دنیا کی سب سے بڑی قانون شکن حکومت
آج نام نہاد سپر پاور امریکا ایسے مسائل سے دو چار ہے کہ جو قوتیں کل اس کی دوست تھیں، آج اس کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔
LONDON:
امریکا خود کو عالمی طاقت یعنی سپر پاور سمجھتا ہے۔ یہ ایک ایسے ادھورے خواب کی طرح ہے جس کی کوئی تعبیر ہی نہیں ہے۔ در اصل امریکا اس وقت ایسی حالت میں ہے کہ جیسے کسی اور کے لیے گڑھا کھودنا خود اپنے لیے مصیبت بن جاتا ہے۔ آج کل اس عالمی استعمار اور دہشت گرد امریکا کی حالت اسی طرح کی ہے۔ مثلاً جو گڑھا اس نے آج سے دو عشرے قبل سوویت یونین کے لیے کھودا تھا اب خود اسی گڑھے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بس اب کچھ دیر ہے کہ اپنی غلط پالیسیوں کے باعث وہ اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں خود ہی گر چکا ہو گا۔
آج نام نہاد سپر پاور امریکا ایسے مسائل سے دو چار ہے کہ جو قوتیں کل اس کی دوست تھیں، آج اس کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔ امریکا ان معاملات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ وہ قوتیں جو سوویت یونین کے خاتمے تک امریکا کا ساتھ دے رہی تھیں، انھوں نے سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے ہی خود کو امریکا سے الگ کر لیا۔ یعنی یورپ کا اتحاد اور مشترکہ کرنسی نے امریکا کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ رہی سہی کسر امریکا کے ان دوستوں نے جن کو کل تک امریکا اپنا ہیرو بتاتا تھا اور آج دہشت گرد کہتا ہے، پوری کر دی۔
آج اگر دنیا میں کہیں سب سے زیادہ قوانین اور اخلاقیات کی پامالی ہو رہی ہے تو وہ جگہ امریکا ہی ہے۔
امریکا نے ایک خود ساختہ جھوٹ کو جواز بنا کر عراق پر جنگ مسلط کر کے قبضہ کیا۔ لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور کروڑوں عراقی شہریوں کو بے گھر کر دیا۔ اسی طرح عراق سے قبل افغانستان پر دھاوا بولا اور آج تک وہاں بھی لاکھوں قتل عام کر چکا ہے۔ ا سی طرح پاکستان میں امریکا نے دہشت گردی کے بازار کو گرم کر رکھا ہے۔ ماضی کی کئی مثالوں میں جاپان پر ایٹم بم گرانا، کوریا، ویت نام ، افریقہ اور خلیج فارس کے خطے سمیت کئی علاقوں میں جنگ مسلط کرنے کی روش ہمارے سامنے موجود ہے۔
آج انکل سام جس بات کا سب سے زیادہ پروپیگنڈا کرتا نظر آتا ہے وہ القاعدہ اور طالبان ہیں۔ یعنی وہ قوتیں جن کو کل تک اس نے پوری دنیا میں دندنانے کی آزادی دے رکھی تھی اور اپنا ہیرو قرار دیا تھا، آج دنیا کے وسائل پر قابض ہونے کی غرض سے انھی کو امن کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
کہیں فوجوں کی مدد سے براہ راست انسانیت کا خون بہاتا ہے اور کہیں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈرون طیاروں کے حملوں میں بے گناہ اور نہتے لوگوں کا شکار کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کر رہا ہے یعنی بے گناہ اور نہتے معصوموں کو قتل کرنا امریکی حکومت کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔
ایک طرف اوباما انتظامیہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات کرتی ہے اور اپنے مفادات کے لیے انسانی حقوق کا ڈھونگ رچاتی ہے۔ انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرتے ہوئے آزاد اور خود مختار ممالک کے خلاف گھیرا تنگ کر دیتی ہے۔ دوسری طرف فلسطین میں امریکی سرپرستی میں اسرائیلی دہشت گردوں کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام پر امریکا کی حکومت ہی نہیں، انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ امریکا اپنے اتحادی ممالک کو بھی مجرمانہ خاموشی اختیار رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
امریکا قانون کی حکمرانی ، انسانی حقوق کی پابندی اور مظلوموں کی حمایت کا دعوی کرتا ہے، لیکن یہ محض کھوکھلے دعوے ہیں۔ امریکی صدور اپنی تقریروں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم اس کوشش میں ہیں کہ قانون توڑنے والی حکومتیں عوام کے سامنے جواب دیں۔ لیکن دنیا میں امریکی حکومت سے بڑھ کر قانون توڑنے والی حکومت کون سی ہے؟
