جہاں دیکھے توا پرات
چین انتہائی قریبی دوست ہے اور امریکا کو اس بدلتے ہوئے علاقائی توازن کو سمجھنا ہو گا
بی بی سی کے مطابق امریکا کے دورے پر گئے پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف کے خصوصی ایلچی مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر اگر پاکستان کی نہیں سنی گئی تو اس کا جھکاؤ روس اور چین کی جانب ہو جائے گا۔
جمعرات کو واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ 'امریکا اب عالمی طاقت نہیں ہے۔ اس کی طاقت کم ہو رہی ہے۔ اس کے بارے میں بھول جائیں۔ انھوں نے کہا کہ روس پہلی بار پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنے پر راضی ہو گیا ہے جب کہ چین انتہائی قریبی دوست ہے اور امریکا کو اس بدلتے ہوئے علاقائی توازن کو سمجھنا ہو گا۔ اوباما انتظامیہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
مشاہد حسین سید اور رکن قومی اسمبلی شزرا منصب ان دنوں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے امریکا کا دورہ کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں انھوں نے امریکی محکمہ خارجہ حکام اور ارکانِ کانگریس سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان امریکا کو ایک کمزور ہوتی ہوئی طاقت سمجھ رہا ہے تو پھر کشمیر کے مسئلے میں ثالثی کیوں مانگ رہا ہے؟ اور اگر واقعی امریکا اتنا کمزور ہو گیا ہے تو وہ پاکستان جیسے انتہائی اہم جغرافیائی و سٹرٹیجک اتحادی کے مقابلے میں بھارت کی جانب جھکاؤ کیوں بڑھا رہا ہے اور کشمیر کے معاملے کو بین الاقوامی کے بجائے محض دو طرفہ کیوں سمجھ رہا ہے؟
اگر امریکا واقعی کمزور ہو رہا ہے اور علاقے میں چین اور روس نئی طاقتور حقیقتوں کے طور پر ابھر رہے ہیں تو پھر پاکستان امریکا کے بجائے روس سے کیوں رجوع نہیں کر رہا ہے کہ وہ بھارت کو اپنے تاریخی اتحادی رشتوں کا واسطہ دے کر کشمیر کے معاملے میں بھارتی رویے کو لچکدار بنوانے کی کوشش کرے۔ ویسے بھی معاہدہ تاشقند روس نے ہی بیچ میں پڑ کے کروایا تھا۔
مشاہد حسین سید ایک منجھے ہوئے صحافی اور بین الاقوامی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اگر انھوں نے امریکا میں وہی گفتگو کی ہے جو بی بی سی نے رپورٹ کی ہے تو پھر یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر آپ کسی سے ثالثی مانگنے جائیں تو کیا یہی لہجہ ہونا چاہیے کہ ہمیں تمہاری اوقات معلوم ہے پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ تم مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو پھر سوچ لو ہم تمہارے حریفوں سے جا ملیں گے۔ کیا آپ نے کسی ضرورت مند کو دیکھا ہے جو گریبان پکڑ کے کہے ابے مدد کرتا ہے یا نہیں؟
اور جب مشاہد سیّد کا بیان ماسکو اور بیجنگ میں کوئی اہلکار پڑھے گا تو وہ پاکستان کی تعلقاتی نفسیات کے بارے میں مزید کیا رائے قائم کرے گا۔ یہ درست ہے کہ ممالک کے تعلقات مفادات پر مبنی ہوتے ہیں اور حالات کے حساب سے دوستی و دشمنی میں بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے سینے میں دل اور آنکھ میں مروت نہیں ہوتی۔ مگر یہ بات کہنے کی تھوڑی ہوتی ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا المیہ ہی یہی رہا ہے کہ اس نے اپنی علاقائی ضروریات و مصلحتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلقاتی حکمتِ عملی وضع کرنے پر توجہ دینے کے بجائے ''جہاں دیکھے توا پرات، وہیں گاوے ساری رات'' کے اصول پر پچھلے ستر برس گزارے ہیں۔ اس نے یہ نہیں دیکھا کہ قرب و جوار میں چین اور سوویت یونین بھی بستے ہیں بلکہ یہ دیکھا کہ اس وقت سب سے بڑی سپر پاور کون ہے کہ جس کا دم چھلہ بن کر صنعتی ترقی اور سماجی ری سٹرکچرنگ کا کشٹ اٹھائے بغیر ایک دیہاڑی دار کی طرح فی کام اجرت وصول کر کے گھر کا نظام ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جائے۔کل کی کل دیکھی جائے گی۔
