ہمارا ورثہ اور ہم
عہد خلافت راشدہ ؓ میں بھی علم و ادب کی نشوونما ہوگئی اور فروغ حاصل ہوا
ISLAMABAD:
اﷲ عز و جل نے خود رسول کریم ؐ کو معلم انسانیت بناکر بھیجا، آپؐ کا ارشاد پاک ہے کہ ''میں بطور خاص معلم (پڑھانے والا) بناکر مبعوث ہوا ہوں۔ پھر معلم انسانیتؐ خود اﷲ تعالیٰ سے ''علم'' میں اضافے کی دعا مانگتے تھے ''رب زدنی علما'' (سورۂ طٰہ:114) پھر قرآن حکیم خود اول تا آخر جملہ علوم و فنون کا ایک عظیم ذخیرہ و مجموعہ ہے اور قیامت تک کے لیے تمام انسانیت کے لیے ہر میدان میں سرچشمہ ہدایت ہے یہی وجہ ہے کہ عہد نبویؐ علمی و ادبی لحاظ سے بے مثال و اپنی مثال آپ تھا، صحابہ کرامؓ خود بھی شعر و سخن کا ذوق رکھتے تھے اور اعلیٰ و معیاری ادب پر مبنی اشعار بھی فرمایا کرتے تھے۔
اس طرح سے عہد خلافت راشدہ ؓ میں بھی علم و ادب کی نشوونما ہوگئی اور فروغ حاصل ہوا۔ اس زمانے میں بھی لوگ علوم و معارف سے آگہی رکھتے تھے اور ایک سے ایک قادر الکلام شعرا، نابغۂ روزگار ادبا اور نادرالمثال فصحا جنھیں اپنی قوت گویائی اور زبان دانی پر بڑا ناز تھا موجود تھے اور آج کے دور میں شعرا، ادباء و فصحاء سے کسی طور بھی پیچھے نہ تھے، عہد خلافت راشدہ ؓ کے بعد جب عہد بنو امیہ کا آغاز ہوا۔ تب اس دور اسلام میں بھی علم و ادب کی بڑی خدمت ہوئی، اس دور میں علوم قرآن، قرأت، تفسیر، فقہ وحدیث، لغت و نحو، تاریخ، ادب و شاعری، موسیقی، علم کیمیا اور طب وغیرہ میں خاطر خواہ ترقی ہوئی، خود خلیفہ حکم ثانی بڑا عالم فاضل اور ماہر ادبیات عرب تھا یعنی فن رجال، اخبار و انساب میں اپنا مثل نہ رکھتا تھا۔
اس کو صرف کتابیں جمع کرنے کا ہی شوق نہ تھا بلکہ وہ خود بھی علوم و فنون کا مزلی اور علم و ادب کا سرپرست تھا اس کی جمع کردہ کتابوں کی تعداد چار لاکھ بتائی جاتی ہے اور اس کا دربار ہمیشہ علم و ادب سے ماہرین سے بھرا رہتا تھا۔ بنوامیہ کے بعد پھر عہد بنو عباس کا آغاز ہوا تاریخ اسلام کے اس دور میں علوم و فنون و ادب کی جتنی خدمت ہوئی وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ بنو عباس نے اہل علم و ادب کی بہت قدر افزائی کی۔
خلیفہ ہارون الرشید اور خلیفہ مامون الرشید تو مربی علم و فضل کی حیثیت سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یہ بڑے علم دوست بادشاہ تھے۔ ہارون الرشید نے ایک دفعہ ایک نابینا عالم کو دعوت پر بلایا اور خود اس کے ہاتھ دھلوائے، وہ بھیس بدل کر علما کی مجلسوں میں شریک ہوتا اور ان کی بڑی تعظیم و توقیر کرتا اور نہایت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، بنو عباس نے اصحاب کمال کو بڑے بڑے عہدے دیے اور ان کو مالا مال کردیا، اسلامی تاریخ کے یہ دور علم و ادب اور سائنس و ٹیکنالوجی کا نقطہ عروج تھا۔
بنو فاطمہ بھی علم و ادب کے مربی اور علماء وادباء کے سرپرست اور قدر شناس تھے، قاہرہ کی تعمیر اور جامع الازہر کا قیام فاطمیوں کے عہد کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ خلیفہ العزیز خود ایک اعلیٰ شاعر تھے، یہ ان کی علم دوستی تھی کہ انھوں نے جامع الازہر کو مسجد کے علاوہ ایک تعلیم گاہ بنادیا۔
خلیفہ العزیز کا دربار فقہیوں، شاعروں، ادیبوں، مورخوں اور عالموں سے بھر ارہتا تھا بنو عباس کی طرح سے بنو فاطمہ کی علم دوستی کا اندازہ بھی ان کے قائم کردہ کتب خانوں سے بخوبی ہوتا ہے، خلیفہ المستنصر کے عہد خلافت میں شاہی کتب خانے میں دو لاکھ کتب موجود تھیں، اس طرح خلیفہ الحاکم علم نجوم سے بڑا شغف رکھتے تھے۔ انھوں نے اس شعبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
