کرپشن کے یہ معصوم ملزمان
عمران خان کے سنگین الزامات کے جواب میں حیران کن طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں
اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے وفاق اور پنجاب کے حکمرانوں کے متعلق کہا ہے کہ انھیں سب پتا ہے کہ کرپشن کیسے کی جاتی ہے اور ملک کو کیسے لوٹا جاتا ہے۔ شاہ صاحب کے خطاب کے جواب میں وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔
بلاول زرداری بھی (ن) لیگی حکمرانوں کی کرپشن پر مسلسل تنقید کرتے آرہے ہیں اور کرپشن کی دیوار کو ایک دھکا اور دو کی اپیل بھی کر رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اب 2013ء کی انتخابی دھاندلیوں کا واویلا ترک کرکے پانامہ لیکس کی بنیاد پر گزشتہ پانچ ماہ سے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مسلسل تحریک چلا رہے ہیں۔
عمران خان کے سنگین الزامات کے جواب میں حیران کن طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جس کے جواب میں حکومتی وزیر دعوے کر رہے ہیں کہ پانامہ لیکس میں وزیر اعظم کا نام نہیں ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس ہی ان کی کرپشن کا واضح ثبوت ہے۔ 2013 کے عام انتخابات کے وقت پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت پر سب سے زیادہ الزامات پہ الزامات کرپشن ہی کے لگے تھے جن میں سندھ میں ہونے والی کرپشن سب سے نمایاں تھی۔
عام تاثر یہی تھا کہ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے اپنے حلیفوں کو بھی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ جو چاہیں کریں مگر ان کی حکومت کے ساتھ رہیں۔ عالمی سطح پر اس وقت کی اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت پر سب سے زیادہ کرپشن کے الزامات لگے اور کرپشن ہی کے الزام میں بلوچستان کی حکومت کو معطل کرکے گورنر راج بھی پی پی کی وفاقی حکومت نے ہی لگایا تھا۔ جس کے سربراہ تو کرپشن کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں تھے۔ یوسف رضا گیلانی کے ایک وزیر عبدالقیوم جتوئی نے کوئٹہ میں کہا تھا کہ جب دوسرے سرکاری ادارے کرپشن کر رہے ہیں تو ہم سیاستدانوں کو بھی کرپشن کرنے کا حق حاصل ہے۔
خورشید شاہ جنھوں نے موجودہ حکمرانوں کوکرپشن اور ملک لوٹنے کا ماہر قرار دیا ہے نے اپنے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں وفاقی وزیر ہوتے ہوئے کبھی پی پی دورکی کرپشن کا کبھی ذکر تک نہیں کیا تھا اور موجودہ حکومت پر کرپشن کے الزامات لگانے پر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے خورشید شاہ کے متعلق کہا تھا کہ ہم نے تو کبھی نہیں پوچھا کہ سیاست میں آکر ان کے پاس اتنا مال کہاں سے آگیا۔ واضح رہے کہ سکھر سے تعلق رکھنے والے پی پی کے ایک معروف سیاستدان شکارپور میں ملازم تھے اور ڈیوٹی پر بس سے سکھر سے شکارپور آیا کرتے تھے اور ان کے پاس موٹرسائیکل تک نہیں تھی۔
پی پی، مسلم لیگ(ن)، (ق) اور دیگر سیاسی پارٹیوں میں ایسے بے شمار رہنما موجود ہیں جو بہت غریب تھے مگر حکومت میں آکر خوب ہُن برسا اور آج وہ اربوں پتی ہیں۔سابق وزیر اعظم بھٹو دور کے متعلق شکارپور سے تعلق رکھنے مگر کبھی پی پی میں شامل نہ ہونے والے بزرگ سیاستدان حاجی مولابخش سومرو جو متعدد بار وزیر اور رکن اسمبلی رہے کہا کرتے تھے کہ بھٹو دور سے قبل جس کے پاس دو گدھے تک نہیں تھے ان کے پاس دولت اور دو دو شیورلیٹ کاریں کیسے آگئیں۔
سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو اور بے نظیر بھٹو پر ذاتی طور پر کرپشن کے الزامات بہت کم لگے۔ محترمہ کے دونوں ادوار میں ان کے شوہر آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات لگے اور وہ طویل عرصے جیل میں بھی رہے۔ سرے محل اور سوئس بینک میں موجود دولت کے الزامات اب تک کلیئر نہیں ہوئے اور پی پی نے اپنا وزیراعظم بھی اسی الزام میں قربان کرا دیا تھا۔
