ترقی کی شاہراہ

مسلمان جس وقت کم سے کم تعصبات کے حامل تھے،دنیاوی طورپرترقی کے عروج پر تھے


راؤ منظر حیات October 07, 2016
[email protected]

اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ مسلمان جس وقت کم سے کم تعصبات کے حامل تھے،دنیاوی طورپرترقی کے عروج پر تھے۔کم سے کم کالفظ اس لیے استعمال کیاہے کہ کوئی بھی گروہ، قوم یاانسان تعصب سے مکمل طور پر پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔

اسپین میں صرف آٹھ سوبرس پہلے مسلمان ایک ایسے معاشرے میں زندہ تھے جوفکری طور پرآزاداورجدید نظام تھا۔اپنے وقت کے لحاظ سے وہ ملک آج کے برطانیہ اور امریکا جیساتھا۔سوچیے کہ بنیادی فرق کیاتھا۔جذباتیت کے تالاب میں چھلانگ مت ماریے۔اسپین میں آٹھ سے دس صدیاں پہلے تحقیق اور جستجو پر کوئی مذہبی یاغیرمذہبی قدغن نہیں تھی۔ دونوں لفظ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

اسپین میں اس وقت کے لکھاری، سائنسدان، کیمیاگر اور فلسفیوں کی سوچ پرکوئی پابندی نہیں تھی۔انگریزی زبان میں اسے Free Sense of Inquiry کا نام دیا جاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق تھاجس نے بادشاہت کی موجودگی میں بھی اسپین کے مسلمانوں کوپوری دنیاکے لیے اعلیٰ اورعمدہ مثال بناکررکھ دیا۔

عمومی طورپربادشاہی نظام سوچ کوختم کرنے کاکام کرتاہے۔اس کی مقامی مثال مغل دورہے۔جس میں سائنس اورتحقیق کی سرپرستی نہ ہونے کے برابرتھی۔اس کے برعکس قدیم اسپین کی صورتحال قابل فخرتھی۔صرف اسپین ہی کیا،پوری اسلامی دنیاتقریباًایک جیسی تھی۔علم دوست اورفکرکوفروغ دینے کی محرک۔اس کے برخلاف مسیحی دنیا مذہبی بنیاد پرستی، فرقہ واریت،قتل وغارت اورتشددپسندی کی طرف مائل تھی۔

غورسے صنعتی انقلاب سے پہلے کادورانیہ دیکھیے۔لوگ عقیدے کی بنیادپرایک دوسرے کوقتل کرناثواب سمجھتے تھے۔اپنے اپنے فرقہ پراس سختی سے کاربند رہتے تھے کہ فرقہ ورانہ جنگ لڑنادین کی سربلندی میں شامل تھا۔مسیحی دنیاکو صرف ایک استعارہ جانیے۔یہ صرف مسلمان ہی تھے جو دنیا میں اپنی فکرکی بدولت انتہائی اہم مقام حاصل کرچکے تھے۔

دیکھاجائے توقدرت کے اپنے اَٹل اصول ہیں۔ وہ کسی کے لیے تبدیل نہیں ہوتے۔دوہزاربرس پہلے بھی قدرتی اصول وہی تھے اورآج بھی وہی ہیں۔مستقبل میں بھی یہ اصول قائم رہیںگے۔ہماراآج کابنیادی مسئلہ ہے کہ ہم قدرت کے اصولوں کواپنی مرضی سے استعمال کرناچاہتے ہیں۔ بھولتے ہوئے کہ یہ اَٹل اصول کسی خاص قوم یا مذہب کی جاگیرنہیں ہیں۔ہم یہ غلطی مسلسل کیے جارہے ہیں۔

اصل میں تعصب نے اسلامی دنیا کو قیدی بناکررکھ ڈالا ہے۔ بلکہ نابیناکررکھاہے۔آج ایک بھی ایسااسلامی ملک نہیں ہے جس میں سوچ پر پابندی نہ ہو۔جس کی رگوں میں فرقہ واریت کازہرنہ ہو۔ بادشاہت یاجمہوریت کاتذکرہ نہیں کر رہا۔عرض کررہا ہوں کہ ہمارے ہاں دونوں نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ جمہوری نظام بغیرکسی قومی بلوغت کے ایک عذاب بن سکتاہے اوربن چکاہے۔جہاں تک بادشاہت کا تذکرہ ہے۔

چار پانچ ہزارشاہی افرادپورے مشرق وسطیٰ کی گردن کاٹ کراسکالہوپی رہے ہیں۔مجموعی طور پر موجودہ اسلامی دنیامیں دلیل کی بنیادپرسوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔بلکہ آزاداورمختلف طرزکی سوچ ہی قابل گردن زنی ہے۔کیاوجہ ہے کہ دنیاکی تیل کی دولت توسعودی عرب اور اس طرح کی مسلمان سلطنتوں کے ہاتھ میں ہے مگر اسکو نکالنے کے جدیدطریقے اورمشینوں کے لیے مغرب کے محتاج ہیں۔

