آج پھر اماں گولاں کی ضرورت ہے
جنگ نام ہے نوجوانوں کی موت کا اور نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں
قبل اس کے کہ ہم 1818 میں پیدا ہونے والے اور 1883 میں جہان فانی سے رخصت ہونے والے عظیم مفکرکارل مارکس کے ایک قول کا ذکر کریں مناسب ہوگا کہ چند دیگر واقعات پر بات کرلیں۔ چنانچہ یہ کوئی 50 برس قبل کا ذکر ہے ضلع گوجرانوالہ میں آج کی تحصیل و اس وقت کے قصبہ نوشہرہ وِرکاں میں دو آدمیوں کے مابین غیر ضروری قسم کے امور پر تنازعہ کھڑا ہوگیا۔
بات معمولی سی تھی چنانچہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوسکتا تھا کہ ان دونوں صاحبان نے اس تنازع کو انا کا مسئلہ بنالیا، دونوں صاحبان کا تعلق نامور ترین و با اثر برادریوں میں ہوتا تھا چنانچہ دونوں جھگڑا کرنے والوں نے اپنی اپنی برادری کے بڑوں کے سامنے اس جھگڑے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ دونوں برادریوں کے اپنے اپنے جرگے بیٹھے اور دونوں جانب سے ہوش کی بجائے جوش کا مظاہرہ کیا گیا اور دونوں جانب سے یہی فیصلہ سامنے آیا کہ ہماری مخالف برادری کے لوگوں کے کافی پر پرزے نکل آئے ہیں۔
چنانچہ مناسب یہ ہوگا کہ یہ پرپرزے ابھی کتر دیے جائیں چنانچہ دونوں برادریوں کے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا کہ روز روز کی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کی بجائے مناسب ہوگا کہ دونوں برادریوں کے مابین ایک بھرپور معرکہ ہوجائے چنانچہ دونوں جانب کی برادریوں کے بڑوں نے لڑائی کے وقت و مقام کا تعین کیا۔ اچھی بات یہ کہ دونوں جانب سے یہ فیصلہ سامنے آیا کہ یہ لڑائی شہر سے کوئی دو میل دور جاکر لڑی جائے، ایسا اس لیے کہ لڑائی کی زد میں شہر کے دیگر لوگ آکر اپنی جانوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں اس مجوزہ لڑائی کا پورے شہر میں چرچہ ہوچکا۔
خوف و ہراس کی فضا بن چکی تھی البتہ لڑائی کی دلدادہ دونوں برادریوں کے لوگ لڑائی کی تیاریوں میں مصروف کار تھے بالآخر لڑائی کا طے شدہ دن و وقت آ پہنچا دونوں جانب کے لوگ بساط بہر لاٹھیاں، بلم، نیزے و تلواریں لے کر لڑائی کے طے شدہ مقام کی جانب روانہ ہوگئے قتل و غارت ناگزیر ہوچکا تھا۔
ان حالات میں شہر کے چند دردمند بزرگوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور شہر کی ضعیف ترین خاتون اماں گولاں کے پاس حاضر ہوئے اور اپنا مدعا بیان کیا کہ اماں گولاں! اس لڑائی کو فقط تم روک سکتی ہو۔ اماں گولاں جوکہ لاٹھی کے سہارے چلتی تھیں، نے بے تابی سے کہا دیر مت کرو، مجھے لڑائی کے مقام پر لے چلو۔ چنانچہ سرعت سے ایک تانگہ منگوایا گیا جوکہ اماں گولاں کو لے کر لڑائی کے مقام کی جانب روانہ ہوگیا، دوسری جانب کا منظر یہ تھا کہ دونوں برادریوں کے جنگجوؤں کے درمیان گویا صف بندی ہوچکی تھی۔
لڑائی کسی بھی لمحے شروع ہوا چاہتی تھی کہ اماں گولاں کی سواری بھی وہاں پہنچ گئی۔ سہارا دے کر اماں گولاں کو تانگے سے اتارا گیا، اماں گولاں نے بساط بھر پھرتی کا مظاہرہ کیا اور لاٹھی کے سہارے اپنی جھکی کمرکے باوجود میدان جنگ میں لڑائی کے لیے مستعد جوانوں کے درمیان پہنچ گئیں اور سر سے چادر اتاری اور درمیان میں ڈال کر پوری قوت سے پکاریں جس میں ہمت ہے اس چادر کو پھلانگ کر اپنے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ اماں گولاں جنھیں پورا یقین تھا کہ میرا احترام ان دونوں برادریوں کے لوگوں کے دلوں میں موجود ہے چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ لوگ میری چادرکو پھلانگ کر لڑائی کا تصور نہیں کریں گے حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوا اور دونوں جانب مکمل سکوت چھا گیا۔
