بھارتی عوام کے لیے چند حقائق
انڈیا کا تجارتی خسارہ آئے روز بڑھتا جا رہا ہے
KARACHI:
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا معیار، پیمانہ اس ملک کے عوام میں بڑھتی ہوئی غربت یا عوام کی معاشی خوشحالی سے لگایا جاتا ہے ۔ انڈین ماہرین معیشت اورعوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ انڈیا برطانوی سامراجی شکنجے سے 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔ انڈین عوام ستمبر 1949 کو امریکی سامراجی نوکیلے پنجوں میں جکڑ دیے گئے اور آج تک غربت کی بھٹی میں پھڑ پھڑا رہے ہیں۔
انڈین معیشت کا تجزیہ پیش کررہا ہوں۔ (1)۔ کتاب Year Book of International Trade Statistics 1954. by United Nations New York 1955۔ کے صفحے 264 پر انڈیا کے تجارتی اعداد و شمار (2)۔ اور کتاب IFS 1992 by IMF کے صفحے سے انڈین روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے لی گئی ہے۔ یاد رہے کہ 1930 میں 1.618 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ 1940 میں 3.309 روپے کا ایک ڈالر ہوا۔ 1948 میں انڈیا کی ایکسپورٹ 4283.0 ملین روپے امپورٹ 5597.0 ملین روپے ہوئی تھی۔ تجارتی خسارہ 1314.0 ملین روپے ہوا تھا۔ ڈالر کی قیمت 1948 میں 3.318 روپے تھی۔
امریکی ادارے نے ستمبر 1949 کو پوری دنیا کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کردی تھی، جواز یہ بتایا گیا کہ دنیا کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ انڈین 4.762 روپے کا ایک ڈالر کردیا گیا۔ روپے کی قیمت میں کمی 44 فیصد کی گئی تھی۔ اس Currency Devaluation Minus Economic Development کے نتیجے میں (1) ملکی پیداواریں لاگتیں بڑھ جانے سے ملک میں تیار ہونے والی اشیا کے مقابلے میں سامراجی ملکوں سے آنے والی اشیا سستی ہوگئیں۔ (2) باہر سے خریدی جانے والی تمام اشیا کی 44 فیصد زیادہ قیمتیں مقامی کرنسی روپے میں ادا کرنی پڑیں۔
کتاب International Financial Statistics Year Book 1979 by IMF کے صفحے 76 پر پٹرولیم عالمی مارکیٹ میں 1949 کو 1.65 ڈالر فی بیرل تھا۔انڈین روپے کی قیمت میں کمی سے قبل یہ پٹرولیم 3.318 روپے فی ڈالر کے حساب سے 5.48 روپے فی بیرل لیا جا رہا تھا۔ روپے کی قیمت میں کمی کے بعد وہی پٹرولیم 4.762 روپے فی ڈالرکے حساب سے 7.86 روپے کا لینا پڑا تھا۔
متذکرہ کتاب کے صفحے 62 سے 68 تک پوری دنیا کے ملکوں کے تجارتی اعداد و شمار 1949 سے 1962 تک دیے گئے ہیں 1948 میں انڈیا کی تجارت 289.33 ملین ڈالر خسارے میں تھی 1949 میں 643.0 ملین ڈالر خسارہ تھا اور جب انڈین روپے کی قیمت میں کمی 3.318 روپے 4.762 روپے فی ڈالر کردی گئی تو انڈین ایکسپورٹرز نے بیرونی منڈی مقابلے میں زیادہ سے زیادہ اشیا کم ریٹ ڈالروں پر فروخت کرکے زیادہ اشیا فروخت سرپلس ایکسپورٹ کرلی تھی۔