ملک میں عام تاثر بھی ہے اور عمران خان بھی الزام لگاتے رہے ہیں کہ پی پی کا گزشتہ 5 سالہ دور حکومت کرپشن کا گڑھ رہا جس میں جس کا بس چلا ملک کو لوٹا اور مال بنایا۔ سابق وزرائے اعظم یوسف رضاگیلانی اور راجہ پرویز اشرف پر بدعنوانیوں کے الزامات کس کو یاد نہیں۔ راجہ رینٹل کس کی حکومت میں وزیر بجلی تھے جسے ہٹایا بھی گیا مگر پھر حیران کن طور پر انھیں وزیر اعظم نامزد کیا گیا تو مولانا فضل الرحمن اور متحدہ تک خاموش تماشائی بنے رہے اور یہ کہہ کر ٹال گئے یہ فیصلہ صدر زرداری کا ہے اور ہم حکومتی حلیف ہیں۔
اپنے دوسرے دور میں مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی نے ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے مگر نہ کوئی ثبوت ملا اور نہ ہی عدالتوں میں الزامات ثابت کیے جاسکے۔ دوسری بار وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ کرپشن اب اس قدر ٹیکنیکل طریقے سے کی جاتی ہے کہ ثبوت نہیں ملتا اور کرپٹ بچ جاتے ہیں۔ گزشتہ پی پی دور حکومت میں کہا جاتا تھا کہ حکمرانوں نے اپنے رشتے داروں اور خاندان والوں کے ذریعے نئی تقرریوں، تعیناتیوں، تبادلوں اور ٹھیکوں کی دکانیں کھلوا رکھی ہیں۔
لاکھوں روپے رشوت دے کر سرکاری نوکری لینے والا کوئی پاگل ہی ہوگا جو بتائے گا کہ اس نے کتنے لاکھ دے کر نوکری لی ہے۔ ایسے کام فریقین کے درمیان کسی بااعتماد شخص کے ذریعے ہوتے ہیں اور رقم کی ادائیگی بھی برائے راست نہیں ہوتی۔ ٹھیکے اور لائسنس بھی اسی طریقے سے ملتے ہیں اور سب کو پتا ہے کہ رشوت لینے اور دینے والے دونوں مجرم اور ذمے دار ہیں اس لیے ایسے معاملات میں کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ رشوت خفیہ طور پر لی اور دی جاتی ہے اور درمیان والے کام کے ضامن ہوتے ہیں۔ سابق سندھ حکومت میں وزیر اعلیٰ اور وزیروں نے کھلی کچہریاں اور کارکنوں سے اجتماعات میں ملنا اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ پھر جیالے لحاظ نہیں کرتے تھے اور سرعام رشوت کے الزام لگا دیتے تھے۔
موجودہ بلوچستان حکومت میں سیکریٹری خزانہ کے گھر اور خفیہ ٹھکانوں سے کروڑوں روپے کی برآمدگی رشوت کی انتہا ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ سندھ کے وزیروں پر بھی کروڑوں روپے کی کرپشن کے کیس چل رہے ہیں۔ پنجاب کے ایک وزیر کی کرپشن بے نقاب ہوئی مگر ان سمیت وہ تمام بڑے سیاسی رہنما اب بھی دعویدار ہیں کہ ان پر الزام جھوٹ یا سیاسی انتقامی کارروائی ہے جب کہ کے پی کے کا وزیرجیل میں ہے۔
کرپشن کے الزامات اور مقدمات کا سامنا کرنے والے کھلے عام خود کو معصوم قرار دیتے ہیں۔ کوئی کرپشن قبول نہیں کرتا اوراگر کسی کو عدالت سے کرپشن ثابت ہونے پر سزا ہوجائے تو وہ عدالتی فیصلے کو چمک قرار دے دیتا ہے۔ پی پی کے سابق وزیر حج کو تو سزا بھی ہوچکی ہے۔ سابق وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی نے بالکل درست کہا ہے کہ کوئی رکن اسمبلی صادق و امین نہیں اوراگر کارروائی ہو تو ایوان ہی خالی ہوجائیں گے۔
آصف زرداری طویل عرصے جیل میں رہے اور اب ملک واپس کیوں نہیں آتے۔ موجودہ حکمرانوں کی اولاد کے پاس اتنی دولت کہاں سے آگئی کوئی جواب نہیں دے گا؟ کیونکہ یہ سب معصوم ہیں اور ان معصوموں پر سب سے زیادہ الزامات عمران خان نے لگائے مگر دونوں عمران خان پر ہتک عزت کا کیس نہیں کرتے الزامات پر خاموش رہنا پسند کرتے ہیں دونوں کی کرپشن کے عملی ثبوت موجود نہیں اور یوں ہی سیاست چلتی رہتی ہے۔