سندھ میں ملازمتیں اور میرٹ 

حکومت سندھ نے کئی سالوں سے ملازمتوں پرعائد پابندی ختم کردی


Dr Tauseef Ahmed Khan October 08, 2016
[email protected]

MATTA: حکومت سندھ نے کئی سالوں سے ملازمتوں پرعائد پابندی ختم کردی، اب مختلف نوعیت کی 90 ہزارآسامیوں پر مناسب امیدواروں کا تقرر ہو گا۔ وزیر اعلی مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں یہ اہم فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس میں 50 ہزارآسامیوں پر مختلف محکموں کے افسران اوردیگر عملے کو ترقی کے ذریعے پُرکیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ نے ہدایت کی ہے کہ فوری طور پر ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹیوں کے اجلاس بلائے جائیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنے وزراء کے سامنے اس یقین کا اظہارکیا کہ تمام تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر ہوں گی۔ وزیر اعلیٰ نے سندھ کے تعلیمی بورڈز کے سربراہوں کا بھی تقررکردیا، یہ تقرریاں بھی کافی عرصے سے التوا کا شکار تھیں۔ بعض اخباری خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی بورڈز کے سربراہوں کے تقرر میں میرٹ پامال کیا گیا۔

کراچی اورحیدرآباد کے تعلیمی بورڈز کے سر براہوں کا تقرر سرچ کمیٹی کی سفارشات پر کیا گیا جب کہ سکھر اورلاڑکانہ بورڈ کے سربراہوں کے تقرر کے لیے میرٹ کو پامال کیا گیا۔ سندھ صوبہ اپنے لسانی تصور کے اعتبار سے ایک منفرد صوبہ ہے، یہ کوٹہ ملازمتوں کے اعتبار سے اہم ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں واضع طور پر تحریر ہے کہ حکومت ہر شہری کو روزگار فراہم کرے گی۔

تعلیم اورصحت کے محکموں کے لیے عالمی بینک اوردوسرے بین الاقوامی ادارے امداد دیتے ہیں۔ عالمی بینک اچھے اور قابل اساتذہ کے انتخاب کے لیے اربوں روپے فراہم کرتا ہے۔ عالمی بینک پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی تعلیم کے لیے فنڈز فراہم کرتا ہے۔ قومی وبین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں کے سروے سے حاصل ہونے والے اعداد وشمار سے پتہ چلا ہے کہ سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی تعداد دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے۔ اس طرح غیر حاضر اساتذہ کا ادارہ بہت مستحکم ہے محکمہ تعلیم کے افسران اساتذہ سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں جس کے بعد انھیں غیر سرکاری طور پر حاضری سے مستثنی قرار دیا جاتا ہے۔

اس طرح اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ دستیاب اساتذہ کی تعلیمی قابلیت انتہائی پست ہے۔ اساتذہ کسی بھی زبان اور ریاضی وسائنس کے علوم پر دسترس نہیں رکھتے جس کی بناء پر پانچویں جماعت کے طلباء کا معیاردوسری جماعت کے طلباء کے برابر ہے۔ عالمی بینک نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے انٹری ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا تھا اور ملک کے معروف تعلیمی اداروں سے یہ ٹیسٹ تیار کروایا گیا۔ اس طرح یہ ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ کی اہلیت کا معیارطے ہوا۔

2008ء میں جب پیپلزپارٹی نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو پیرمظہرالحق وزیر تعلیم کے عہدے پرجلوہ افروز ہوئے۔ انھوں نے انٹری ٹیسٹ کو عالمی بینک کا ایک امتیازی اقدام قراردیا۔ اساتذہ کی بھرتی شروع ہوئی ہر رکن قومی وصوبائی اسمبلی کا کوٹہ مقررکیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے عہدے داروں کو بھی مناسب کوٹہ دیا گیا۔ اساتذہ کی یہ آسامیاں فروخت ہونے لگیں، پرائمری اسکول کے اساتذہ کے لیے کم سے کم نرخ پانچ لاکھ روپے طے ہوا اور سیکنڈری اسکول اساتذہ کے لیے کم سے کم رقم دس لاکھ روپے۔ یوں بیس ہزار سے زیادہ ایسے افراد اساتذہ بن گئے جن کا تعلیم کے شعبے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس صورتحال کا علم عالمی بینک کے ماہرین کو ہوا تو سندھ میں تعلیم کے لیے دی جانے والی گرانٹ کو روکنے پر غورشروع ہو گیا۔ اس صورتحال کا ادراک جب سابق صدر آصف زرداری کوہوا تو انھوں نے اپنے قریبی عزیز کو سیکریٹری تعلیم کے عہدے پر تعینات کیا اوران اساتذہ کی تنخواہیں بند کر دی گئیں۔ ان افراد نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا کراچی پریس کلب کے سامنے یہ لوگ مہینوں دھرنا دیتے رہے، انھوں نے کئی دفعہ جلوس کی شکل میں وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کی۔ پولیس نے انھیں لاٹھیاں اور آنسو گیس استعمال کرکے منتشرکیا۔