امت مسلمہ کے علمی و ادبی زوال میں ہلاکو خان اور چنگیز خان کے وحشیانہ حملے نے بڑا ظالمانہ کردار ادا کیا، نادر کتب خانوں کی ایسی دردناک غارت گری لگی کہ سارا علمی و ادبی خزانہ نیست و نابود ہوکر رہ گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس نے مسلمانوں کی تمام کتب کو جب دریا برد کرایا تو ان کی سیاہی سے دریا کا پانی تک سیاہ مائل ہوگیا، بڑی بڑی علمی و ادبی شخصیات کو سفاکانہ انداز میں قتل کردیاگیا۔ غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی۔
جب ہم اسلامی تاریخ میں خلافت عثمانیہ کا جائزہ علم و ادب کی ترقی و سرپرستی کے حوالے سے لیتے ہیں تو ہم انھیں بھی مربی علم و ادب کی ترقی و سرپرستی کے حوالے سے لیتے ہیں تو ہم انھیں بھی مربی علم و فضل پاتے ہیں۔ سلیم اول اور مراد ثالث بلند پایہ شاعر ہونے کے علاوہ بہترین ادبی مذاق کے مالک تھے، سلمان اعظم بھی عمدہ شاعر اور بہترین مقرر تھے۔
اس دور کے بڑے بڑے شعرا مثلاً ابن کمال، فضولی، ندیم نے غزل اور مثنوی کے میدان میں شہرت حاصل کی۔ فطرت پسندی اور شاعری کا خیال اٹھارہویں صدی کے آخری سالوں میں ہوا۔ اس میدان کے شعرا متوسط درجے کے تھے لیکن انھوں نے ادب کو زندگی کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے اپنے عہد کی ترکی سوسائٹی کی معاشرت کا نقشہ اپنے شاعرانہ کلام میں پیش کیا، آخری دور میں شناس ناحق کمال، حامد، توفیق اور عاکف نے اپنی نظموں میں حب الوطنی اور جمہوری حکومت کے قیام کے سلسلے میں بڑی شدت سے پرچار کیا اور ملک و ملت کی خدمت کے لیے ترکوں کے قومی جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی۔
اس دور میں شعرا نے اپنے اشعار کے ذریعے غریبوں کی حمایت کی تلقین کی۔ ترکی نے ادبی میدان میں بڑا کردار ادا کیا اس دور میں بڑے بڑے شعرا اور ادبا کے نام ملتے ہیں۔ مغلیہ دور میں بھی جو علمی و ادبی کام ہوا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس دور میں ہمیں بڑے بڑے عظیم شعرا کے نام ملتے ہیں جن کے کارناموں سے بھی ہم بخوبی واقف ہیں۔ شہنشاہ بابر خود اعلیٰ درجے کا شاعر تھا بعض شعرا مغلیہ دربار سے بھی وابستہ رہے لیکن اس دور میں علم و ادب کی سرکاری سرپرستی اس معیار کے مطابق نہیں ہوئی جس معیار کے مطابق اب تک ہوتی آئی تھی۔
نتیجتاً اس دور کے علما، شعرا و ادبا ہمیں مفلوک الحال ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر خدمات اپنی مدد آپ کے تحت تھیں لیکن بہرحال بے مثال تھیں لہٰذا آج تک غالب، میر، درد وغیرہ ہمارے اذہان میں زندہ ہیں اور ادب میں اعلیٰ مقام کے حامل ہیں، اسی طرح درویش صفت بادشاہ بہادر شاہ ظفر خود اعلیٰ بلند پایہ شاعر تھے، اورنگ زیب عالمگیر نے علما فضلا کو پلکوں اور سر آنکھوں پر بٹھایا اور وہ خود بڑا عالم تھا، اکبر کے دور ابو فضل فیضی وغیرہ جیسی عظیم شخصیات نے اپنے علم و قلم کے جوہر دکھائے۔