اور جب تمام قابلِ ذکر دارلحکومتوں میں یہ خبر عام ہو گئی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی دیہاڑی دار ہے تو پھر اس کی بات میں دوسروں کے لیے اتنا ہی وزن رہ گیا جو کسی بھی دیہاڑی دار کی باتوں میں ہو سکتا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی کے ایک جنرل نے یونہی نہیں کہا تھا ''پاکستان چین کا اسرائیل ہے''۔
یہ بھی تواتر سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان اس لیے ایک آزاد و خود مختار اور اپنے مفادات کے مطابق خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتا کیونکہ اس کے سامنے بھارت جیسا ملک کھڑا ہے جو ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتا ہے لہذا کسی ایک طاقتور کا پلو پکڑ کے پیچھے پیچھے چلنا اور حاضر جناب کہتے جانا پاکستان کی سٹرٹیجک مجبوری ہے۔
تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ کسی ایک طاقتور کی دوستی بھی پاکستان کو پینسٹھ، اکہتر اور ننانوے کی کرگل جنگ میں سفارتی تنہائی سے نہ بچا سکی۔ جنگِ افغانستان میں سب کچھ داؤ پر لگا دینے کے بعد اور دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہراول سپاہی بننے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود بھی آج پاکستان اسی سفارتی تنہائی کا شکار ہے جیسا کہ ہمیشہ طاقتور کا کام نکل جانے کے بعد رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے۔ ایسا کیوں ہے کہ مسئلہ کشمیر آج ستر برس بعد بھی ہر تیرے میرے کو پکڑ پکڑ کے سمجھانا پڑ رہا ہے۔ حتی کہ چین اور ترکی جیسے دوستوں کے ہاں بھی مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے پارلیمانی وفود بھیجنے پڑ رہے ہیں۔ مگر کوئی ملک پاکستان کے اصولی موقف کو ویسے سمجھ کے نہیں دے رہا جیسا پاکستان چاہ رہا ہے اور جن جن سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے وہ سوائے ہمدردی میں سر ہلانے کے کچھ بھی نہیں کہہ پا رہے۔ ولی دکنی کا شعر ہے
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
ہمیں گزشتہ ستر برس میں جتنی امریکی ، یورپی، جاپانی، چینی، عرب امداد ملی، ہم نے جتنے قرضے عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ وغیرہ سے حاصل کیے، ہمیں افغان خانہ جنگی کے عوض اور پھر دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں شراکت داری کا جو بھی کرایہ ملا اگر اس کا آدھا بھی دوسروں کے گھر میں جھانکنے، کن سوئیاں لینے، پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑانے اور اپنے ہی کروڑوں لوگوں کو مسلسل غربت کے توہین آمیز تھپیڑوں پر چھوڑ دینے کے بجائے تعلیم، انصاف اور معیشت و سماجی ڈھانچے کی جدیدیت پر خرچ ہو جاتا تو آج پاکستان کی ہر بات میں وزن ہوتا۔
ہر کسی کا کندھا پکڑ پکڑ کے یہ نہ کہنا پڑتا ''بھائی صاحب ایک منٹ میری بات سن لیجیے۔ میں منگتا نہیں ہوں۔ بس ایک منٹ ''اور پھر جھنجلائے لہجے میں دوسرے ہی لمحے یہ نہ کہنا پڑتا ''ابے کیا سمجھتا ہے تو، کیا تیرے بغیر میں مر جاؤں گا، ابھی اس دنیا میں اللہ کے بندے اور بھی ہیں ہم جیسے غریبوں پر ترس کھانے والے، تیری یہ اکڑ کسی کام نہیں آئے گی۔ آیا سالا نو دولتیا کہیں کا'' ...
