سندھ کی سیاست پس منظر و پیش منظر
سندھ میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے بعد ایک واضح فرق محسوس کیا جا رہا ہے
سندھ میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے بعد ایک واضح فرق محسوس کیا جا رہا ہے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ جواں، متحرک ہونے کے علاوہ کئی دیگر خوبیوں اور صلاحیتوں کے حامل ہیں۔انھوں نے آتے ہی نوکر شاہی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے۔
دفتری اوقات کی خود وقت سے بھی قبل پہنچ کر دوسروں کو بھی پابندی وقت کا عادی ہونے پر مجبورکردیا، وہ سرکاری اہلکار جو دس بجے گھر سے نکلنے کے عادی تھے اور دفتر پہنچ کر بھی سرکاری فون پر اپنے دوست احباب یا رشتے داروں سے گھنٹوں گفتگو کرنے اور چائے پینے میں پورا دن نکال دیتے اور قبل از وقت گھر کے لیے روانہ ہوجاتے تھے۔
ضروری کاغذات اور اہم فائلیں محض ان کے دستخط کے لیے کئی کئی ماہ پڑی رہتی، ضرورت مند دفاتر کے چکر لگا لگا کر تنگ آجاتے تھے بمشکل مٹھی گرم کرنے پر ان کے دستخط ہو پاتے پھر وہ فائل آگے کسی مرحلے پر یوں ہی اٹک جاتی تھی۔ مگر اب شنید ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ نے سب کو وقت کا پابند اور کام کرنے کا عادی بنادیا ہے۔ اگر یہ محض تبدیلی کا احساس دلانے کی کوشش کے بجائے واقعی میں ہو رہا ہے تو پھر سندھ کے حالات درست ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔
موجودہ وزیر اعلیٰ نے حلف اٹھاتے ہی کئی اہم احکامات جاری کیے ہیں۔ معاشرے میں فضول اور لایعنی رویوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے مثلاً ٹریفک کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی گئی، حادثات کی روک تھام کے لیے ہیلمٹ کو لازمی قرار دیا گیا، ون ویلنگ پر سخت پابندی اور خلاف ورزی پر سزا و جرمانہ عائد کیا گیا۔ بلاوجہ فائرنگ کرکے لوگوں کو ہراساں اور ماحول کو خراب کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا اور اسلحے کی نمائش پر پابندی عائد ہوئی۔ بازار صبح جلدی کھلنے اور شام جلدی بند کرنے کے باعث بجلی کی بچت کی کوشش کی گئی ہے۔
حکومت سندھ کی طرف سے ان اقدامات کی بذریعہ ذرایع ابلاغ تشہیر بھی کی گئی مگر ان میں کسی ایک پر بھی ابھی عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ شاید نوٹیفکیشن جاری ہونے کا انتظار ہو۔ اگر معاشرتی سدھار کے ان چند بنیادی اقدامات پر ہی مکمل طور پر عمل ہوجائے تو مصیبت زدہ عوام کو کچھ فائدہ حاصل ہو اور وہ سکھ کا سانس لیں۔
عملی طور پر کچھ بھی نہ ہو اور صرف کاغذی کارروائیاں ہی ثابت ہوں تو پھر کسی خوشگوار تبدیلی کا خواب خواب پریشاں ہی رہے گا۔ مگر جانے کیوں یہ احساس ہو رہتا ہے کہ سید مراد علی شاہ متحرک، پرجوش اور فعال شخصیت ہیں تو انشااللہ کچھ نہ کچھ صوبے کی بہتری کے لیے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ گزشتہ اور موجودہ دونوں وزرا اعلیٰ زرداری صاحب کی مرضی اور احکامات کے پابند ہیں اب کیونکہ اگلے انتخابات قریب آرہے ہیں تو شاید پی پی پی کے شریک چیئرمین صاحب کم ازکم سندھ میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش بلکہ پہلے سے زیادہ کوشش کریں گے۔
اس لیے شاید انھیں خیال آگیا ہے کہ ووٹ لینے کے لیے عوام کو چند سہولیات فراہم کر ہی دی جائیں، جب کہ وہ اپنی صدارت کے دنوں میں بھی کبھی عوام کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ پنجاب جو کبھی پی پی پی کا مضبوط قلعہ کہا جاتا تھا وہاں سے بیک بینی دوگوش نکلنا پڑا۔ مدوجزر آتے رہے، ایم کیو ایم سے بنتی بگڑتی رہی مگر مدت اقتدار مکمل کرنے کا سہرا سر پر سجا کر باعزت طور پر حکومت وعدے کے مطابق (ن) لیگ کے حوالے کردی، اب پھر پی پی پی کی باری ہے۔ مگر اب حالات ذرا مختلف ہیں پنجاب میں طویل مدت تخت لاہور پر براجمان رہنے کے باعث ملکی سیاست میں بڑے اور چھوٹے صوبوں کا احساس کھل کر سامنے آگیا ہے۔