چند لمحوں بعد کا منظر یہ تھا کہ دونوں جانب کے لوگوں کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے دونوں جانب کے لوگوں کو یہ احساس ہوچکا تھا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کرنے جا رہے تھے، چند ہی لمحوں بعد کا منظر یہ تھا کہ لڑائی کے ارادے سے آنے والے نوجوان باری باری اماں گولاں کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر شہر کی جانب روانہ ہوچکے تھے۔ ایسے میں کسی منچلے نے کہا تھوڑا انتظار کرو، میں ڈھول والے کو لے کر آتا ہوں، چنانچہ تھوڑی دیر میں ڈھول کی تھاپ پر رقصاں نوجوان جن میں اب شہر کے دیگر لوگ بھی شریک ہوچکے تھے شہر کی جانب رواں دواں تھے۔
اب گویا اماں گولاں کی شہر میں آمد ایک جلوس کی کیفیت اختیار کرچکا تھی کیونکہ اس جلوس کے شرکا اماں گولاں زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس واقعے کے چند ہی برس بعد اماں گولاں جن کا حقیقی نام کیا تھا اس نام سے ہم آج بھی بے خبر ہیں، منوں مٹی تلے جا سوئیں، البتہ آج بھی لوگوں کو اماں گولاں کی یاد آتی ہے جن کے تدبر سے درجنوں نوجوانوں کو بچا لیا اور درجنوں ہی کو مجروح ہونے سے بچالیا۔
تقریباً نصف صدی قبل پیش آنے والا یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ میڈیا کے ذریعے میں یہ مناظر دیکھ رہا ہوں کہ سامراجی قوتوں نے عراق پر حملہ کرکے لاکھوں بے گناہ شہریوں کو ان کی زندگیوں سے محروم کردیا ہے، یہی مناظر افغانستان کے ہیں، لیبیا وشام کی تباہ کاریوں کے مناظر بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اب تازہ ترین کیفیت یہ ہے کہ پاکستان وہندوستان کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ کوئی چار روز ہوئے ہیں کہ دونوں جانب سے ہلکے ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر حملے ہو رہے ہیں۔
لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب جنگ کا ماحول ہے ایک جانب سے بیان آتا ہے کہ ہم نے یہ ایٹم بم شب برات پر پھوڑنے کے لیے نہیں بنایا، وقت آنے پر ہم اسے چلانا بھی جانتے ہیں۔ سرحد کے دوسری جانب سے یہ بیان سامنے آتا ہے کہ ہمارا ایٹم بم بھی ہولی یا دیوالی کے تہواروں پر چلانے کے لیے نہیں ہے وقت پڑا تو یہ ضرور استعمال ہوگا۔ ان سنگین حالات میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اب جب کہ دنیا اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے کوئی اماں گولاں نہیں جوکہ دنیا کو ایٹمی و مہلک جنگوں سے بچائے؟ اس سوال کا جواب نفی میں نہیں ہے کیونکہ آج بھی اماں گولاں دنیا میں موجود ہے مگر یہ اماں گولاں سامراجی قوتوں کے چنگل میں ہے۔
اماں گولاں کو سامراجی قوتوں کے چنگل سے نجات دلانے کی اشد ضرورت ہے۔ یاد رہے آج کی اماں گولاں سامراجی قوتوں سے آزادی حاصل کرکے ہی دنیا میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے، جی ہاں یہ اماں گولاں ہے اقوام متحدہ جوکہ امریکی سامراج و اس کے حاشیہ برداروں کے چنگل میں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کی اماں گولاں کو سامراجی قوتوں کے چنگل سے نجات دلائی جائے تاکہ وہ دنیا میں عالمی امن کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرسکے اس تحریرکے آغاز میں ہم نے عظیم مفکر کارل مارکس کے اس قول کا ذکر کیا تھا کہ وہ قول یہ ہے انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے ہم پاکستانی و ہندوستان کی قیادت سے فقط ایک سوال کریں گے کہ آپ لوگ ایک دو نہیں بلکہ چار غلطیاں کرچکے، جنگوں کی شکل میں یعنی 1948 میں، 1965 میں، 1971 میں اور 1999 میں۔ آپ لوگ اپنی غلطیوں سے کب سبق سیکھیں گے؟ یاد رہے جنگ نام ہے نوجوانوں کی موت کا اور نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور دانشمند لوگ اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگاتے۔