یہ سامنے آ رہا ہے ایک اور سخی۔یہ گیم چینجر نہیں تو کم از کم چینج ضرور دے گا۔۔اے بھئیا...
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)
جمعرات کو واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ 'امریکا اب عالمی طاقت نہیں ہے۔ اس کی طاقت کم ہو رہی ہے۔ اس کے بارے میں بھول جائیں۔ انھوں نے کہا کہ روس پہلی بار پاکستان کو ہتھیار فروخت کرنے پر راضی ہو گیا ہے جب کہ چین انتہائی قریبی دوست ہے اور امریکا کو اس بدلتے ہوئے علاقائی توازن کو سمجھنا ہو گا۔ اوباما انتظامیہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
مشاہد حسین سید اور رکن قومی اسمبلی شزرا منصب ان دنوں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے امریکا کا دورہ کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں انھوں نے امریکی محکمہ خارجہ حکام اور ارکانِ کانگریس سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان امریکا کو ایک کمزور ہوتی ہوئی طاقت سمجھ رہا ہے تو پھر کشمیر کے مسئلے میں ثالثی کیوں مانگ رہا ہے؟ اور اگر واقعی امریکا اتنا کمزور ہو گیا ہے تو وہ پاکستان جیسے انتہائی اہم جغرافیائی و سٹرٹیجک اتحادی کے مقابلے میں بھارت کی جانب جھکاؤ کیوں بڑھا رہا ہے اور کشمیر کے معاملے کو بین الاقوامی کے بجائے محض دو طرفہ کیوں سمجھ رہا ہے؟
اگر امریکا واقعی کمزور ہو رہا ہے اور علاقے میں چین اور روس نئی طاقتور حقیقتوں کے طور پر ابھر رہے ہیں تو پھر پاکستان امریکا کے بجائے روس سے کیوں رجوع نہیں کر رہا ہے کہ وہ بھارت کو اپنے تاریخی اتحادی رشتوں کا واسطہ دے کر کشمیر کے معاملے میں بھارتی رویے کو لچکدار بنوانے کی کوشش کرے۔ ویسے بھی معاہدہ تاشقند روس نے ہی بیچ میں پڑ کے کروایا تھا۔
مشاہد حسین سید ایک منجھے ہوئے صحافی اور بین الاقوامی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اگر انھوں نے امریکا میں وہی گفتگو کی ہے جو بی بی سی نے رپورٹ کی ہے تو پھر یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر آپ کسی سے ثالثی مانگنے جائیں تو کیا یہی لہجہ ہونا چاہیے کہ ہمیں تمہاری اوقات معلوم ہے پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ تم مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو پھر سوچ لو ہم تمہارے حریفوں سے جا ملیں گے۔ کیا آپ نے کسی ضرورت مند کو دیکھا ہے جو گریبان پکڑ کے کہے ابے مدد کرتا ہے یا نہیں؟
اور جب مشاہد سیّد کا بیان ماسکو اور بیجنگ میں کوئی اہلکار پڑھے گا تو وہ پاکستان کی تعلقاتی نفسیات کے بارے میں مزید کیا رائے قائم کرے گا۔ یہ درست ہے کہ ممالک کے تعلقات مفادات پر مبنی ہوتے ہیں اور حالات کے حساب سے دوستی و دشمنی میں بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے سینے میں دل اور آنکھ میں مروت نہیں ہوتی۔ مگر یہ بات کہنے کی تھوڑی ہوتی ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا المیہ ہی یہی رہا ہے کہ اس نے اپنی علاقائی ضروریات و مصلحتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلقاتی حکمتِ عملی وضع کرنے پر توجہ دینے کے بجائے ''جہاں دیکھے توا پرات، وہیں گاوے ساری رات'' کے اصول پر پچھلے ستر برس گزارے ہیں۔ اس نے یہ نہیں دیکھا کہ قرب و جوار میں چین اور سوویت یونین بھی بستے ہیں بلکہ یہ دیکھا کہ اس وقت سب سے بڑی سپر پاور کون ہے کہ جس کا دم چھلہ بن کر صنعتی ترقی اور سماجی ری سٹرکچرنگ کا کشٹ اٹھائے بغیر ایک دیہاڑی دار کی طرح فی کام اجرت وصول کر کے گھر کا نظام ایڈہاک بنیادوں پر چلایا جائے۔کل کی کل دیکھی جائے گی۔
