گلوبل وارمنگ عالمی خطرہ
انٹارکٹیکا پر ہزاروں کی تعداد میں پراسرارنیلگوں جھلیں نمودار ہوچکی ہیں
ترتیب کائنات کا پہلا اصول ہے مگر انسانی حرص وہوس، نت نئی آسائشات کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے اس حسین کرہ ارض کی ماحولیاتی ترتیب کو بے ترتیب کرنا شروع کردیا ہے۔ جس سے اس زمین پر موجود حیوانات، نباتات، جمادات اور وہ تمام جرثومے جو اس زمین پر حیاتیاتی نظام کو آگے بڑھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں وہ ماحول کی ابتری سے خطرات سے دوچار ہوتے جارہے ہیں۔
گلوبل وارمنگ کے حوالے سے سائنس دانوں، ماہرین ارضیات وماحولیات کی اکثریت مسلسل اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہارکرتی رہی ہے اور اس ضمن میں سیکڑوں جائزے رپورٹس اور مقالات پیش کیے جاچکے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ہوش اڑا دینے والی صرف 2 رپورٹوں کا ذکرکیا جارہا ہے۔
پہلی رپورٹ کے مطابق انٹارکٹیکا پر ہزاروں کی تعداد میں پراسرارنیلگوں جھلیں نمودار ہوچکی ہیں۔ برطانوی ماہرین نے مشرقی انٹارکٹیکا کے لینگہوودی گلیشئر کی 2000سے 2013کے درمیان لی گئی سیکڑوں تصاویر اورموسمیاتی اعداد وشمار کا تفصیلی جائزہ لیا تو انھیں معلوم ہوا کہ اس علاقے میں تقریباً 8ہزار جھیلیں وجود میں آچکی ہیں، مشرقی انٹارکٹیکا کو بطور خاص ماحولیاتی تبدیلیوں سے محفوظ سمجھا جاتا تھا اسی لیے پہلے یہاں کچھ خاص توجہ نہیں دی گئی، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب عالمی تپش کے اثرات مشرقی انٹارکٹیکا پر بھی نمایاں طور پر دیکھے گئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق نئی بننے والی بیشتر جھیلیں اب تک نہ صرف یہ کہ برقرار ہیں بلکہ ان میں وسعت پذیری کا رجحان بھی نمایاں ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انٹارکٹیکا بالعموم اور مشرقی انٹارکٹیکا بالخصوص ماحولیاتی اثرات کا شدت سے شکار ہورہے ہیں۔
دوسری رپورٹ میں ماہرین نے رواں سال آب وہوا میں تبدیلی کے 7 اہم واقعات کی نشاندہی کی ہے۔ پہلا، آرکٹک کے علاقے میں اس سال مئی میں برف کی ریکارڈ کمی نوٹ کی گئی،اس سے قبل 2012میں پہلی مرتبہ اتنی کم برف دیکھی گئی۔
دوسرا، سال 2016کا ہر مہینہ تاریخی لحاظ سے مئی کے مہینے میں بلند ترین درجہ حرارت کا حامل رہا، ناسا نے زمینی درجہ حرارت کو ریکارڈ کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ مئی میں ریکارڈ شدہ اسی ماہ کے تمام مہینوں اور جون میں ریکارڈ شدہ جون کے تمام مہینوں سے زیادہ گرمی پڑی جب کہ فروری ریکارڈ شدہ تاریخ کا گرم ترین مہینہ تھا۔
سوئم، 19مئی بھارت کی تاریخ کا گرم ترین دن تھا، راجستھان کے علاقے فالودی کا درجہ حرارت 51 درجے سینٹی گریڈ تک نوٹ کیا گیا، پورے بھارت میں خشک سالی سے 30کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ چار، آرکٹک کے علاوہ الاسکا کا پارہ بھی بلند ترین سطح پر رہا، اس امریکی ریاست میں موسم بہار کے درجہ حرارت نے بھی نئے ریکارڈ قائم کیے جو صفر درجے سینٹی گریڈ تھا۔ پانچ، عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بننے والی گیس، کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار فضاء میں ہر سال بڑھتی جارہی ہے، یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے، لیکن سال 2016 بھی اس معاملے میں خطرناک رہا اور اس میں ہوشربا اضافہ دیکھا گیا۔
چھ، آسٹریلیا میں گرمی کی شدت کا ایک اور ریکارڈ قائم ہوا اور سب سے گرم موسمِ خزاں کا انکشاف ہوا، اوسط درجہ حرارت ایک اعشایہ 64سینٹی گریڈ تھا۔ سات، آسٹریلیا میں کوئنز لینڈ کے پاس مونگے اور مرجانی چٹانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہورہا ہے، اس سے مرجانی سلسلے کی بلیچنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب صرف 7فیصد مونگے ہی بلیچنگ سے بچ پائے ہیں اور اس طرح ایک بڑا حصہ اپنے اختتام تک پہنچ سکتا ہے۔