آج کے دور کا المیہ ہے کہ آج کا دور تربیت سے خالی ہے، گھر کی تربیت سے زیادہ باہر کا ماحول اثر انداز ہوتا ہے تاہم چونکہ گھر کا ماحول ہو یا باہر کا ماحول، دونوں ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں لہٰذا ایک کا بگاڑ خودبخود دوسرے کا انتشار بن جاتا ہے۔ آج کل عام طور پر آنکھ کو فلمیں دیکھنے، ہاتھ کو اسلحہ تھامنے یا کھیل کود میں استعمال کرنے اور دماغ کو زیادہ سے زیادہ مادی خواہشات کی تکمیل کرنے اور اپنا قیمتی وقت بے کار دوستوں یاروں میں فضول گفتگو کرکے ضایع کرنے کے واقعات و معاملات تاحد نگاہ دکھائی دیتے ہیں۔ اب کتاب، قلم اور غور و فکر کی عادت تقریباً ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
عہد حاضر میں اور آیندہ بھی کسی قسم کی نوید مستقبل کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی، لہٰذا ان تمام حالات و واقعات اور حکومتی سطح پر علم و ادب سے بے اعتنائی کے سبب اور علما و ادبا کی ناقدری کے پیش نظر عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ قدرتی طور پر خود بخود علم و ادب سے دور ہوتا جا رہا ہے، ان کا خیال ہے کہ کام وہ کیے جائیں جن کی بدولت کم ازکم دو وقت کی روٹی تو عزت کے ساتھ نصیب ہو، زیادہ سے زیادہ مادی خواہشات و ضروریات اور ہوائے نفس کی تکمیل تو دور کی بات، بنیادی ضروریات زندگی ہی میسر آجائیں تو بڑی بات ہے لہٰذا شعرا، ادبا، علما، فضلا بننے کی بجائے زندگی، کاروبار، تجارت، زراعت، صنعت و حرفت کے ماہر کی حیثیت سے گزاری جائے، ان کے نزدیک کتابوں میں لوگوں کے ذہنوں میں اور تاریخ میں زندہ رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
کسی انسان کے کسی بھی شعبے میں مصروف و مشغول ومگن ہونے کی وجوہات میری نظر میں صرف دو ہی ہیں اول تعلیم و تربیت، دوم فطری و قدرتی طور پر طبیعت انسانی کا میلانی رجحان۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم و تربیت کے نظام کو بھی اس قدر متحرک بنایا جائے کہ جس طرح سے ماضی بعید میں مسلم نشاۃ ثانیہ کے دور میں تھا۔
اﷲ عز و جل نے خود رسول کریم ؐ کو معلم انسانیت بناکر بھیجا، آپؐ کا ارشاد پاک ہے کہ ''میں بطور خاص معلم (پڑھانے والا) بناکر مبعوث ہوا ہوں۔ پھر معلم انسانیتؐ خود اﷲ تعالیٰ سے ''علم'' میں اضافے کی دعا مانگتے تھے ''رب زدنی علما'' (سورۂ طٰہ:114) پھر قرآن حکیم خود اول تا آخر جملہ علوم و فنون کا ایک عظیم ذخیرہ و مجموعہ ہے اور قیامت تک کے لیے تمام انسانیت کے لیے ہر میدان میں سرچشمہ ہدایت ہے یہی وجہ ہے کہ عہد نبویؐ علمی و ادبی لحاظ سے بے مثال و اپنی مثال آپ تھا، صحابہ کرامؓ خود بھی شعر و سخن کا ذوق رکھتے تھے اور اعلیٰ و معیاری ادب پر مبنی اشعار بھی فرمایا کرتے تھے۔
اس طرح سے عہد خلافت راشدہ ؓ میں بھی علم و ادب کی نشوونما ہوگئی اور فروغ حاصل ہوا۔ اس زمانے میں بھی لوگ علوم و معارف سے آگہی رکھتے تھے اور ایک سے ایک قادر الکلام شعرا، نابغۂ روزگار ادبا اور نادرالمثال فصحا جنھیں اپنی قوت گویائی اور زبان دانی پر بڑا ناز تھا موجود تھے اور آج کے دور میں شعرا، ادباء و فصحاء سے کسی طور بھی پیچھے نہ تھے، عہد خلافت راشدہ ؓ کے بعد جب عہد بنو امیہ کا آغاز ہوا۔ تب اس دور اسلام میں بھی علم و ادب کی بڑی خدمت ہوئی، اس دور میں علوم قرآن، قرأت، تفسیر، فقہ وحدیث، لغت و نحو، تاریخ، ادب و شاعری، موسیقی، علم کیمیا اور طب وغیرہ میں خاطر خواہ ترقی ہوئی، خود خلیفہ حکم ثانی بڑا عالم فاضل اور ماہر ادبیات عرب تھا یعنی فن رجال، اخبار و انساب میں اپنا مثل نہ رکھتا تھا۔
