فن کی کوئی سرحد نہیں مگر فنکار کیلیے ہوتی ہے ثانیہ سعید
پہلے پروڈیوسر سمیت پوری ٹیم پروجیکٹ معیاری بنانے کے لیے محنت کرتی تھی اب ہر کام افراتفری میں ہورہا ہے
پاکستانی فلموں کی کامیابی نے نئی راہیں کھول دیں، اچھے نتائج کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے ۔فن ایک سمندر کی طرح ہیں جہاں ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر بار کچھ ہٹ کر ہی کرنے کی کوشش کرتی ہوں، جس کے لیے میرا فوکس اسکرپٹ اور کردار ہوتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار سنیئر اداکارہ ثانیہ سعید نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کردار جیسا بھی ہو جب تک آپ اس کی جزئیات سے آگاہ نہیں ہوں گے بہتر پرفارم نہیں کرسکتے، شوبز انڈسٹری کی ترقی سے نئے لوگوں کے لیے خوش آئند مگر کوالٹی کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں پروڈیوسر سمیت پوری ٹیم پروجیکٹ کو معیاری بنانے کے لیے محنت کرتے کئی دنوں تک ریہرسلز ہوتیں ۔اب تو ہر کام افراتفری میں کیا جارہا ہے، ایکٹر، ڈائریکٹر سمیت سبھی بزنس کر رہے ہیں۔بزنس کرنا کوئی جرم نہیں مگر اس کے لیے معیار کو نظر انداز کرنا درست نہیں۔
منٹو میرے فیورٹ افسانہ نگار ہیں اور ان کے موضوع پر بننے والی فلم میں کام کرکے خوشی ہوئی۔ اس فلم کو پاکستان اور بھارت سمیت بین الاقوامی مارکیٹ میں جس طرح پذیرائی ملی اس کا کریڈٹ سرمد سلطان کھوسٹ کو جاتا ہے۔
پروڈیوسرز کو چاہیے کہ ادب اور شاعری میں گراں قدر سرانجام دینے والے لیجنڈ لوگوں کی زندگیوں پر زیادہ سے زیادہ فلمیں بنائیں کیونکہ اس سے نوجوان نسل کو بھی پتہ چلے کہ ہمارے پاس کیسے کیسے جوہر نایاب تھے جنہوں نے اپنے قلم کے ذریعے انقلاب لائے۔
ثانیہ سعید نے کہا کہ فن کی کوئی سرحد ہی نہیں ہوتی مگر فنکار کی ہوتی ہے، ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان پھر کچھ اور ہے۔ آنے والے دنوں میں فلم انڈسٹری کا مستقبل بہت روشن ہے، بس ہمیں ذرا پلاننگ اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ہماری فلمیں پاکستان سمیت پوری دنیا میں ریلیز ہوسکیں۔