اور جب تمام قابلِ ذکر دارلحکومتوں میں یہ خبر عام ہو گئی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی دیہاڑی دار ہے تو پھر اس کی بات میں دوسروں کے لیے اتنا ہی وزن رہ گیا جو کسی بھی دیہاڑی دار کی باتوں میں ہو سکتا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی کے ایک جنرل نے یونہی نہیں کہا تھا ''پاکستان چین کا اسرائیل ہے''۔
یہ بھی تواتر سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان اس لیے ایک آزاد و خود مختار اور اپنے مفادات کے مطابق خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتا کیونکہ اس کے سامنے بھارت جیسا ملک کھڑا ہے جو ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتا ہے لہذا کسی ایک طاقتور کا پلو پکڑ کے پیچھے پیچھے چلنا اور حاضر جناب کہتے جانا پاکستان کی سٹرٹیجک مجبوری ہے۔
تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ کسی ایک طاقتور کی دوستی بھی پاکستان کو پینسٹھ، اکہتر اور ننانوے کی کرگل جنگ میں سفارتی تنہائی سے نہ بچا سکی۔ جنگِ افغانستان میں سب کچھ داؤ پر لگا دینے کے بعد اور دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں ہراول سپاہی بننے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود بھی آج پاکستان اسی سفارتی تنہائی کا شکار ہے جیسا کہ ہمیشہ طاقتور کا کام نکل جانے کے بعد رہا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے۔ ایسا کیوں ہے کہ مسئلہ کشمیر آج ستر برس بعد بھی ہر تیرے میرے کو پکڑ پکڑ کے سمجھانا پڑ رہا ہے۔ حتی کہ چین اور ترکی جیسے دوستوں کے ہاں بھی مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے پارلیمانی وفود بھیجنے پڑ رہے ہیں۔ مگر کوئی ملک پاکستان کے اصولی موقف کو ویسے سمجھ کے نہیں دے رہا جیسا پاکستان چاہ رہا ہے اور جن جن سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے وہ سوائے ہمدردی میں سر ہلانے کے کچھ بھی نہیں کہہ پا رہے۔ ولی دکنی کا شعر ہے
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
ہمیں گزشتہ ستر برس میں جتنی امریکی ، یورپی، جاپانی، چینی، عرب امداد ملی، ہم نے جتنے قرضے عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ وغیرہ سے حاصل کیے، ہمیں افغان خانہ جنگی کے عوض اور پھر دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں شراکت داری کا جو بھی کرایہ ملا اگر اس کا آدھا بھی دوسروں کے گھر میں جھانکنے، کن سوئیاں لینے، پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑانے اور اپنے ہی کروڑوں لوگوں کو مسلسل غربت کے توہین آمیز تھپیڑوں پر چھوڑ دینے کے بجائے تعلیم، انصاف اور معیشت و سماجی ڈھانچے کی جدیدیت پر خرچ ہو جاتا تو آج پاکستان کی ہر بات میں وزن ہوتا۔
ہر کسی کا کندھا پکڑ پکڑ کے یہ نہ کہنا پڑتا ''بھائی صاحب ایک منٹ میری بات سن لیجیے۔ میں منگتا نہیں ہوں۔ بس ایک منٹ ''اور پھر جھنجلائے لہجے میں دوسرے ہی لمحے یہ نہ کہنا پڑتا ''ابے کیا سمجھتا ہے تو، کیا تیرے بغیر میں مر جاؤں گا، ابھی اس دنیا میں اللہ کے بندے اور بھی ہیں ہم جیسے غریبوں پر ترس کھانے والے، تیری یہ اکڑ کسی کام نہیں آئے گی۔ آیا سالا نو دولتیا کہیں کا'' ...
یہ سامنے آ رہا ہے ایک اور سخی۔یہ گیم چینجر نہیں تو کم از کم چینج ضرور دے گا۔۔اے بھئیا...
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)