اس سال تجارت 54.0 ملین ڈالر سے سرپلس ہوئی تھی۔ اور تاجروں نے مقامی منڈی میں ڈالر ٹریڈنگ کرکے فی ڈالر 1.44 روپے کا نفع اپنے ملک میں 77.976 ملین روپے حاصل کرکے لیا تھا۔ سامراجی ایجاد کردہ سڈمڈ یعنی Currency Devaluation Minus Economic Development ''سامراجی تاجری نفع میکنزم '' کے طریقے سے سامراجی منڈیوں کو معاشی غلاموں کی منڈیوں کی تیار اشیا سستی سے سستی حاصل ہونے لگیں۔
ایکسپورٹرز سامراجی منڈیوں کو منڈی مقابلے میں سستی سے سستی اشیا فروخت کرکے ان حاصل ہونے والے ڈالروں پر نفع اپنی مارکیٹوں میں ڈالر ٹریڈنگ سے حاصل کرنے لگے۔ یعنی سامراجی ٹریڈ میکنزم جو سڈمڈ (CDMED) تھا۔ ایک نئی معاشی غلامی تھا جس میں نوآزاد ممالک کو دوبارہ جکڑ لیا گیا۔ سامراجی ادارہ مسلسل غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس یعنی سڈمڈ میکنزم استعمال کرکے انڈین کی قیمت ہر سال گراتا آیا ہے۔
کتابIFS March 2016 کے صفحے 3 کے مطابق انڈین روپیہ 66.338 کا ایک ڈالر تھا۔ اور 2 اکتوبر 2016 کو 68.214 روپے کا ڈالر ہوچکا تھا۔اس طرح 1948 سے اکتوبر 2016 تک 68 سالوں میں روپے کی قیمت میں کمی 1956 فیصد کا منفی اثر پورے انڈیا کی معیشت پر پڑ چکا ہے۔ یعنی حکومتی ٹیکسوں کے ساتھ عوام سڈمڈ کا سامراجی غیر اعلانیہ ٹیکس 1956 فیصد ادا کر رہے ہیں، 1947 میں آزاد ہونے والے انڈیا کو انڈین حکومت نے ستمبر 1949 دوسرے امریکی سامراج کا معاشی غلام بنادیا۔ کتاب IFS May 2016 کے صفحے 3 کے مطابق مارچ 2016 میں انڈین روپے 66.334 کا ایک ڈالر تھا۔
اسی کتاب کے صفحے 70 کے مطابق عالمی سطح پر پٹرولیم کی قیمت مارچ 2016 اوسطاً37.3 ڈالر فی بیرل تھی۔ انڈیا کو یہ پٹرولیم 2474.24 روپے کا فی بیرل لینا پڑا اور پھر اس میں مزید 40 فیصد سے زیادہ ٹیکس لگا کر عوام کو مہنگا پٹرولیم دیا گیا۔ پٹرول یورپی ملکوں کو 37.3 ڈالر بیرل سے بھی سستا ملا تھا۔ میرا سوال ہے کہ انڈیا میں دائیں اور بائیں بازو والوں کی کئی پارٹیاں ہیں۔انڈیا میں ہزاروں ماہرین معیشت ہیں آج تک کسی کو بھی انڈیا کے معاشی غلام ہونے کا احساس نہیں ہوا؟
کتاب IFS May 2016 کے صفحے 58 اور61 پر انڈیا کی ایکسپورٹ 267400.0 ملین ڈالر اور امپورٹ 392000.0 ملین ڈالر تھی۔ تجارتی خسارہ 124600.0 ملین ڈالر (1 کھرب 24 ار 60 کروڑ ڈالر) ہوا تھا۔ دوسری کتاب International Debt Statistics 2016 by World Bank کے صفحے 76 پر انڈین حکمرانوں نے سال 2014 کو انڈیا کے عوام پر 4 کھرب 63 ارب 23 کروڑ ڈالرکا قرضہ چڑھادیا تھا اسی سال سامراجی ملکوں نے انڈیا میں 43971.0 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اسی سال غیرملکی کمپنیوں نے انڈیا سے باہر 17 ارب 76 کروڑ 70 لاکھ ڈالر بھجوائے تھے۔
ایک طرف انڈیا کا تجارتی خسارہ آئے روز بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سڈمڈ میکنزم سے بیرونی سرمایہ کار چند لاکھ ڈالر لگا کر انڈین خام مال، انڈین لیبر اور انڈین زمین سستی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ غیر ملکی صنعتکار، سرمایہ دار اگر انڈیا میں ایک کروڑ ڈالر لگاتے ہیں تو یہ مقامی کرنسی ایک ڈالر 66.334 روپے کے حساب سے مقامی صنعتکاروں کے مقابلے میں 66 کروڑ33 لاکھ 40 ہزار روپے کے ساتھ ان سے سرمائے میں طاقتور ہوتے ہیں۔انڈین ماہر معیشت کو دعوت دیتا ہوں کہ راقم کی کتاب ''عالمی عوامی معاشی آزادی ازم'' ضرور پڑھ لیں جو 2013 میں شایع ہوئی تھی۔
امریکا نے 17 ستمبر 1917سے 30 جون 1919 تک ان یورپی ملکوں کے امریکی بینکوں سے اپنے اپنے ڈپازٹ کیے ہوئے سونے نکالنے پر پابندی لگادی تھی جو ملک امریکا کو اپنا ہمدرد دوست سمجھتے تھے۔ عین جنگ کے دوران امریکا نے ان سب کو دھوکا دیا۔ان ملکوں کو سونے کے بدلے امریکی اشیا اور امریکی کاغذی ڈالر کے استعمال پر مجبورکیا۔ مارچ 1971 میں فرانس کی حکومت نے غیرضمانتی کاغذی ڈالر 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے بدلے سونا طلب کیا۔ جس کا امریکا نے دسمبر 1945 کو IMF بتاتے وقت وعدہ کیا کہ وہ 35 ڈالر کے عوض ایک اونس سونا دے گا۔
امریکا نے تمام وعدے روند کر 15 اگست 1971 سے ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی نہ کرنے کا کھلم کھلا اعلان کردیا۔ اس سے قبل نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم، آسٹریا کے ملکوں نے کاغذی ڈالروں کے بدلے اپنے اپنے ملکوں کی کرنسیاں ادا کرنے کے بعد مزید بحران سے بچنے کے لیے اپنی اپنی اسٹاک ایکسچینجز کمپنیاں بند کردی تھیں۔ امریکا نے 1971 میں عربوں کی خاص تنظیم AOPEC بنوائی۔
رمضان (اکتوبر) 1973 میں شام و مصر کو اکسایا کہ وہ اسرائیل پر حملہ کریں اس کے بعد امریکا نے AOPEC ممبر ملکوں کے ذریعے تیل کا بائیکاٹ عرب اسرائیل کی جنگ کو جواز بنا کر کردیا اور تیل کی قیمتوں میں 1970 میں 30 ڈالر فی بیرل تیل سے 1974 تک 18.75 ڈالر بیرل تیل کرا دی گئیں تیل کی قیمت میں اضافہ 1342 فیصد کردیا گیا۔ 1971 اگست میں امریکا یورپی ملکوں کو ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔
اس تیل ہتھکنڈے سے تیل مہنگا کرا کر تمام غیر ضمانتی کاغذی ڈالروں کی تقریباً نکاسی کرانے میں کامیاب ہوگیا اور پھر عربوں نے تمام سرمایہ امریکا اور برطانیہ میں لگا دیا سابقہ سوویت یونین اور افغان جنگ میں تمام دنیا کے جہادی 1980 سے 1985 تک سابقہ سوویت یونین کو شکست نہیں دے سکے تھے۔ امریکا نے پھر سعودی عرب کی مدد سے 1985.86 کے بعد تیل 30 ڈالر بیرل سے 10 ڈالر فی بیرل پر گرا کر سابقہ سوویت یونین کی معیشت کو خسارے میں بدل دیا۔
سوویت یونین نے 1989 کے آخر میں افغانستان سے انخلا کرلیا۔ انڈیا نے Brics میں شمولیت بھی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس کے ممبر ممالک روس، چین، انڈیا، برازیل اور ساؤتھ افریقہ ہیں۔ کیا امریکی دفاع معاہدہ اور Brics ساتھ ساتھ چل سکیں گے؟ انڈین عوام کو جمہوری قید خانے سے نکلنے کے لیے اور معاشی غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کے لیے آزادی کی جنگ لڑنا ہوگی ۔
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا معیار، پیمانہ اس ملک کے عوام میں بڑھتی ہوئی غربت یا عوام کی معاشی خوشحالی سے لگایا جاتا ہے ۔ انڈین ماہرین معیشت اورعوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ انڈیا برطانوی سامراجی شکنجے سے 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔ انڈین عوام ستمبر 1949 کو امریکی سامراجی نوکیلے پنجوں میں جکڑ دیے گئے اور آج تک غربت کی بھٹی میں پھڑ پھڑا رہے ہیں۔
انڈین معیشت کا تجزیہ پیش کررہا ہوں۔ (1)۔ کتاب Year Book of International Trade Statistics 1954. by United Nations New York 1955۔ کے صفحے 264 پر انڈیا کے تجارتی اعداد و شمار (2)۔ اور کتاب IFS 1992 by IMF کے صفحے سے انڈین روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے لی گئی ہے۔ یاد رہے کہ 1930 میں 1.618 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ 1940 میں 3.309 روپے کا ایک ڈالر ہوا۔ 1948 میں انڈیا کی ایکسپورٹ 4283.0 ملین روپے امپورٹ 5597.0 ملین روپے ہوئی تھی۔ تجارتی خسارہ 1314.0 ملین روپے ہوا تھا۔ ڈالر کی قیمت 1948 میں 3.318 روپے تھی۔
امریکی ادارے نے ستمبر 1949 کو پوری دنیا کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کردی تھی، جواز یہ بتایا گیا کہ دنیا کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ انڈین 4.762 روپے کا ایک ڈالر کردیا گیا۔ روپے کی قیمت میں کمی 44 فیصد کی گئی تھی۔ اس Currency Devaluation Minus Economic Development کے نتیجے میں (1) ملکی پیداواریں لاگتیں بڑھ جانے سے ملک میں تیار ہونے والی اشیا کے مقابلے میں سامراجی ملکوں سے آنے والی اشیا سستی ہوگئیں۔ (2) باہر سے خریدی جانے والی تمام اشیا کی 44 فیصد زیادہ قیمتیں مقامی کرنسی روپے میں ادا کرنی پڑیں۔
کتاب International Financial Statistics Year Book 1979 by IMF کے صفحے 76 پر پٹرولیم عالمی مارکیٹ میں 1949 کو 1.65 ڈالر فی بیرل تھا۔انڈین روپے کی قیمت میں کمی سے قبل یہ پٹرولیم 3.318 روپے فی ڈالر کے حساب سے 5.48 روپے فی بیرل لیا جا رہا تھا۔ روپے کی قیمت میں کمی کے بعد وہی پٹرولیم 4.762 روپے فی ڈالرکے حساب سے 7.86 روپے کا لینا پڑا تھا۔
متذکرہ کتاب کے صفحے 62 سے 68 تک پوری دنیا کے ملکوں کے تجارتی اعداد و شمار 1949 سے 1962 تک دیے گئے ہیں 1948 میں انڈیا کی تجارت 289.33 ملین ڈالر خسارے میں تھی 1949 میں 643.0 ملین ڈالر خسارہ تھا اور جب انڈین روپے کی قیمت میں کمی 3.318 روپے 4.762 روپے فی ڈالر کردی گئی تو انڈین ایکسپورٹرز نے بیرونی منڈی مقابلے میں زیادہ سے زیادہ اشیا کم ریٹ ڈالروں پر فروخت کرکے زیادہ اشیا فروخت سرپلس ایکسپورٹ کرلی تھی۔
اس سال تجارت 54.0 ملین ڈالر سے سرپلس ہوئی تھی۔ اور تاجروں نے مقامی منڈی میں ڈالر ٹریڈنگ کرکے فی ڈالر 1.44 روپے کا نفع اپنے ملک میں 77.976 ملین روپے حاصل کرکے لیا تھا۔ سامراجی ایجاد کردہ سڈمڈ یعنی Currency Devaluation Minus Economic Development ''سامراجی تاجری نفع میکنزم '' کے طریقے سے سامراجی منڈیوں کو معاشی غلاموں کی منڈیوں کی تیار اشیا سستی سے سستی حاصل ہونے لگیں۔
ایکسپورٹرز سامراجی منڈیوں کو منڈی مقابلے میں سستی سے سستی اشیا فروخت کرکے ان حاصل ہونے والے ڈالروں پر نفع اپنی مارکیٹوں میں ڈالر ٹریڈنگ سے حاصل کرنے لگے۔ یعنی سامراجی ٹریڈ میکنزم جو سڈمڈ (CDMED) تھا۔ ایک نئی معاشی غلامی تھا جس میں نوآزاد ممالک کو دوبارہ جکڑ لیا گیا۔ سامراجی ادارہ مسلسل غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس یعنی سڈمڈ میکنزم استعمال کرکے انڈین کی قیمت ہر سال گراتا آیا ہے۔
کتابIFS March 2016 کے صفحے 3 کے مطابق انڈین روپیہ 66.338 کا ایک ڈالر تھا۔ اور 2 اکتوبر 2016 کو 68.214 روپے کا ڈالر ہوچکا تھا۔اس طرح 1948 سے اکتوبر 2016 تک 68 سالوں میں روپے کی قیمت میں کمی 1956 فیصد کا منفی اثر پورے انڈیا کی معیشت پر پڑ چکا ہے۔ یعنی حکومتی ٹیکسوں کے ساتھ عوام سڈمڈ کا سامراجی غیر اعلانیہ ٹیکس 1956 فیصد ادا کر رہے ہیں، 1947 میں آزاد ہونے والے انڈیا کو انڈین حکومت نے ستمبر 1949 دوسرے امریکی سامراج کا معاشی غلام بنادیا۔ کتاب IFS May 2016 کے صفحے 3 کے مطابق مارچ 2016 میں انڈین روپے 66.334 کا ایک ڈالر تھا۔
اسی کتاب کے صفحے 70 کے مطابق عالمی سطح پر پٹرولیم کی قیمت مارچ 2016 اوسطاً37.3 ڈالر فی بیرل تھی۔ انڈیا کو یہ پٹرولیم 2474.24 روپے کا فی بیرل لینا پڑا اور پھر اس میں مزید 40 فیصد سے زیادہ ٹیکس لگا کر عوام کو مہنگا پٹرولیم دیا گیا۔ پٹرول یورپی ملکوں کو 37.3 ڈالر بیرل سے بھی سستا ملا تھا۔ میرا سوال ہے کہ انڈیا میں دائیں اور بائیں بازو والوں کی کئی پارٹیاں ہیں۔انڈیا میں ہزاروں ماہرین معیشت ہیں آج تک کسی کو بھی انڈیا کے معاشی غلام ہونے کا احساس نہیں ہوا؟
کتاب IFS May 2016 کے صفحے 58 اور61 پر انڈیا کی ایکسپورٹ 267400.0 ملین ڈالر اور امپورٹ 392000.0 ملین ڈالر تھی۔ تجارتی خسارہ 124600.0 ملین ڈالر (1 کھرب 24 ار 60 کروڑ ڈالر) ہوا تھا۔ دوسری کتاب International Debt Statistics 2016 by World Bank کے صفحے 76 پر انڈین حکمرانوں نے سال 2014 کو انڈیا کے عوام پر 4 کھرب 63 ارب 23 کروڑ ڈالرکا قرضہ چڑھادیا تھا اسی سال سامراجی ملکوں نے انڈیا میں 43971.0 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اسی سال غیرملکی کمپنیوں نے انڈیا سے باہر 17 ارب 76 کروڑ 70 لاکھ ڈالر بھجوائے تھے۔