بات معمولی سی تھی چنانچہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہوسکتا تھا کہ ان دونوں صاحبان نے اس تنازع کو انا کا مسئلہ بنالیا، دونوں صاحبان کا تعلق نامور ترین و با اثر برادریوں میں ہوتا تھا چنانچہ دونوں جھگڑا کرنے والوں نے اپنی اپنی برادری کے بڑوں کے سامنے اس جھگڑے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ دونوں برادریوں کے اپنے اپنے جرگے بیٹھے اور دونوں جانب سے ہوش کی بجائے جوش کا مظاہرہ کیا گیا اور دونوں جانب سے یہی فیصلہ سامنے آیا کہ ہماری مخالف برادری کے لوگوں کے کافی پر پرزے نکل آئے ہیں۔
چنانچہ مناسب یہ ہوگا کہ یہ پرپرزے ابھی کتر دیے جائیں چنانچہ دونوں برادریوں کے بڑوں نے یہ فیصلہ کیا کہ روز روز کی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کی بجائے مناسب ہوگا کہ دونوں برادریوں کے مابین ایک بھرپور معرکہ ہوجائے چنانچہ دونوں جانب کی برادریوں کے بڑوں نے لڑائی کے وقت و مقام کا تعین کیا۔ اچھی بات یہ کہ دونوں جانب سے یہ فیصلہ سامنے آیا کہ یہ لڑائی شہر سے کوئی دو میل دور جاکر لڑی جائے، ایسا اس لیے کہ لڑائی کی زد میں شہر کے دیگر لوگ آکر اپنی جانوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں اس مجوزہ لڑائی کا پورے شہر میں چرچہ ہوچکا۔
خوف و ہراس کی فضا بن چکی تھی البتہ لڑائی کی دلدادہ دونوں برادریوں کے لوگ لڑائی کی تیاریوں میں مصروف کار تھے بالآخر لڑائی کا طے شدہ دن و وقت آ پہنچا دونوں جانب کے لوگ بساط بہر لاٹھیاں، بلم، نیزے و تلواریں لے کر لڑائی کے طے شدہ مقام کی جانب روانہ ہوگئے قتل و غارت ناگزیر ہوچکا تھا۔
ان حالات میں شہر کے چند دردمند بزرگوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور شہر کی ضعیف ترین خاتون اماں گولاں کے پاس حاضر ہوئے اور اپنا مدعا بیان کیا کہ اماں گولاں! اس لڑائی کو فقط تم روک سکتی ہو۔ اماں گولاں جوکہ لاٹھی کے سہارے چلتی تھیں، نے بے تابی سے کہا دیر مت کرو، مجھے لڑائی کے مقام پر لے چلو۔ چنانچہ سرعت سے ایک تانگہ منگوایا گیا جوکہ اماں گولاں کو لے کر لڑائی کے مقام کی جانب روانہ ہوگیا، دوسری جانب کا منظر یہ تھا کہ دونوں برادریوں کے جنگجوؤں کے درمیان گویا صف بندی ہوچکی تھی۔
لڑائی کسی بھی لمحے شروع ہوا چاہتی تھی کہ اماں گولاں کی سواری بھی وہاں پہنچ گئی۔ سہارا دے کر اماں گولاں کو تانگے سے اتارا گیا، اماں گولاں نے بساط بھر پھرتی کا مظاہرہ کیا اور لاٹھی کے سہارے اپنی جھکی کمرکے باوجود میدان جنگ میں لڑائی کے لیے مستعد جوانوں کے درمیان پہنچ گئیں اور سر سے چادر اتاری اور درمیان میں ڈال کر پوری قوت سے پکاریں جس میں ہمت ہے اس چادر کو پھلانگ کر اپنے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ اماں گولاں جنھیں پورا یقین تھا کہ میرا احترام ان دونوں برادریوں کے لوگوں کے دلوں میں موجود ہے چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ لوگ میری چادرکو پھلانگ کر لڑائی کا تصور نہیں کریں گے حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوا اور دونوں جانب مکمل سکوت چھا گیا۔
