اور بابراعظم نے تیسری سنچری بھی جڑ دی اور ایک روزہ کرکٹ میں لگاتار تیسری سینچری بنانے والے دنیا کے آٹھویں اور ظہیر عباس اور سعید انور کے بعد پاکستان کے تیسرے بلے باز بن گئے، جبکہ ایسا کرنے والے کم عمر ترین کھلاڑیوں میں بابر اعظم کا نمبر جنوبی افریقی بلے باز Quinton De Kock سے ایک نمبر پیچھے ہے، لیکن ایک ریکارڈ ایسا بھی جس میں بابر اعظم Quinton De Kock سے بھی آگے نکل گئے اور وہ میدان تین میچوں کی سیریز میں کم عمر میں سب سے زیادہ 342 رنز کا ریکارڈ ہے۔ ایک روزہ کرکٹ میں سب سے زیادہ لگاتار سنچریوں میں سب سے آگے سری لنکا کے کمار سنگاکارا ہیں جنہوں نے گزشتہ ورلڈ کپ میں لگاتار چار سنچریاں بناکر سب کو پیچھے چھوڑی دیا، لیکن بابر اعظم کے پاس یہ سنہری موقع موجود ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف اگلی سیریز میں وہ بھی یہ سنگ میل حاصل کرلیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ کو اس سے ایک سبق ضرور سیکھنا چاہیئے کہ کھلاڑی اور سپاہی اپنی صلاحیتوں کو تب ہی منواسکتا ہے جب اسے موزوں ماحول اور کھیلنے کا مناسب موقع دیا جائے۔ کتنے ہی پاکستانی بلے بازوں کو جان بوجھ کرغلط پوزیشن پر کھلا کر ضائع کیا گیا۔ اسد شفیق اس کی ایک دردناک مثال کی صورت میں موجود ہیں۔
بابراعظم کو قوم مبارکباد پیش کرتی ہے کہ اس نے پاکستانیوں کے جنون یعنی کرکٹ کی لاج رکھی۔ لیکن اس نوجوان کھلاڑی کو ابھی اور اپنے آپ کو منوانا ہوگا، آسٹریلیا جیسے سخت حریف کی مشکل وکٹوں پر ثابت قدم رہنا ہوگا، اور یہ ذمہ داری صرف بابر اعظم یا کچھ کھلاڑیوں کی نہیں ہے بلکہ اِس مشکل ترین سیریز میں ہر ایک کھلاڑی کو صلاحیتوں سے بڑھ کر پرفارم کرنا ہوگا تاکہ رینکنگ میں اضافہ ہو اور یوں پاکستان بغیر کوالیفائنگ راونڈ کھیلے ورلڈ کپ میں شامل ہوجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارفکےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