بڑے صوبے میں قدم جم جانے کے بعد حکمرانوں کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اب باری باری کھیلنے کے بجائے دو ٹوک انداز میں آیندہ بھی حکومت بنانے کا پراعتماد اظہارکئی بارکرچکے ہیں۔
دوسری جانب پی پی پی کو ایم کیو ایم کی حمایت اور سہارا حاصل تھا مگر اب اول تو ایم کیو ایم خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یوں بھی اس تازہ صورتحال سے قبل ہی وہ پی پی پی سے مکمل لاتعلق ہوچکی تھی، یعنی تین طلاق لے چکی تھی۔ ان حالات میں اگر حلالہ کے بعد عقد ثانی کی کوئی کوشش کی بھی جائے اور شہری سندھ میں اثرورسوخ بڑھانے کے لیے باقی ماندہ ایم کیو ایم سے مفاہمت پر توجہ دی جائے تو زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ ایم کیوایم جو خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، وہ کیا کسی کو سہارا دے سکے گی۔ مگر سیاست (بطور خاص پاکستانی سیاست) میں کوئی بات حتمی قرار نہیں دی جاسکتی۔
دوسری جانب تمام تر الزامات، ناقص کارکردگی، وزرائے حکومت کا غیر ذمے دارانہ انداز، کئی محکموں اور حکومتی شعبوں کی نااہلی، خارجہ پالیسی کے غیر واضح اورکسی وزیر خارجہ کا نہ ہونے کے باوجود (ن) لیگ کے سربراہ پر اعتراض پر الزام کو نظراندازکرتے ہوئے اپنی مدت اقتدار مکمل کرنے پر زیادہ متوجہ ہیں بلکہ آیندہ انتخابات اب سے بڑھ کر اکثریت سے برسر اقتدار آنے کے لیے دعوے کر رہے ہیں۔ اس یقین محکم کے پس پشت کوئی تو ایسی وجہ ہے کہ عوامی بہبود کے کسی واضح منصوبے کے نہ ہوتے ہوئے بھی یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ یہ سب باتیں ایک طرف چلیے سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سندھ کی حالت تو کچھ بہتر کرلیں گے۔
دفتری اوقات کی خود وقت سے بھی قبل پہنچ کر دوسروں کو بھی پابندی وقت کا عادی ہونے پر مجبورکردیا، وہ سرکاری اہلکار جو دس بجے گھر سے نکلنے کے عادی تھے اور دفتر پہنچ کر بھی سرکاری فون پر اپنے دوست احباب یا رشتے داروں سے گھنٹوں گفتگو کرنے اور چائے پینے میں پورا دن نکال دیتے اور قبل از وقت گھر کے لیے روانہ ہوجاتے تھے۔
ضروری کاغذات اور اہم فائلیں محض ان کے دستخط کے لیے کئی کئی ماہ پڑی رہتی، ضرورت مند دفاتر کے چکر لگا لگا کر تنگ آجاتے تھے بمشکل مٹھی گرم کرنے پر ان کے دستخط ہو پاتے پھر وہ فائل آگے کسی مرحلے پر یوں ہی اٹک جاتی تھی۔ مگر اب شنید ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ نے سب کو وقت کا پابند اور کام کرنے کا عادی بنادیا ہے۔ اگر یہ محض تبدیلی کا احساس دلانے کی کوشش کے بجائے واقعی میں ہو رہا ہے تو پھر سندھ کے حالات درست ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔
موجودہ وزیر اعلیٰ نے حلف اٹھاتے ہی کئی اہم احکامات جاری کیے ہیں۔ معاشرے میں فضول اور لایعنی رویوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے مثلاً ٹریفک کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی گئی، حادثات کی روک تھام کے لیے ہیلمٹ کو لازمی قرار دیا گیا، ون ویلنگ پر سخت پابندی اور خلاف ورزی پر سزا و جرمانہ عائد کیا گیا۔ بلاوجہ فائرنگ کرکے لوگوں کو ہراساں اور ماحول کو خراب کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا اور اسلحے کی نمائش پر پابندی عائد ہوئی۔ بازار صبح جلدی کھلنے اور شام جلدی بند کرنے کے باعث بجلی کی بچت کی کوشش کی گئی ہے۔
حکومت سندھ کی طرف سے ان اقدامات کی بذریعہ ذرایع ابلاغ تشہیر بھی کی گئی مگر ان میں کسی ایک پر بھی ابھی عمل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ شاید نوٹیفکیشن جاری ہونے کا انتظار ہو۔ اگر معاشرتی سدھار کے ان چند بنیادی اقدامات پر ہی مکمل طور پر عمل ہوجائے تو مصیبت زدہ عوام کو کچھ فائدہ حاصل ہو اور وہ سکھ کا سانس لیں۔
عملی طور پر کچھ بھی نہ ہو اور صرف کاغذی کارروائیاں ہی ثابت ہوں تو پھر کسی خوشگوار تبدیلی کا خواب خواب پریشاں ہی رہے گا۔ مگر جانے کیوں یہ احساس ہو رہتا ہے کہ سید مراد علی شاہ متحرک، پرجوش اور فعال شخصیت ہیں تو انشااللہ کچھ نہ کچھ صوبے کی بہتری کے لیے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ گزشتہ اور موجودہ دونوں وزرا اعلیٰ زرداری صاحب کی مرضی اور احکامات کے پابند ہیں اب کیونکہ اگلے انتخابات قریب آرہے ہیں تو شاید پی پی پی کے شریک چیئرمین صاحب کم ازکم سندھ میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش بلکہ پہلے سے زیادہ کوشش کریں گے۔
اس لیے شاید انھیں خیال آگیا ہے کہ ووٹ لینے کے لیے عوام کو چند سہولیات فراہم کر ہی دی جائیں، جب کہ وہ اپنی صدارت کے دنوں میں بھی کبھی عوام کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ پنجاب جو کبھی پی پی پی کا مضبوط قلعہ کہا جاتا تھا وہاں سے بیک بینی دوگوش نکلنا پڑا۔ مدوجزر آتے رہے، ایم کیو ایم سے بنتی بگڑتی رہی مگر مدت اقتدار مکمل کرنے کا سہرا سر پر سجا کر باعزت طور پر حکومت وعدے کے مطابق (ن) لیگ کے حوالے کردی، اب پھر پی پی پی کی باری ہے۔ مگر اب حالات ذرا مختلف ہیں پنجاب میں طویل مدت تخت لاہور پر براجمان رہنے کے باعث ملکی سیاست میں بڑے اور چھوٹے صوبوں کا احساس کھل کر سامنے آگیا ہے۔
بڑے صوبے میں قدم جم جانے کے بعد حکمرانوں کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اب باری باری کھیلنے کے بجائے دو ٹوک انداز میں آیندہ بھی حکومت بنانے کا پراعتماد اظہارکئی بارکرچکے ہیں۔
دوسری جانب پی پی پی کو ایم کیو ایم کی حمایت اور سہارا حاصل تھا مگر اب اول تو ایم کیو ایم خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یوں بھی اس تازہ صورتحال سے قبل ہی وہ پی پی پی سے مکمل لاتعلق ہوچکی تھی، یعنی تین طلاق لے چکی تھی۔ ان حالات میں اگر حلالہ کے بعد عقد ثانی کی کوئی کوشش کی بھی جائے اور شہری سندھ میں اثرورسوخ بڑھانے کے لیے باقی ماندہ ایم کیو ایم سے مفاہمت پر توجہ دی جائے تو زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی کیونکہ ایم کیوایم جو خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، وہ کیا کسی کو سہارا دے سکے گی۔ مگر سیاست (بطور خاص پاکستانی سیاست) میں کوئی بات حتمی قرار نہیں دی جاسکتی۔
دوسری جانب تمام تر الزامات، ناقص کارکردگی، وزرائے حکومت کا غیر ذمے دارانہ انداز، کئی محکموں اور حکومتی شعبوں کی نااہلی، خارجہ پالیسی کے غیر واضح اورکسی وزیر خارجہ کا نہ ہونے کے باوجود (ن) لیگ کے سربراہ پر اعتراض پر الزام کو نظراندازکرتے ہوئے اپنی مدت اقتدار مکمل کرنے پر زیادہ متوجہ ہیں بلکہ آیندہ انتخابات اب سے بڑھ کر اکثریت سے برسر اقتدار آنے کے لیے دعوے کر رہے ہیں۔ اس یقین محکم کے پس پشت کوئی تو ایسی وجہ ہے کہ عوامی بہبود کے کسی واضح منصوبے کے نہ ہوتے ہوئے بھی یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ یہ سب باتیں ایک طرف چلیے سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سندھ کی حالت تو کچھ بہتر کرلیں گے۔