اس کو صرف کتابیں جمع کرنے کا ہی شوق نہ تھا بلکہ وہ خود بھی علوم و فنون کا مزلی اور علم و ادب کا سرپرست تھا اس کی جمع کردہ کتابوں کی تعداد چار لاکھ بتائی جاتی ہے اور اس کا دربار ہمیشہ علم و ادب سے ماہرین سے بھرا رہتا تھا۔ بنوامیہ کے بعد پھر عہد بنو عباس کا آغاز ہوا تاریخ اسلام کے اس دور میں علوم و فنون و ادب کی جتنی خدمت ہوئی وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ بنو عباس نے اہل علم و ادب کی بہت قدر افزائی کی۔
خلیفہ ہارون الرشید اور خلیفہ مامون الرشید تو مربی علم و فضل کی حیثیت سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یہ بڑے علم دوست بادشاہ تھے۔ ہارون الرشید نے ایک دفعہ ایک نابینا عالم کو دعوت پر بلایا اور خود اس کے ہاتھ دھلوائے، وہ بھیس بدل کر علما کی مجلسوں میں شریک ہوتا اور ان کی بڑی تعظیم و توقیر کرتا اور نہایت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، بنو عباس نے اصحاب کمال کو بڑے بڑے عہدے دیے اور ان کو مالا مال کردیا، اسلامی تاریخ کے یہ دور علم و ادب اور سائنس و ٹیکنالوجی کا نقطہ عروج تھا۔
بنو فاطمہ بھی علم و ادب کے مربی اور علماء وادباء کے سرپرست اور قدر شناس تھے، قاہرہ کی تعمیر اور جامع الازہر کا قیام فاطمیوں کے عہد کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ خلیفہ العزیز خود ایک اعلیٰ شاعر تھے، یہ ان کی علم دوستی تھی کہ انھوں نے جامع الازہر کو مسجد کے علاوہ ایک تعلیم گاہ بنادیا۔
خلیفہ العزیز کا دربار فقہیوں، شاعروں، ادیبوں، مورخوں اور عالموں سے بھر ارہتا تھا بنو عباس کی طرح سے بنو فاطمہ کی علم دوستی کا اندازہ بھی ان کے قائم کردہ کتب خانوں سے بخوبی ہوتا ہے، خلیفہ المستنصر کے عہد خلافت میں شاہی کتب خانے میں دو لاکھ کتب موجود تھیں، اس طرح خلیفہ الحاکم علم نجوم سے بڑا شغف رکھتے تھے۔ انھوں نے اس شعبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
امت مسلمہ کے علمی و ادبی زوال میں ہلاکو خان اور چنگیز خان کے وحشیانہ حملے نے بڑا ظالمانہ کردار ادا کیا، نادر کتب خانوں کی ایسی دردناک غارت گری لگی کہ سارا علمی و ادبی خزانہ نیست و نابود ہوکر رہ گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس نے مسلمانوں کی تمام کتب کو جب دریا برد کرایا تو ان کی سیاہی سے دریا کا پانی تک سیاہ مائل ہوگیا، بڑی بڑی علمی و ادبی شخصیات کو سفاکانہ انداز میں قتل کردیاگیا۔ غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی۔
جب ہم اسلامی تاریخ میں خلافت عثمانیہ کا جائزہ علم و ادب کی ترقی و سرپرستی کے حوالے سے لیتے ہیں تو ہم انھیں بھی مربی علم و ادب کی ترقی و سرپرستی کے حوالے سے لیتے ہیں تو ہم انھیں بھی مربی علم و فضل پاتے ہیں۔ سلیم اول اور مراد ثالث بلند پایہ شاعر ہونے کے علاوہ بہترین ادبی مذاق کے مالک تھے، سلمان اعظم بھی عمدہ شاعر اور بہترین مقرر تھے۔
اس دور کے بڑے بڑے شعرا مثلاً ابن کمال، فضولی، ندیم نے غزل اور مثنوی کے میدان میں شہرت حاصل کی۔ فطرت پسندی اور شاعری کا خیال اٹھارہویں صدی کے آخری سالوں میں ہوا۔ اس میدان کے شعرا متوسط درجے کے تھے لیکن انھوں نے ادب کو زندگی کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے اپنے عہد کی ترکی سوسائٹی کی معاشرت کا نقشہ اپنے شاعرانہ کلام میں پیش کیا، آخری دور میں شناس ناحق کمال، حامد، توفیق اور عاکف نے اپنی نظموں میں حب الوطنی اور جمہوری حکومت کے قیام کے سلسلے میں بڑی شدت سے پرچار کیا اور ملک و ملت کی خدمت کے لیے ترکوں کے قومی جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی۔
اس دور میں شعرا نے اپنے اشعار کے ذریعے غریبوں کی حمایت کی تلقین کی۔ ترکی نے ادبی میدان میں بڑا کردار ادا کیا اس دور میں بڑے بڑے شعرا اور ادبا کے نام ملتے ہیں۔ مغلیہ دور میں بھی جو علمی و ادبی کام ہوا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس دور میں ہمیں بڑے بڑے عظیم شعرا کے نام ملتے ہیں جن کے کارناموں سے بھی ہم بخوبی واقف ہیں۔ شہنشاہ بابر خود اعلیٰ درجے کا شاعر تھا بعض شعرا مغلیہ دربار سے بھی وابستہ رہے لیکن اس دور میں علم و ادب کی سرکاری سرپرستی اس معیار کے مطابق نہیں ہوئی جس معیار کے مطابق اب تک ہوتی آئی تھی۔
نتیجتاً اس دور کے علما، شعرا و ادبا ہمیں مفلوک الحال ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر خدمات اپنی مدد آپ کے تحت تھیں لیکن بہرحال بے مثال تھیں لہٰذا آج تک غالب، میر، درد وغیرہ ہمارے اذہان میں زندہ ہیں اور ادب میں اعلیٰ مقام کے حامل ہیں، اسی طرح درویش صفت بادشاہ بہادر شاہ ظفر خود اعلیٰ بلند پایہ شاعر تھے، اورنگ زیب عالمگیر نے علما فضلا کو پلکوں اور سر آنکھوں پر بٹھایا اور وہ خود بڑا عالم تھا، اکبر کے دور ابو فضل فیضی وغیرہ جیسی عظیم شخصیات نے اپنے علم و قلم کے جوہر دکھائے۔
آج کے دور کا المیہ ہے کہ آج کا دور تربیت سے خالی ہے، گھر کی تربیت سے زیادہ باہر کا ماحول اثر انداز ہوتا ہے تاہم چونکہ گھر کا ماحول ہو یا باہر کا ماحول، دونوں ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں لہٰذا ایک کا بگاڑ خودبخود دوسرے کا انتشار بن جاتا ہے۔ آج کل عام طور پر آنکھ کو فلمیں دیکھنے، ہاتھ کو اسلحہ تھامنے یا کھیل کود میں استعمال کرنے اور دماغ کو زیادہ سے زیادہ مادی خواہشات کی تکمیل کرنے اور اپنا قیمتی وقت بے کار دوستوں یاروں میں فضول گفتگو کرکے ضایع کرنے کے واقعات و معاملات تاحد نگاہ دکھائی دیتے ہیں۔ اب کتاب، قلم اور غور و فکر کی عادت تقریباً ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
عہد حاضر میں اور آیندہ بھی کسی قسم کی نوید مستقبل کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی، لہٰذا ان تمام حالات و واقعات اور حکومتی سطح پر علم و ادب سے بے اعتنائی کے سبب اور علما و ادبا کی ناقدری کے پیش نظر عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ قدرتی طور پر خود بخود علم و ادب سے دور ہوتا جا رہا ہے، ان کا خیال ہے کہ کام وہ کیے جائیں جن کی بدولت کم ازکم دو وقت کی روٹی تو عزت کے ساتھ نصیب ہو، زیادہ سے زیادہ مادی خواہشات و ضروریات اور ہوائے نفس کی تکمیل تو دور کی بات، بنیادی ضروریات زندگی ہی میسر آجائیں تو بڑی بات ہے لہٰذا شعرا، ادبا، علما، فضلا بننے کی بجائے زندگی، کاروبار، تجارت، زراعت، صنعت و حرفت کے ماہر کی حیثیت سے گزاری جائے، ان کے نزدیک کتابوں میں لوگوں کے ذہنوں میں اور تاریخ میں زندہ رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
کسی انسان کے کسی بھی شعبے میں مصروف و مشغول ومگن ہونے کی وجوہات میری نظر میں صرف دو ہی ہیں اول تعلیم و تربیت، دوم فطری و قدرتی طور پر طبیعت انسانی کا میلانی رجحان۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم و تربیت کے نظام کو بھی اس قدر متحرک بنایا جائے کہ جس طرح سے ماضی بعید میں مسلم نشاۃ ثانیہ کے دور میں تھا۔