نئے صوبوں کا پنڈوراباکس

پارلیمانی کمیشن کا متحرک ہونا سنجیدہ حلقوں کے لیے حیرانی کی بات ہے۔

پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے لیے دانشوروں سمیت تمام فریقوں اور جنوبی پنجاب کے عوام سے 10 دن میں تجاویز طلب کر لی ہیں۔ فوٹو: فائل

موجودہ جمہوری سیٹ اپ کے قیام کے بعد ملک میں نئے صوبوں کی بحث شروع ہوئی ہے۔ پہلے اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھا گیا۔ اس کے بعد پنجاب میں نئے صوبے بنانے کی باتیں شروع ہو گئیں۔ پنجاب میں نئے صوبے بنانے میں حکمران پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتیں پیش ہیں۔

حکومت نے اس سلسلے میں ایک پارلیمانی کمیشن بھی تشکیل دیا ہے' اس کمیشن میں اپوزیشن مسلم لیگ ن نے شرکت سے انکار کر دیا۔ مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ صرف پنجاب میں نہیں بلکہ ملک بھر میں جہاں جہاں نئے صوبے بنانے کی ضرورت ہے' وہاں صوبے بنائے جائیں لہٰذا کمیشن کے مینڈیٹ کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ مسلم لیگ ن کا موقف عقلی' منطقی اور سیاسی لحاظ سے درست لگتا ہے۔نئے صوبے بنانا بری بات ہے نہ غیرآئینی، اس لیے حکومت کو مسلم لیگ ن کے موقف پر غور کرنا چاہیے۔


بہر حال اخباری اطلاعات کے مطابق اگلے روز اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود نئے صوبوں کے قیام کے لیے پارلیمانی کمیشن نے قواعد و ضوابط کی تشکیل کے بعد باضابطہ طور پر کام شروع کر دیا اور پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے لیے دانشوروں سمیت تمام فریقوں اور جنوبی پنجاب کے عوام سے 10 دن میں تجاویز طلب کر لی ہیں جنھیں مدنظر رکھ کر کمیشن سفارشات کو حتمی شکل دے گا جب کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے بھی کمیشن کے بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ پارلیمانی کمیشن کے چیئرمین سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ہمارا کام سفارشات کی تیاری ہے۔ حتمی فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے' کمیشن کا آیندہ اجلاس رواں ہفتے پھر ہو گا۔

اب جب کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے والی ہے اور ملک میں اگلے عام انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی ہے، ایسے موقعے پر پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کے لیے پارلیمانی کمیشن کا متحرک ہونا سنجیدہ حلقوں کے لیے حیرانی کی بات ہے۔ ایک ایسے حکومت اور اسمبلی جو اپنی مدت پوری کرنے والی ہے، اس کے ارکان پر مشتمل کمیشن کی کتنی اہمیت ہوسکتی ہے، اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کو اس وقت دہشت گردی جیسے خوفناک خطرے کا سامنا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اس خطرے سے نبٹنے کے لیے عوام کو تیار کریں، ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی ہمہ گیر معاشی منصوبہ سامنے لائیں، توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اپنی پالیسی عوام کو بتائیں، بھارت کے ساتھ آبی معاملات اور مسلہ کشمیر کے حل کا کوئی منصوبہ تیار کریں لیکن افسوس ایسا نہیں ہورہاہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا ، وہ اب بھی الزام تراشی کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں، عوام کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرکے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔یہ طریقہ وقتی طور پر شاید کامیاب ہوجائے لیکن اس کے مستقبل میں جو اثرات مرتب ہوں گے ، اس پر کوئی غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔خیبر پختونخوا میں ہندکو ہزارہ کا مسئلہ موجود ہے، سندھ میں قوم پرست جو کہہ رہے ہیں، اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے، بلوچستان میں جو کچھ ہوگا، اس پر شاید سوچا نہیں گیا، ایسی صورت میں صرف ایک صوبے میں نیا صوبہ بنانے کا نعرہ مزید پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ سیاستدانوں نے پہلے ہی کالا باغ ڈیم منصوبے کو متنازعہ بنادیا ہے ، اب کہیں صوبوں کا پنڈورا باکس کھل گیا تو پھر اس سے نکلنے والی بلائوں کو قابو کرنا شاید کسی کے بس میں نہ رہے لہٰذا نئے صوبوں ضرور بنائیں لیکن مناسب وقت اور آئینی طریقے کے مطابق۔
Load Next Story