ایران کا حال دیکھ لیجیے۔ مخصوص نظام نے شہریوں میں وہ فکری شعوررہنے ہی نہیں دیا، جو آزاد دنیا کی میراث ہے۔اگرآپ نے حقیقت میں آزادفکر،تحقیق اور سائنس کے غیرمتعصب معاشرہ دیکھناہے تو لندن، نیویارک اورپیرس کی طرف رخ کرناپڑتاہے۔اگرمغربی ممالک اورشہردنیاکواپنے پیچھے لگانے میں کامیاب ہیں تو اسکا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ان کے باسیوں کے پاس دودودماغ ہیں۔ چار آنکھیں ہیں۔یاوہ ہم سے قدمیں بڑے ہیں۔ فرق صرف اس ماحول کاہے جس میں ان کے شہری سانس لے رہے ہیں۔

امریکا کے مخالف نعرے اسلامی دنیامیں تقریباًہرجگہ بلندہوتے ہیں۔ آج بھی وہاں اگرآپ رہنا شروع کردیں توآپکوکم سے کم تعصبات کاسامنا کرنا پڑیگا۔ بالکل عرض نہیں کررہاکہ مغربی ممالک میں ہر چیز درست ہے۔مگروہاں کافی سماجی عناصرتوازن سے پائے جاتے ہیں۔ایک ایساتوازن جومعاشروں میں انصاف، معاشی اورمعاشرتی ترقی اورفکری آزادی کاضامن ہے۔

شائد آپکو بُرا لگے۔ سوچیے کہ ہمارے جیسے ممالک یعنی پاکستان، کتنے غیرمسلم لوگوں کو معاشرے میں جذب ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔کتنے غیرملکیوں کو معاشرے میں ترقی کے بھرپور مواقع فراہم کرتے ہیں۔ آج کے پاکستان کی بات کررہاہوں جونیشن اسٹیٹ ہے۔ہمارے تعصبات وہ پتھرہیں جنھیں پاؤں میں باندھ کرہم دنیاوی پانی میں تیرنہیں سکتے، صرف اورصرف ڈوب سکتے ہیں۔ اگرآپ ادیب ہیں اوراپنے ذہن کے حساب سے کچھ بھی لکھناچاہتے ہیں تویہ فکری آزادی صرف اورصرف مغرب میں موجودہے۔

اگرآپ سائنسدان ہیں اورآپ کچھ ایجاد کرناچاہ رہے ہیں، تو آپ کوہرمغربی ملک ہاتھوں ہاتھ لے گا۔ اگرآپ کے فرقہ کی وجہ سے مصائب کاسامناہے تو پھر بھی یہی مغربی دنیا اپنے شہروں کے دروازے کھول دیگی۔ ان معاشروں میں استطاعت کے مطابق آپ بڑی حدتک ترقی کرسکتے ہیں۔اسلامی معاشروں میں ایسا ہرگز ہرگز ممکن نہیں ہے۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ آٹھ صدیاں پہلے مسلمان معاشرے تقریباًآج کے ترقی یافتہ ملک کی طرح تھے۔

آزادفکرکوقبول کرنے والے معاشرے۔ یہی وہ وقت تھا جس میں مسلمان سائنسدانوں اورمحقیقین نے کمال ایجادات کی تھیں۔انھوں نے دنیاکوسکھایاتھاکہ زندگی کیا چیز ہے۔ علم کیاہے اورتحقیق کیاہے۔یونانیوں کے بعدعلم کی مشعل مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔مسلمان بادشاہ تک یونانی علوم کوعربی میں ترجمہ کروانا اپنے فرائض منصبی گردانتے تھے۔

ہارون الرشید اور مامون الرشید کے دورمیں توبادشاہ تک خودترجمہ کے کام میں مصروف کاررہتاتھا۔پوری مسلمان دنیاعلم کو اپنے رویوں میں شامل کرچکی تھی۔ آٹھ سے دس صدیاں پہلے کے مسلم ممالک ہم سے بالکل مختلف تھے۔وہ کتابیں لکھنے اور کتب خانے بنوانے میں مصروف کار رہتے تھے۔ ہمارے سنہرے دورکی واحدوجہ علم دوستی اور تعصب کے بغیرتحقیق کے دروازے کھولنے میں تھی۔

دلیل کے طورپرچندایسی ایجادات اورعلوم کے نام پیش کرناچاہونگاجومسلمانوں نے ترتیب دیے اوردنیاان کے سامنے ہیچ ہوگئی۔634ء میں یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے Wind Mill ایجاد کی تھی۔تیرہ صدیاں پہلے کی بات کررہاہوں۔ایرانی مسلمان بادشاہ کے پاس ایک انجینئر آیا۔دربارمیں بادشاہ کومخاطب کرکے کہاکہ ایک ایسی مشین بناسکتاہے جس کے ذریعے دریاسے پانی کو باہر نکالا جاسکتا ہے اورفصلوں کی پسائی بھی ممکن ہے۔

چھ سے بارہ پروں کی یہ مشین اس وقت کی جدیدترین مشین تھی۔اس کے پروں پر کپڑا چڑھایاگیااورایک ایسے علاقہ میں لگایاگیاجہاں ہوا کی رفتار اور شدت بہت تیزہوتی ہے۔ہواکی رفتار سے اس کے پروں نے چلنا شروع کردیا۔بادشاہ وقت کے حکم سے مشین کو دریاؤں کے کنارے لگانے کا کام شروع کیا گیا۔ صحرا تک سیراب کیے گئے۔مکئی کے دانوں کوپیسنے کاکام بھی اسی مشین سے لیاگیا۔

آپ حیران ہوجائیں گے کہ یورپ نے اس کی نقل پانچ سوبرس بعدکی اوراس کے ذریعے بجلی پیداکرنے کاطریقہ ایجاد کیا۔مسلمانوں کی جدت دیکھیے کہ جہاں انھیں کپڑا میسر نہیں آیا،انھوں نے درختوں کے پتوں سے مشین کے پروں کوڈھانپ دیا اور ہوا کے زورسے انسانی فلاح وبہبودکے لیے کام لینا شروع کردیا۔کسی مسلمان سائنسدان نے اپنی ایجاد کو سینے سے لگاکرنہیں رکھابلکہ اسے استعمال کے لیے عام کردیا۔

سائنس کی دنیامیںLoius Pasteur کوپنسیلین کاموجدقراردیاجاتاہے۔تمام لوگ آنکھیں بند کرکے اسکو مان رہے ہیں۔یہ بات قدرے ٹھیک بھی ہے۔ حیران ہوجائینگے کہ Loius سے صدیوں پہلے سلطنت عثمانیہ میں Cowpoxکی بیماری سے بچاؤکے لیے حفاظتی ٹیکے لگتے تھے۔ عثمانی خلیفہ کے دربارمیں برطانوی سفیرنے جب یہ طریقہ دیکھاتو حیران رہ گیا۔ اس کی اہلیہ کوطب سے خاص شغف تھا۔جب سفیر دربار سے واپس برطانیہ گیاتواس کی اہلیہ Cowpox کے حفاظتی ٹیکوں کی پوری ترکیب اپنے ساتھ لے گئی۔

حفاظتی ٹیکوں کی ایجاد اس طرح یورپ پہنچی اوریہیں سے یورپ نے اپنی تحقیق کوآگے بڑھایا۔مگر اس کی بنیاد ہرگز ہرگز انھوں نے نہیں رکھی۔الجبراسے لے کرسرجری تک چلے جائیے۔انسانی سانس کے نظام کے علم سے لے کر دھاتوں کے علم تک سفرکیجیے۔فزکس سے لے کرحساب تک کاجائزہ لیجیے۔ کیمرے سے لے کر پیرا شوٹ کی ایجادتک نظر ڈالیے۔ بارود سے لے کرٹیلی اسکوپ تک دیکھیے۔پنڈولم، وقت کی جانچ کے کلاک حتیٰ کے پہلی آبدوزتک مسلمانوں کے کرشمے ہیں۔

مسلمانوں نے سارے محیرالعقول کام متعدد وجوہات کی بدولت کیے۔مگرایک بہت بڑی وجہ قدیم مسلمان معاشروں میںFree Sense of Inquiryتھا۔یعنی سوال پوچھنے کی کوئی حدمقررنہیں تھی۔اس طرح کی کوئی پابندی نہیں تھی کہ محقق کسی طرح کاعلمی سوال پوچھ سکتاہے اورکس طرح کا نہیں پوچھ سکتا۔

ایجادات اوردلیل کے قواعد وضوابط مرتب نہیں کیے گئے تھے۔یہیں سے ان علوم نے جنم لیاجنہوں نے دنیا کا رخ تبدیل کردیا اور مسلمان دنیا کے اصل مالک بن گئے۔ حالیہ اسلامی دنیاکوچھوڑیے۔اپنے ملک کولے لیجیے۔کیاپاکستان میں فکری آزادی کی کوئی جگہ تک ہے۔کیاہم اپنے معاشرہ میں کوئی ایسی نئی یاجدیدبات کرسکتے ہیں جومروجہ ضابطوں کے خلاف ہو۔بات یہاں نہیں رکتی۔

کیا ہم اپنے ملک میں کسی ایسے عالم کوزندہ رہنے کی اجازت دیتے ہیں جوہمارے سماجی اورعلمی رویوں سے متضادبات کرتا ہو۔ سائنس، تحقیق اورعلمی سوالات کی ہمارے ملک میں کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمارے رویے پسماندہ نہیں،قدیم بھی نہیں بلکہ جاہلانہ اورمتعصب ہیں۔ ان خیالات کے ساتھ ہم قطعاً ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہوسکتے۔ ہاں، مزید ادنیٰ ضرور ہوسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں