برداشت کی حد
وہ پیرس والوں کے لہجے میں فرانسیسی بولتی، وہ ساری ریاست میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی عورت تھی۔
سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ اس کی شادی تھی۔میری ٹوڈ سے شادی کے دوسرے دن ہی لنکن کو احساس ہوگیا کہ وہ دونوں زندگی کے ہر شعبے میں بالکل متضاد مزاج کے مالک ہیں اورکبھی خوش نہیں رہ سکتے۔ ان کی خواہشات،تربیت اورذوق بالکل مختلف تھے۔مثلاً میری ٹوڈ بڑی نمائش پسند اور شیخی خور تھی۔
وہ پیرس والوں کے لہجے میں فرانسیسی بولتی، وہ ساری ریاست میں سب سے زیادہ پڑھی لکھی عورت تھی۔ لیکن اس کے برعکس لنکن اپنی ساری زندگی میں تین سو دن سے زیادہ اسکول نہ گیا تھا۔میری ٹوڈ کو اپنے خاندان پر بہت ناز تھا ۔اس کے رشتے دار گورنراور فوج میں جرنیل وغیرہ تھے اور اس کا چچا بحری فوج کا سیکریٹری تھا۔لیکن لنکن کو اپنے خاندان اور شجرہ خاندان پر کسی قسم کا فخر نہ تھا۔ اسپرنگ فیلڈ کی رہائش کے دوران میں اس کا فقط ایک رشتے دار اسے ملنے آیا اور جب وہ مل کر واپس گیا تو اس پر چوری کا الزام لگا دیا گیا۔ میری ٹوڈ لباس اور نمائش کی بے حد شوقین تھی، اس کے برعکس لنکن کو اپنی شکل وشباہت میں ذرا دلچسپی نہ تھی۔
بعض اوقات تو اس کی پتلون کے پائنچے اس کے پائوں میں اٹک رہے ہوتے اور وہ میلے چکٹ ہوتے تھے۔میری ٹوڈ کو آداب محفل سے پوری واقفیت تھی اور وہ ان کا بے حد خیال رکھتی تھی۔ لیکن لنکن کی زیادہ عمر ایک خستہ حال کمرے میں گزری۔کھانے کی میز پر اسے چھری کانٹے کا استعمال نہ آتا تھا جس سے میری کو بے حد کوفت ہوتی تھی۔میری بڑی مغرور اور ضدی تھی لیکن لنکن بڑا منکسر تھا، میری بڑی حاسد تھی اوراگر لنکن کسی عورت کی طرف یونہی سرسری نظر سے دیکھ بھی لیتا تو وہ ہنگامہ برپا کردیتی اس کا حسد اس قدر غیر معقول، تلخ اور بے بنیاد تھا کہ آج بھی پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔
ان کی منگنی کے چند روز بعد ہی لنکن نے اسے خط لکھا کہ وہ اس سے اس قدر محبت نہیں کرتا کہ اس سے شادی کرسکے اس نے یہ خط اپنے دوست جوشوا اسپیڈ کو دیا کہ میری ٹوڈ کو پہنچادے۔ اسپیڈ نے یہ خط کھولا اسے پڑھا اور پھاڑ کر آتش دان میں پھینک دیا اور لنکن سے کہا کہ وہ خود میری ٹوڈ سے ملے، اس نے ایسا ہی کیا جب میری ٹوڈ کو معلوم ہوا کہ وہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا تو وہ رونے لگی، لنکن کی سب سے بڑی کمزوری عورت کے آنسو تھے، لہذا اس نے اسے اپنے بازئوں میں لے لیا اسے چوما اور اپنے الفاظ واپس لے لیے۔ یکم جنوری 1841شادی کا دن مقرر ہوا، شادی کی ہر تیاری ہوچکی تھی مگر لنکن غائب تھا کیوں؟ اس کیوں کا جواب میری ٹوڈ کی بہن نے بعد میں ان الفاظ سے دیا''وہ پاگل ہے۔''
دراصل شادی سے پہلے لنکن کا دماغ اس صدمے سے چکرا گیا تھا، وہ ایک کمرے میں پڑا بس یہی الفاظ بار بار دہرارہا تھا میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔اس کے دوستوں نے اس کی جیبوں کی تلاشی لی تو ایک چاقو نکلا اگر وہ تھوڑی دیر بعد میں آتے تو وہ خودکشی کر چکا ہوتا، وقتی طور پر ان کی شادی ملتوی کردی گئی۔اس کے بعد لنکن نے اپنی زندگی کا سب سے زیادہ پر درد خط لکھا یہ خط لفظ بہ لفظ ذیل میں درج ہے۔''اب میںقابل رحم اور بد قسمت ترین آدمی ہوں اگر میرے موجودہ احساسات بنی نوع انسان کے سارے خاندان میں تقسیم کردیے جائیں تو دنیا میں ایک شخص بھی نظرنہ آئے گا کیا میری حالت کبھی بہتر ہوگی۔
اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں انتہائی دکھ سے کہتا ہوں کہ میری حالت کبھی بہتر نہ ہوگی۔ لیکن موجودہ دلی اور ذہنی کیفیت میرے لیے ناقابل برداشت ہے مجھے مرجانا چاہیے۔ یہی میرے دکھ کا واحد علاج ہے۔''اس واقعے کے تقریباً دو برس بعد تک لنکن میری ٹوڈ سے بے تعلق رہا۔ آخر ایک دن ایک کمرے میں میری ٹوڈ نے لنکن سے کہا کہ اس سے شادی کرنا اس کا فرض ہے اور لنکن نے یہ فرض قبول کرلیا۔
شادی کے بعد ایک صبح مسٹر اورمسز لنکن ایک بورڈنگ ہائوس کے دوسرے لوگوں کے ساتھ ناشتہ کررہے تھے، لنکن کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل گئی جس پر اس کی بیوی کو غصہ آگیا اس نے چائے کی گرم پیالی اٹھا کر لنکن کے منہ پر دے ماری دوسرے لوگ اس کی اس حرکت پر بے حد پریشان ہوئے لنکن خاموش بیٹھا رہا اور اس نے اپنی بیوی کے کسی سوال کا جواب نہ دیا اس نے اسے لعن ملامت بھی نہ کی وہ اسی حالت میں بیٹھا رہا کہ بورڈنگ ہائوس کی مالکہ نے ایک کپڑے سے اس کا منہ اور لباس صاف کیا۔ اس نوعیت کے کئی واقعات لنکن کی گھریلو زندگی میں اکثر پیش آتے رہتے تھے۔
لیکن ہمیں لنکن کی بیوی کو زیادہ کڑی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ انجام کار وہ پاگل ہوگئی اور پاگل ہونے سے پہلے ہی پاگل پن کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوگئے تھے۔ابراہام لنکن کے متعلق جوبات لوگوں کو سب سے زیادہ پسند ہے وہ یہ ہے کہ اس نے اپنی ازدواجی زندگی کے تیئس خوش گوار سال کسی شکایت یا غصے کے بغیر گزرادیے ۔
آج کل پاکستانی سماج جن خوفناک عذابوں میں مبتلا ہے ان میں عدم برداشت سرفہرست ہے یہ ایک ایسی بیماری ہے جو سماج کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہے چاہے سیاست ہو چاہے مذہبی معاملہ یا معاشرتی معاملہ ہو ہم اپنے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔ چونکہ پچھلے 64سالوں میں ہم نے جمہوریت اور جمہوری ثقافت کو ملک اور معاشرے میں شجرِ ممنوعہ قرار دے رکھا تھا اس لیے ہمارے معاشرے میں تخریب کاری اور توڑ پھوڑ ہوتی چلی گئی جمہوریت ایک طرز زندگی ہے جمہوریت چند اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے کا نام ہے جن میں انسانی مساوات ، اختلاف ِ رائے کا حق، برداشت ، فکر و عمل کی آزادی اور مشاورت جیسے اصول شامل ہیں جمہوری معاشرے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے علاوہ معاشرے میں خاندان، دوست احباب، کاروباری مراکز اور گلی کوچوں میں بھی یہ ہی اصول رائج ہوں ۔
غیر جمہوری رویہ رکھنے والے معاشرے میں جمہوری حکومت کیسے چل سکتی ہے اسی طرح غیر جمہوری حکومت معاشرے میں جمہوری رویے پیدا نہیں کرسکتی۔ جمہوریت کی بنیاد جن اصولوں پر ہے وہ ساری انسانیت کی میراث ہے انسانی تاریخ کے تمام حصوں میں تمام علاقوں کے رہنے والے افراد وگروہوں نے جمہوریت کی اخلاقی اقدار تشکیل دینے میں اپنا حصہ ڈالا ہے جمہوریت کے تین بنیادی تقاضے یعنی آزادی ،انصاف اور فلاح انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہیں اس لیے برداشت اور رواداری کو سب سے زیادہ ایک جمہوری معاشرے میں فروغ ملتا ہے۔ لہذا سب سے پہلے ترجیحی طور پر یہ کام کرنا چاہیے کہ جمہوری اداروں اور جمہوری روایات کو مضبوط کیا جائے اور معاشرے میں برداشت کو فروغ دیا جائے۔