امریکی حکومت نے کس قانون کے تحت افغانستان، عراق، پر قبضہ کیا۔ کس قانون کے تحت پاکستان میں ڈرون حملے کرتا ہے اور کون سا قانون ہے جو امریکیوں کو کہتا ہے کہ وہ لیبیا، یمن، فلسطین، افریقہ اور ایشیائی ممالک اور ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ آخر کون سا قانون امریکا کو اسرائیل کے ذریعے لبنان پر حملہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اسرائیل غزہ پر حملہ کرے اور 22 دن تک فاسفورس بم برساتا رہے لیکن وہ اقوام متحدہ میں لبنان کا دفاع کرنے والی حزب اللہ اور فلسطین کا دفاع کرنے والی حماس کو دہشت گرد قرار دلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ کون سا قانون ہے جو امریکا کو اجازت دیتا ہے کہ اسرائیل کے ذریعے غزہ کا 4 سال سے زائد محاصرہ کروائے رکھے۔ یہ کون سا قانون ہے جو امریکا کو اجازت دیتا ہے کہ وہ شام کے اندر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرے۔
مجھے بتائیں کہ آخر کون سا ایسا قانون ہے جس نے امریکا کو اجازت دی ہے کہ وہ درج بالا افعال انجام دے اور دنیا میں جہاں چاہے قتل و غارت کا بازار گرم کرے۔ دوسری طرف اسرائیل جیسی غیر قانونی اور غاصب صیہونی ریاست کے ایٹمی اسلحے کے منصوبوں اور ایٹم بموں کو جائز تصور کرتا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کون سے بین الاقوامی قوانین ہیں کہ جن کی رو سے امریکا اور اسرائیل تو ایٹمی ہتھیار بنا سکتے ہیں۔ اور نہ صرف بنا سکتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں مظلوم قوموں پر آزما بھی رہے ہیں۔
جب کہ ایران اور دیگر ممالک جو اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں کوشاں ہیں، ان پر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک پابندی لگا دیتے ہیں۔ اگر اسرائیل کے پاس 2 سو سے زائد ایٹم بم موجود ہوں تو وہ قوانین کے زمرے میں نہیں آتے۔ اور اگر پاکستان ایٹمی طاقت بن جائے تو پاکستان کے ایٹمی منصوبوں کو تہہ تیغ کرنے کے لیے پاکستان کو مکمل غلامی میں لینے کی سازش کی جاتی ہے۔ آخر یہ کون سا قانون ہے جس نے امریکا کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکی حکومت لاقانونیت کا مظہر ہے۔ دنیا کی وہ حکومت جو جنگل کے قانون یعنی بے لگام طاقت کے بے لگام استعمال کے حیوانی اصول پر عمل پیرا ہے وہ امریکی حکومت ہے۔ آج فتنہ گر قوتیں مسلمانوں کے اندر مذہبی اختلافات کو ایجاد کر رہی ہیں۔ مسلمان ممالک کی اسٹرٹیجک اہمیت اور تیل اور دیگر قدرتی ذخائر سے مالا مال ہونے کے ناتے عالمی استعماری قوتوں کی نظریں ان پر جمی ہوئی ہیں۔ اور جو چیز ان کے پست مقاصد کے سامنے رکاوٹ بنی ہوئی ہے وہ اسلام ہے۔ اسی لیے وہ مسلمانوں کے اندر مذہبی اختلافات ایجاد کر کے انھیں ہوا دے رہے ہیں۔ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ان حقائق کو آشکار کریں۔
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ امریکی دولت کے انبار ختم ہو رہے ہیں۔ امریکا میں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ درجنوں بینکوں اور کمپنیوں کا دیوالیہ ہو رہا ہے۔ جس فوجی قوت پر امریکا کو ناز تھا اس فوجی قوت کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے جس کی تازہ مثال حزب اللہ لبنان کی جانب سے مقبوضہ فلسطین بھیجا جانے والا ایک جاسوس ڈرون طیارہ ہے۔ اس نے امریکی اور اسرائیلی ٹیکنالوجی کو شکست فاش دے دی ہے۔ اس ڈرون طیارے نے چار گھنٹے سے زائد مقبوضہ فلسطین کی فضائوں میں پرواز کرنے کے ساتھ اسرائیل کی اہم تنصیبات کی معلومات بھی فراہم کیں۔ حزب اللہ کا ڈرون طیارہ امریکا کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی ٹیکنالوجی کا جواب تھا۔
آج امریکا تنہا ہو تا جا رہا ہے۔ امریکی خوابوں کی تعبیر کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹیں موجود ہیں۔ آج دنیا میں امریکی حکومت قانون شکنی کی وجہ سے سب سے زیادہ نفرت کی مستحق قرار دی جا رہی ہے۔ دنیا حیران و پریشان ہے کہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لیے قائم کیا جانے والا عالمی ادارہ بھی امریکی حکومت کی قانون شکنیوں اور سازشوں سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ آج امریکا اقوام متحدہ کو ایک کٹھ پتلی کی طرح استعمال کر رہا ہے لیکن کیا یہ کھیل زیادہ عرصہ جاری رہ پائے گا؟
امریکی حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ سنبھل جائے ۔ اپنی اصلاح کرے اور دنیا بھر میں کھولے گئے محاذوں کو بند کر کے اپنے ملک کے عوام کی خدمت کرے۔ دنیا کے مظلوم عوام کی حکومت کا وقت شروع ہو چکا ہے ۔