ٹی وی چینل نے یہ مناظربراہ راست ٹیلی کاسٹ کیے اور اصلی حقائق نہیں دکھائے، یوں ان افراد کے لیے عوام میں ہمدردی پیدا ہوئی۔اس پوری افسوسناک صورتحال کی بناء پر پیر مظہر الحق وزارت سے محروم ہوئے۔ نیب نے وزیرتعلیم اورافسروں کے خلاف ریفرنس دائرکیے۔ اس طرح کا اسکینڈل محکمہ بلدیات میں بھی سامنے آیا۔ بلدیات کے سابق سیکریٹری کو نیب نے گرفتار کیا۔ بلدیاتی اداروں میں بھرتی ہونے والے افراد کا تعلق صوبے کی دو بڑی سیاسی جماعتوں سے بتایا جاتا تھا۔

ایم کیو ایم پر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، واٹر بورڈ وغیرہ میں ہزاروں افراد کو غیر قانونی بھرتی کرنے کا الزام لگایا گیا۔ ان میں سے بیشتر غیر حاضر کارکن تھے، ان میں سے بعض افراد پر تو لندن اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے الزامات لگے۔ حکومت سند ھ کے ذرایع یہ الزامات لگاتے ہیں کہ کراچی میں صفائی کی ناقص صورتحال کی وجہ یہ غیر حاضرکارکن ہیں۔اس طرح کراچی میں چائنہ کٹنگ کی اصطلاح دنیا بھر میں مشہور ہوئی۔

پولیس کا محکمہ بھی اس طرح کی بھرتیوں سے متاثر ہوا، سابق آئی جی نے سپریم کورٹ کے سامنے بیان دیا کہ پولیس میں سیاسی بنیاد پر بھرتیاں ہوئیں پھر مختلف جرائم میں پولیس والوں کے ملوث ہونے کی اطلاعات ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم کے اصول کو بھی پامال کیا گیا۔ شہری کوٹے پر دیہی علاقوں اور ملک کے دسرے حصوں سے آنے والے افراد جعلی دستاویزات کی بناء پر بھرتی ہوئے جس کی بناء پر شہری اور دیہی علاقوں میں خلیج پیدا ہوئی۔

نوازشریف کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈاکٹرمعین قریشی کی عبوری حکومت بنی، تو اس حکومت نے سرکاری ملازمتوں کے لیے ایک شفاف نظام تیاکیا۔ صوبائی پبلک سروس کمیشن کو مکمل طور پر خود مختار بنایا گیا۔ گریڈ دس سے اوپر کی آسامیوں کے تقرر کو کمیشن کے دائرہ اختیار میں شامل کیا گیا۔

کمیشن کے چیئر مین اراکین کے تقررکے طریقہ کار اور ان کے ضابطہ اخلاق میں انقلابی تبدیلیاں کی گئیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدارمیں آئی توڈاکٹر معین قریشی کی انتظامی اصلاحات کو پامال کرنا شروع کیا، کمیشن کی سفارشات پر تقرر کا سلسلہ روک دیا گیا۔جب امیدواروں نے احتجاج کیا تو وزراء نے کہا کہ حکومت کمیشن کے فیصلوں پر عملدرآمد کی پابند نہیں۔

2008ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ پبلک سروس کمیشن میں مداخلت شروع کی۔ کمیشن کے سربراہ اور اراکین کے تقررکا معاملہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ہوا، مگر ایم کیو ایم سے تعلقات ختم ہوتے ہی متنازعہ افسروں کو کمیشن کے مختلف عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ جسٹس ریٹائرڈ آغا رفیق کا شمارایک ایماندارجج کے طور پرہوتا ہے۔ وہ شریعت کورٹ کے چیف جسٹس رہے اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری کے دوستوں کے حلقے میں شامل تھے۔

آغا رفیق کو سندھ پبلک سروس کمیشن کا سربراہ مقررکیا گیا، انھوں نے کمیشن کے فیصلوں میں میرٹ کو اہمیت دینے کی کوشش کی۔ایک دن یہ خبر آئی کہ آغا رفیق نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے، وہ تقرریوں کے معاملے پرکسی قسم کے معاملے پر دباؤ قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے استعفیٰ کا راستہ اختیار کیا۔

کمیشن کے کئی افسروں کے خلاف تحقیقات کی خبریں اخبارات میں شایع ہوئی ہیں۔ ایک کنٹرولرامتحانات کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے۔ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ میرٹ کے نعرے پر اقتدار میں آئے۔ انھیں یہ شکایت ہے کہ بیوروکریسی میں اہل افراد کی کمی ہے سرکاری ملازموں کی اہلیت کا تصور ملازمتوں کے تقرر، طریق کار سے منسلک ہے۔

وزیر اعلیٰ اگر میرٹ کی بنیاد پر ملازمتوں کے تقررکی خواہش رکھتے ہیں تو سندھ پبلک سروس کمیشن کی خودمختاری کے لیے ایک جامع قانوں ہونا چاہیے اورگریڈ آٹھ سے اوپر کی ملازمتوں کے تقررکا اختیار کمیشن کو ہونا چاہیے، اگر سکھر اور لاڑکانہ کے تعلیمی بورڈ سربراہوںکے تقرر کی روایت پر عمل کیا گیا، کمیشن کا دائرہ کار محدود رہا اور ملازمتیں فروخت ہوئیں تو مراد علی شاہ اور قائم علی شاہ میں مورخ کوئی فرق محسوس نہیں کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں