شہریوں کی گمشدگی ذمے داران کیخلاف کارروائی کی جائے سندھ ہائیکورٹ
درخواست گزار کے مطابق یہ حراست غیر آئینی اورغیر قانونی ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس مشیرعالم اورجسٹس شفیع صدیقی پرمشتمل دو رکنی بینچ نے 2 شہریوں کے لاپتہ ہونے پر پولیس کو ذمے داران کے خلاف قانونی کارروائی کی ہدایت کی ہے اور ڈائریکٹر جنرل رینجرز، ہوم سیکریٹری و آئی جی سندھ کوبھی جواب داخل کرنیکا حکم دیا ہے۔
فاضل بینچ نے یہ حکم درخواست گزار نور سید کی آئینی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیا، درخواست گزار نے ہوم سیکریٹری سندھ،ڈائریکٹر جنرل رینجرز ،آئی جی سندھ ، رینجرز کے کرنل پرویز اور ایس ایچ او گلشن معمار کوفریق بناتے ہوے موقف اختیارکیا ہے کہ اس کا بیٹا نوراللہ اور بھتیجا خالد محمود یکم دسمبر کو رینجرز کے کرنل پرویز کے بلانے پر ان کے گھر گئے تھے انھیں گلشن معمار میں پلمبرنگ کے کام کے لیے بلایاگیاتھا تاہم وہ واپس نہیں آئے ۔
درخواست گزار کے مطابق اس نے اپنے بچوں کی تلاش کیلیے رینجرز اور پولیس سے رابطہ کیا تاہم اسے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی لیکن3دسمبر کواسے بلایا گیا اور ان کی رہائی کیلیے 5لاکھ روپے رشوت طلب کی گئی اور رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں انھیں سنگین جرائم میں ملوث کرنے کی دھمکی دی گئی، درخواست گزار نے پولیس اسٹیشن گلشن معمارسے اپنے بچوں کوغیر قانونی حراست میں رکھنے کے الزام میں مذکورہ افسر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بھی درخواست کی لیکن پولیس نے رینجرز کے افسر کیخلاف مقدمہ درج کرنے سے انکارکردیا۔
درخواست گزار کے مطابق یہ حراست غیر آئینی اورغیر قانونی ہے، قانون ہر شہری کی آزادی یقینی بناتا ہے اوریہ ہر شہری کا حق ہے کہ اگر اس کے خلاف کوئی شکایت ہے تو اسے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے، اس درخواست کی سماعت جب 7دسمبر کو ہوئی تو فاضل بینچ نے کرنل پرویز کو شہریوں کی موجودگی کے بارے میں حلفیہ بیان داخل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انھوںنے حلفیہ بیان داخل نہیں کیا اور نہ ہی آج (منگل کو) رینجرز کی جانب سے کوئی وکیل پیش ہوا، فاضل بینچ نے اس صورتحال میں اے آئی جی لیگل علی شیرجھکرانی کو ہدایت کی کہ وہ لاپتہ شہریوں کی بازیابی کے لیے ضروری قانونی امداد فراہم کریں۔
علی شیرجھکرانی نے یقین دہانی کرائی کہ درخواست گزار متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رجوع کرے،پولیس اس کے رشتے داروں کی گمشدگی کے متعلق مقدمہ درج کرکے قانون کے مطابق تفتیش کریگی، علاوہ ازیں منگل کو ہی سی آئی ڈی نے اسلحہ ایکٹ اور دستی بم رکھنے کے الزام میں گرفتار نور اﷲ عرف حمزہ اور خالد محمود عرف صابر کو جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ غربی محمد افضل روشن کے روبرو پیش کیا۔
اس موقع پر ملزمان نے انکشاف کیا وہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھی اور حقانی نیٹ ورک سے ان کا تعلق ہے، ان کا کراچی میں منگھوپیر میں اصل ٹھکانا ہے افغانسان میں بھی کارروائی کرچکے ہیں خالد محمد نے بتایا کہ افغانستان کارروائی کے دوران اس کی ٹانگ بھی کٹ چکی ہے، اس موقع پر پولیس نے مزید تفتیش کیلیے 10 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی تاہم فاضل عدالت نے16دسمبر تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیدیا۔
فاضل بینچ نے یہ حکم درخواست گزار نور سید کی آئینی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیا، درخواست گزار نے ہوم سیکریٹری سندھ،ڈائریکٹر جنرل رینجرز ،آئی جی سندھ ، رینجرز کے کرنل پرویز اور ایس ایچ او گلشن معمار کوفریق بناتے ہوے موقف اختیارکیا ہے کہ اس کا بیٹا نوراللہ اور بھتیجا خالد محمود یکم دسمبر کو رینجرز کے کرنل پرویز کے بلانے پر ان کے گھر گئے تھے انھیں گلشن معمار میں پلمبرنگ کے کام کے لیے بلایاگیاتھا تاہم وہ واپس نہیں آئے ۔
درخواست گزار کے مطابق اس نے اپنے بچوں کی تلاش کیلیے رینجرز اور پولیس سے رابطہ کیا تاہم اسے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی لیکن3دسمبر کواسے بلایا گیا اور ان کی رہائی کیلیے 5لاکھ روپے رشوت طلب کی گئی اور رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں انھیں سنگین جرائم میں ملوث کرنے کی دھمکی دی گئی، درخواست گزار نے پولیس اسٹیشن گلشن معمارسے اپنے بچوں کوغیر قانونی حراست میں رکھنے کے الزام میں مذکورہ افسر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بھی درخواست کی لیکن پولیس نے رینجرز کے افسر کیخلاف مقدمہ درج کرنے سے انکارکردیا۔
درخواست گزار کے مطابق یہ حراست غیر آئینی اورغیر قانونی ہے، قانون ہر شہری کی آزادی یقینی بناتا ہے اوریہ ہر شہری کا حق ہے کہ اگر اس کے خلاف کوئی شکایت ہے تو اسے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے، اس درخواست کی سماعت جب 7دسمبر کو ہوئی تو فاضل بینچ نے کرنل پرویز کو شہریوں کی موجودگی کے بارے میں حلفیہ بیان داخل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انھوںنے حلفیہ بیان داخل نہیں کیا اور نہ ہی آج (منگل کو) رینجرز کی جانب سے کوئی وکیل پیش ہوا، فاضل بینچ نے اس صورتحال میں اے آئی جی لیگل علی شیرجھکرانی کو ہدایت کی کہ وہ لاپتہ شہریوں کی بازیابی کے لیے ضروری قانونی امداد فراہم کریں۔
علی شیرجھکرانی نے یقین دہانی کرائی کہ درخواست گزار متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رجوع کرے،پولیس اس کے رشتے داروں کی گمشدگی کے متعلق مقدمہ درج کرکے قانون کے مطابق تفتیش کریگی، علاوہ ازیں منگل کو ہی سی آئی ڈی نے اسلحہ ایکٹ اور دستی بم رکھنے کے الزام میں گرفتار نور اﷲ عرف حمزہ اور خالد محمود عرف صابر کو جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ غربی محمد افضل روشن کے روبرو پیش کیا۔
اس موقع پر ملزمان نے انکشاف کیا وہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھی اور حقانی نیٹ ورک سے ان کا تعلق ہے، ان کا کراچی میں منگھوپیر میں اصل ٹھکانا ہے افغانسان میں بھی کارروائی کرچکے ہیں خالد محمد نے بتایا کہ افغانستان کارروائی کے دوران اس کی ٹانگ بھی کٹ چکی ہے، اس موقع پر پولیس نے مزید تفتیش کیلیے 10 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی تاہم فاضل عدالت نے16دسمبر تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیدیا۔