ایک طرف انڈیا کا تجارتی خسارہ آئے روز بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سڈمڈ میکنزم سے بیرونی سرمایہ کار چند لاکھ ڈالر لگا کر انڈین خام مال، انڈین لیبر اور انڈین زمین سستی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ غیر ملکی صنعتکار، سرمایہ دار اگر انڈیا میں ایک کروڑ ڈالر لگاتے ہیں تو یہ مقامی کرنسی ایک ڈالر 66.334 روپے کے حساب سے مقامی صنعتکاروں کے مقابلے میں 66 کروڑ33 لاکھ 40 ہزار روپے کے ساتھ ان سے سرمائے میں طاقتور ہوتے ہیں۔انڈین ماہر معیشت کو دعوت دیتا ہوں کہ راقم کی کتاب ''عالمی عوامی معاشی آزادی ازم'' ضرور پڑھ لیں جو 2013 میں شایع ہوئی تھی۔
امریکا نے 17 ستمبر 1917سے 30 جون 1919 تک ان یورپی ملکوں کے امریکی بینکوں سے اپنے اپنے ڈپازٹ کیے ہوئے سونے نکالنے پر پابندی لگادی تھی جو ملک امریکا کو اپنا ہمدرد دوست سمجھتے تھے۔ عین جنگ کے دوران امریکا نے ان سب کو دھوکا دیا۔ان ملکوں کو سونے کے بدلے امریکی اشیا اور امریکی کاغذی ڈالر کے استعمال پر مجبورکیا۔ مارچ 1971 میں فرانس کی حکومت نے غیرضمانتی کاغذی ڈالر 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے بدلے سونا طلب کیا۔ جس کا امریکا نے دسمبر 1945 کو IMF بتاتے وقت وعدہ کیا کہ وہ 35 ڈالر کے عوض ایک اونس سونا دے گا۔
امریکا نے تمام وعدے روند کر 15 اگست 1971 سے ڈالروں کے بدلے سونے کی ادائیگی نہ کرنے کا کھلم کھلا اعلان کردیا۔ اس سے قبل نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم، آسٹریا کے ملکوں نے کاغذی ڈالروں کے بدلے اپنے اپنے ملکوں کی کرنسیاں ادا کرنے کے بعد مزید بحران سے بچنے کے لیے اپنی اپنی اسٹاک ایکسچینجز کمپنیاں بند کردی تھیں۔ امریکا نے 1971 میں عربوں کی خاص تنظیم AOPEC بنوائی۔
رمضان (اکتوبر) 1973 میں شام و مصر کو اکسایا کہ وہ اسرائیل پر حملہ کریں اس کے بعد امریکا نے AOPEC ممبر ملکوں کے ذریعے تیل کا بائیکاٹ عرب اسرائیل کی جنگ کو جواز بنا کر کردیا اور تیل کی قیمتوں میں 1970 میں 30 ڈالر فی بیرل تیل سے 1974 تک 18.75 ڈالر بیرل تیل کرا دی گئیں تیل کی قیمت میں اضافہ 1342 فیصد کردیا گیا۔ 1971 اگست میں امریکا یورپی ملکوں کو ڈیفالٹر ہوچکا تھا۔
اس تیل ہتھکنڈے سے تیل مہنگا کرا کر تمام غیر ضمانتی کاغذی ڈالروں کی تقریباً نکاسی کرانے میں کامیاب ہوگیا اور پھر عربوں نے تمام سرمایہ امریکا اور برطانیہ میں لگا دیا سابقہ سوویت یونین اور افغان جنگ میں تمام دنیا کے جہادی 1980 سے 1985 تک سابقہ سوویت یونین کو شکست نہیں دے سکے تھے۔ امریکا نے پھر سعودی عرب کی مدد سے 1985.86 کے بعد تیل 30 ڈالر بیرل سے 10 ڈالر فی بیرل پر گرا کر سابقہ سوویت یونین کی معیشت کو خسارے میں بدل دیا۔
سوویت یونین نے 1989 کے آخر میں افغانستان سے انخلا کرلیا۔ انڈیا نے Brics میں شمولیت بھی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس کے ممبر ممالک روس، چین، انڈیا، برازیل اور ساؤتھ افریقہ ہیں۔ کیا امریکی دفاع معاہدہ اور Brics ساتھ ساتھ چل سکیں گے؟ انڈین عوام کو جمہوری قید خانے سے نکلنے کے لیے اور معاشی غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کے لیے آزادی کی جنگ لڑنا ہوگی ۔