مذکورہ دونوں رپورٹس کی روشنی میں دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ دنیا بھر میں موسم جس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ۔اس صورتحال میں مستقل قریب میں کسی تبدیلی یا بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے غیر معمولی اخراج کی وجہ سے کرہ ارض کی بقاء اور سلامتی کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے جارہے ہیں ، جسے اگر روکا نہ گیا تو آیندہ چند ہی عشروں کے اندر اندر دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کی زندگی گرمی کی شدت اور پانی کی کمی کی وجہ سے شدید خطرات سے دوچار ہوجائیں گی۔
ماحولیات پر ایسے منفی اثرات مرتب ہونگے جو انسانی زندگی کو معدومیت کی سرحدوں تک لے جاسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو کرۂ ارض کو تیسری عالمی جنگ سے زیادہ خطرناک صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا اور شاید یہی اس سیارے کی تباہی کا باعث بھی بنے۔ ہوش اڑا دینے والی رپورٹس کے ساتھ ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ ستمبر کے آغاز میں چین کے شہر بانژدا میں جی 20گروپ کے رکن ممالک کے اجلاس میں دنیا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے دونوں بڑے ذمے دار ممالک امریکا اور چین نے عالمی حدت پر قابو پانے کے ''پیرس معاہدے'' کی منظوری دی۔
گزشتہ برس دسمبر میں عالمی رہنماؤں نے پیرس میں 2050ء تک دنیا کے درجہ حرارت میں اوسط اضافے کو دو ڈگری تک محدود کرنیکا معاہدہ کیا تھا۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے اس کشیدہ مذکرات میں تقریباً 200ممالک نے شرکت کی اور ایسے کسی پہلے معاہدے پر اتفاق کیا گیا ہے جس میں تمام ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کرنے پر رضامند ہوئے۔ دو بڑے ممالک کے درمیان جس عالمی ماحولیاتی معاہدے کی توثیق کی گئی ہے اسے اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے ایک نہایت اہم سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔
اب ذرا ایک نظر مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان پر ڈالی جائے تو یہاں موسم اور ماحول دونوں میں خاصے تناؤ اور تلخی کا رجحان دکھائی دے رہا ہے مگر ہمارے ہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے منشور میں ماحول اور موسم کے بارے میں توجہ دیتی نظر نہیں آتی۔ سیلابوں کی تباہ کاریاں گزشتہ کئی سالوں سے ہمارا مقدر بن چکی ہے، ارباب اختیار مسیحائی کا ڈھونگ رچاکر آیندہ مون سون تک لمبی تان کر سوجاتے ہیں۔ یہ تو خدا کا کرم ہوا کہ اس سال مون سون کا موسم بغیر کوئی بڑا نقصان پہنچائے گزر ہی گیا۔
دنیا بھر کے سائنسدان و ماہرین چیخ رہے ہیں کہ کرۂ ارض کو سب سے بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلی سے ہے، دنیا دہائی دے رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونیوالے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ مگر مجال ہے جو کسی کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہو اور بارشوں و سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لیے بروقت اقدامات کیے جاتے ہو۔
ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی پاکستان پر حملے کے منصوبے میں ناکامی کے بعد سندھ طاس معاہدہ ختم کرنیکا عندیہ دے دیا ہے۔ عالمی قوتوں کی آشیرباد سے شہ پاکر بھارت پاکستان کے خلاف نت نئے منصوبے بنارہا ہے، ہمارے حکمرانوں کو بھارت اور عالمی قوتوں کے اس گٹھ جوڑ کے تناظر میں ملکی سلامتی اور پانی کے بحران سے بچنے کے لیے متحرک ہونا چاہیے مگر افسوسناک امر ہے کہ بھارت کے جارحانہ رویہ کو دیکھتے ہوئے بھی ہماری حکومت اور اپوزیشن جماعتیں پانی کے بحران کے مستقل حل کے لیے کسی قومی پالیسی پر متفق نہیں ہورہی ہیں۔
ڈیموں کی تعمیر پر سیاسی تنازعات پیدا کیے جارہے ہیں، بھارت کے ہاتھوں پاکستانی دریاؤں کا پانی بند کرنے کا ہتھیار کسی ایٹمی قوت سے کم نہیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پاکستان کی معیشت اور زراعت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ملکی بقاء و سلامتی کے لیے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرنے کے لیے قومی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔
مودی کی آبی جارحیت ہمارے لیے ایک سنہری موقعے کی حیثیت رکھتی ہے، مودی کی سازشوں سے نمٹنے کے لیے ہماری حکومت اور اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے جو بھی تنازعات ہیں انھیں باہمی صلاح و مشورے سے حل کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے لیے مستقبل میں جنم لینے والے پانی کے ممکنہ بحران سے بخوبی نمٹا جاسکے۔
گلوبل وارمنگ کے حوالے سے سائنس دانوں، ماہرین ارضیات وماحولیات کی اکثریت مسلسل اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہارکرتی رہی ہے اور اس ضمن میں سیکڑوں جائزے رپورٹس اور مقالات پیش کیے جاچکے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ہوش اڑا دینے والی صرف 2 رپورٹوں کا ذکرکیا جارہا ہے۔
پہلی رپورٹ کے مطابق انٹارکٹیکا پر ہزاروں کی تعداد میں پراسرارنیلگوں جھلیں نمودار ہوچکی ہیں۔ برطانوی ماہرین نے مشرقی انٹارکٹیکا کے لینگہوودی گلیشئر کی 2000سے 2013کے درمیان لی گئی سیکڑوں تصاویر اورموسمیاتی اعداد وشمار کا تفصیلی جائزہ لیا تو انھیں معلوم ہوا کہ اس علاقے میں تقریباً 8ہزار جھیلیں وجود میں آچکی ہیں، مشرقی انٹارکٹیکا کو بطور خاص ماحولیاتی تبدیلیوں سے محفوظ سمجھا جاتا تھا اسی لیے پہلے یہاں کچھ خاص توجہ نہیں دی گئی، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب عالمی تپش کے اثرات مشرقی انٹارکٹیکا پر بھی نمایاں طور پر دیکھے گئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق نئی بننے والی بیشتر جھیلیں اب تک نہ صرف یہ کہ برقرار ہیں بلکہ ان میں وسعت پذیری کا رجحان بھی نمایاں ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انٹارکٹیکا بالعموم اور مشرقی انٹارکٹیکا بالخصوص ماحولیاتی اثرات کا شدت سے شکار ہورہے ہیں۔
دوسری رپورٹ میں ماہرین نے رواں سال آب وہوا میں تبدیلی کے 7 اہم واقعات کی نشاندہی کی ہے۔ پہلا، آرکٹک کے علاقے میں اس سال مئی میں برف کی ریکارڈ کمی نوٹ کی گئی،اس سے قبل 2012میں پہلی مرتبہ اتنی کم برف دیکھی گئی۔
دوسرا، سال 2016کا ہر مہینہ تاریخی لحاظ سے مئی کے مہینے میں بلند ترین درجہ حرارت کا حامل رہا، ناسا نے زمینی درجہ حرارت کو ریکارڈ کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ مئی میں ریکارڈ شدہ اسی ماہ کے تمام مہینوں اور جون میں ریکارڈ شدہ جون کے تمام مہینوں سے زیادہ گرمی پڑی جب کہ فروری ریکارڈ شدہ تاریخ کا گرم ترین مہینہ تھا۔
سوئم، 19مئی بھارت کی تاریخ کا گرم ترین دن تھا، راجستھان کے علاقے فالودی کا درجہ حرارت 51 درجے سینٹی گریڈ تک نوٹ کیا گیا، پورے بھارت میں خشک سالی سے 30کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ چار، آرکٹک کے علاوہ الاسکا کا پارہ بھی بلند ترین سطح پر رہا، اس امریکی ریاست میں موسم بہار کے درجہ حرارت نے بھی نئے ریکارڈ قائم کیے جو صفر درجے سینٹی گریڈ تھا۔ پانچ، عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بننے والی گیس، کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار فضاء میں ہر سال بڑھتی جارہی ہے، یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے، لیکن سال 2016 بھی اس معاملے میں خطرناک رہا اور اس میں ہوشربا اضافہ دیکھا گیا۔
چھ، آسٹریلیا میں گرمی کی شدت کا ایک اور ریکارڈ قائم ہوا اور سب سے گرم موسمِ خزاں کا انکشاف ہوا، اوسط درجہ حرارت ایک اعشایہ 64سینٹی گریڈ تھا۔ سات، آسٹریلیا میں کوئنز لینڈ کے پاس مونگے اور مرجانی چٹانوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہورہا ہے، اس سے مرجانی سلسلے کی بلیچنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب صرف 7فیصد مونگے ہی بلیچنگ سے بچ پائے ہیں اور اس طرح ایک بڑا حصہ اپنے اختتام تک پہنچ سکتا ہے۔
مذکورہ دونوں رپورٹس کی روشنی میں دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ دنیا بھر میں موسم جس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ۔اس صورتحال میں مستقل قریب میں کسی تبدیلی یا بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے غیر معمولی اخراج کی وجہ سے کرہ ارض کی بقاء اور سلامتی کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے جارہے ہیں ، جسے اگر روکا نہ گیا تو آیندہ چند ہی عشروں کے اندر اندر دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کی زندگی گرمی کی شدت اور پانی کی کمی کی وجہ سے شدید خطرات سے دوچار ہوجائیں گی۔
ماحولیات پر ایسے منفی اثرات مرتب ہونگے جو انسانی زندگی کو معدومیت کی سرحدوں تک لے جاسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو کرۂ ارض کو تیسری عالمی جنگ سے زیادہ خطرناک صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا اور شاید یہی اس سیارے کی تباہی کا باعث بھی بنے۔ ہوش اڑا دینے والی رپورٹس کے ساتھ ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ ستمبر کے آغاز میں چین کے شہر بانژدا میں جی 20گروپ کے رکن ممالک کے اجلاس میں دنیا میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے دونوں بڑے ذمے دار ممالک امریکا اور چین نے عالمی حدت پر قابو پانے کے ''پیرس معاہدے'' کی منظوری دی۔
گزشتہ برس دسمبر میں عالمی رہنماؤں نے پیرس میں 2050ء تک دنیا کے درجہ حرارت میں اوسط اضافے کو دو ڈگری تک محدود کرنیکا معاہدہ کیا تھا۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے اس کشیدہ مذکرات میں تقریباً 200ممالک نے شرکت کی اور ایسے کسی پہلے معاہدے پر اتفاق کیا گیا ہے جس میں تمام ممالک کاربن کے اخراج میں کمی کرنے پر رضامند ہوئے۔ دو بڑے ممالک کے درمیان جس عالمی ماحولیاتی معاہدے کی توثیق کی گئی ہے اسے اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے ایک نہایت اہم سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔
اب ذرا ایک نظر مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان پر ڈالی جائے تو یہاں موسم اور ماحول دونوں میں خاصے تناؤ اور تلخی کا رجحان دکھائی دے رہا ہے مگر ہمارے ہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے منشور میں ماحول اور موسم کے بارے میں توجہ دیتی نظر نہیں آتی۔ سیلابوں کی تباہ کاریاں گزشتہ کئی سالوں سے ہمارا مقدر بن چکی ہے، ارباب اختیار مسیحائی کا ڈھونگ رچاکر آیندہ مون سون تک لمبی تان کر سوجاتے ہیں۔ یہ تو خدا کا کرم ہوا کہ اس سال مون سون کا موسم بغیر کوئی بڑا نقصان پہنچائے گزر ہی گیا۔
دنیا بھر کے سائنسدان و ماہرین چیخ رہے ہیں کہ کرۂ ارض کو سب سے بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلی سے ہے، دنیا دہائی دے رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونیوالے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ مگر مجال ہے جو کسی کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہو اور بارشوں و سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لیے بروقت اقدامات کیے جاتے ہو۔
ہمارے ازلی دشمن بھارت نے بھی پاکستان پر حملے کے منصوبے میں ناکامی کے بعد سندھ طاس معاہدہ ختم کرنیکا عندیہ دے دیا ہے۔ عالمی قوتوں کی آشیرباد سے شہ پاکر بھارت پاکستان کے خلاف نت نئے منصوبے بنارہا ہے، ہمارے حکمرانوں کو بھارت اور عالمی قوتوں کے اس گٹھ جوڑ کے تناظر میں ملکی سلامتی اور پانی کے بحران سے بچنے کے لیے متحرک ہونا چاہیے مگر افسوسناک امر ہے کہ بھارت کے جارحانہ رویہ کو دیکھتے ہوئے بھی ہماری حکومت اور اپوزیشن جماعتیں پانی کے بحران کے مستقل حل کے لیے کسی قومی پالیسی پر متفق نہیں ہورہی ہیں۔
ڈیموں کی تعمیر پر سیاسی تنازعات پیدا کیے جارہے ہیں، بھارت کے ہاتھوں پاکستانی دریاؤں کا پانی بند کرنے کا ہتھیار کسی ایٹمی قوت سے کم نہیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پاکستان کی معیشت اور زراعت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ملکی بقاء و سلامتی کے لیے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرنے کے لیے قومی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔
مودی کی آبی جارحیت ہمارے لیے ایک سنہری موقعے کی حیثیت رکھتی ہے، مودی کی سازشوں سے نمٹنے کے لیے ہماری حکومت اور اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے جو بھی تنازعات ہیں انھیں باہمی صلاح و مشورے سے حل کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے لیے مستقبل میں جنم لینے والے پانی کے ممکنہ بحران سے بخوبی نمٹا جاسکے۔