ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈز کا اجرا
سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری میں غیرمعمولی دلچسپی لے رہے ہیں
PESHAWAR:
پاکستان نے موٹروے کا کچھ حصہ رہن رکھ کر ساڑھے پانچ فیصد شرح سود پر بین الاقوامی مارکیٹ میں پانچ سال کے لیے ایک ارب ڈالر مالیت کے سکوک بانڈز جاری کردیے ہیں۔ بانڈز کی خریداری کے لیے 2.4 ارب ڈالر کی پیشکشیں موصول ہوئیں۔
واضح رہے کہ سکوک بانڈز کو نوے ادارہ جاتی سرمایہ کاروں نے خریدا، ان میں سے کوئی بھی پاکستانی نہیں۔ بلاشبہ ملکی ترقی اور معیشت میں استحکام کے لیے جو بھی راست اقدام کیا جائے وہ قابل تحسین ہوتا ہے بشرطیکہ درست لائحہ عمل، مقررہ وقت میں اہداف کا حصول اور شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ملک ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بھی مزید قرضوں کی بات ہوتی ہے تو عوام کا مضطرب ہونا فطری امر ہے۔
مذکورہ منصوبے کے تناظر میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے اگلے پانچ سال کے لیے قرضوں کی واپسی کی تمام تر تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں، ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈز جاری کرنے سے مجموعی قرضے میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، مقامی قرضے میں کمی واقع ہوگی اور ملک کے مالیاتی خسارہ میں بھی کمی واقع ہوگی۔
وزیرخزانہ نے سکوک بانڈز کے اجرا پر پھیلتی ہوئی منفی افواہوں کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان سے بہتر ریٹنگ والے ممالک سری لنکا اور بحرین کے بانڈز بھی ہم سے زیادہ شرح سود پر فروخت ہوئے، پاکستان کو عالمی مارکیٹ میں رکھنے کے لیے بانڈز کا اجرا ضروری ہے، اس طرح بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رہتا ہے۔
بانڈزکی کم قیمت رکھنے کا فیصلہ سفارشات کے برعکس ملکی مفاد میں کیا ہے جب کہ سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری میں غیرمعمولی دلچسپی لے رہے ہیں اور گزشتہ تین سال سے تمام معاشی اہداف حاصل کیے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ رواں برس جی ڈی پی گروتھ کا ہدف ساڑھے پانچ فیصد مقرر کیا ہے جو ایک مشکل ہدف ہے، زرمبادلہ ذخائر کو موجودہ سطح پر برقرار رکھیں گے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان و بھارت کی 40 فیصد آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پڑوسی ملک کے وزیراعظم نے فضیحتاً غربت سے جنگ کرنے کی بات تو کی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ غربت دونوں ممالک کے لیے ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے، سرحدی جنگوں میں الجھنے کے بجائے غربت و افلاس و بے روزگاری کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا جائے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