چند لمحوں بعد کا منظر یہ تھا کہ دونوں جانب کے لوگوں کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے دونوں جانب کے لوگوں کو یہ احساس ہوچکا تھا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کرنے جا رہے تھے، چند ہی لمحوں بعد کا منظر یہ تھا کہ لڑائی کے ارادے سے آنے والے نوجوان باری باری اماں گولاں کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر شہر کی جانب روانہ ہوچکے تھے۔ ایسے میں کسی منچلے نے کہا تھوڑا انتظار کرو، میں ڈھول والے کو لے کر آتا ہوں، چنانچہ تھوڑی دیر میں ڈھول کی تھاپ پر رقصاں نوجوان جن میں اب شہر کے دیگر لوگ بھی شریک ہوچکے تھے شہر کی جانب رواں دواں تھے۔
اب گویا اماں گولاں کی شہر میں آمد ایک جلوس کی کیفیت اختیار کرچکا تھی کیونکہ اس جلوس کے شرکا اماں گولاں زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس واقعے کے چند ہی برس بعد اماں گولاں جن کا حقیقی نام کیا تھا اس نام سے ہم آج بھی بے خبر ہیں، منوں مٹی تلے جا سوئیں، البتہ آج بھی لوگوں کو اماں گولاں کی یاد آتی ہے جن کے تدبر سے درجنوں نوجوانوں کو بچا لیا اور درجنوں ہی کو مجروح ہونے سے بچالیا۔
تقریباً نصف صدی قبل پیش آنے والا یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ میڈیا کے ذریعے میں یہ مناظر دیکھ رہا ہوں کہ سامراجی قوتوں نے عراق پر حملہ کرکے لاکھوں بے گناہ شہریوں کو ان کی زندگیوں سے محروم کردیا ہے، یہی مناظر افغانستان کے ہیں، لیبیا وشام کی تباہ کاریوں کے مناظر بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اب تازہ ترین کیفیت یہ ہے کہ پاکستان وہندوستان کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ کوئی چار روز ہوئے ہیں کہ دونوں جانب سے ہلکے ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر حملے ہو رہے ہیں۔
لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب جنگ کا ماحول ہے ایک جانب سے بیان آتا ہے کہ ہم نے یہ ایٹم بم شب برات پر پھوڑنے کے لیے نہیں بنایا، وقت آنے پر ہم اسے چلانا بھی جانتے ہیں۔ سرحد کے دوسری جانب سے یہ بیان سامنے آتا ہے کہ ہمارا ایٹم بم بھی ہولی یا دیوالی کے تہواروں پر چلانے کے لیے نہیں ہے وقت پڑا تو یہ ضرور استعمال ہوگا۔ ان سنگین حالات میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اب جب کہ دنیا اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے کوئی اماں گولاں نہیں جوکہ دنیا کو ایٹمی و مہلک جنگوں سے بچائے؟ اس سوال کا جواب نفی میں نہیں ہے کیونکہ آج بھی اماں گولاں دنیا میں موجود ہے مگر یہ اماں گولاں سامراجی قوتوں کے چنگل میں ہے۔
اماں گولاں کو سامراجی قوتوں کے چنگل سے نجات دلانے کی اشد ضرورت ہے۔ یاد رہے آج کی اماں گولاں سامراجی قوتوں سے آزادی حاصل کرکے ہی دنیا میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے، جی ہاں یہ اماں گولاں ہے اقوام متحدہ جوکہ امریکی سامراج و اس کے حاشیہ برداروں کے چنگل میں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کی اماں گولاں کو سامراجی قوتوں کے چنگل سے نجات دلائی جائے تاکہ وہ دنیا میں عالمی امن کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرسکے اس تحریرکے آغاز میں ہم نے عظیم مفکر کارل مارکس کے اس قول کا ذکر کیا تھا کہ وہ قول یہ ہے انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے ہم پاکستانی و ہندوستان کی قیادت سے فقط ایک سوال کریں گے کہ آپ لوگ ایک دو نہیں بلکہ چار غلطیاں کرچکے، جنگوں کی شکل میں یعنی 1948 میں، 1965 میں، 1971 میں اور 1999 میں۔ آپ لوگ اپنی غلطیوں سے کب سبق سیکھیں گے؟ یاد رہے جنگ نام ہے نوجوانوں کی موت کا اور نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور دانشمند لوگ اپنا مستقبل داؤ پر نہیں لگاتے۔