ذرا سوچیے تو سہی
وہ آوازیں اب خاک کی چادر اوڑھ چکیں لیکن ان کا لحن آج بھی دل گیر ہوتا ہے اور گلوگیر کرتا ہے
لاہور:
نوعمری کے زمانے میں قدم رکھتے ہوئے تاریخ سے گہری وابستگی تھی لیکن جغرافیائی معلومات اتنی 'اعلیٰ' تھیں کہ شام، دمشق، عراق، بغدا د اور قاہرہ گھر کے آس پاس کے یا 100 دو سو گز دور کے محلے لگتے۔ ہر وقت ان شہروں کا ذکر ہوتا اور جب محرم کی ابتدائی تاریخوں میں شہادت نامہ پڑھا اور سنا جاتا تو اس کے واقعات سے جڑے ہوئے ہونے کے باوجود بادام اور پستے کی ہوائی والے برف کے ٹھنڈے شربت میں دلچسپی زیادہ ہوتی۔ شکیلہ اور خورشید آپا کی پُر سوز آوازیں دیوار و در پر ماتم کرتیں۔ نوجواں کو صف اول سے اٹھا لائے حسین ؑ، چاند کو شام کے بادل سے اٹھا لائے حسینؑ۔
وہ آوازیں اب خاک کی چادر اوڑھ چکیں لیکن ان کا لحن آج بھی دل گیر ہوتا ہے اور گلوگیر کرتا ہے۔ جغرافیہ اب ازبر ہے۔ کراچی سے نکلو، کرمان، شیراز، قُم اور قزوین سے ہوئے ہوئے نجف، بغداد، حمص، الپو اور دمشق جا پہنچو۔ شام پر، الپو اور دمشق پر جوکچھ گزری اور گزر رہی ہے، اسے کس طور دیکھا، سنا اور برداشت کیا جائے۔
مارچ 2012ء میں لکھا ہوا ایک کالم 'دمشق کا دربار' یاد آتا ہے۔ ہمارے ایک کالم نگار کرس کورک جن کی کئی شامیوں سے دوستی اور خط و کتابت تھی، کرسمس اور نئے سال پر ایک دوسرے کو تہنیتی کارڈ بھیجے جاتے اور خط لکھے جاتے تھے، چند دنوں پہلے انھوں نے لکھا ہے کہ میرا آخری شامی دوست ایک بڑے اسپتال میں اردلی تھا اور جان پر کھیل کر اپنے فرائض انجام دیتا تھا، وہ بھی اسپتال پر ہونے والی بمباری میں مارا گیا ہے اور اس کے کسی دوست نے کرس کورک کو ای میل سے اطلاع دی ہے کہ اس کا دوست بارود کے پروں پر بیٹھ کر رخصت ہوا۔
ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کا ایک سیلاب ہے جو شامی شہریوں کو اور بہ طور خاص بچوں کو تیزی سے بہائے لیے جا رہا ہے۔ جنگ اور خانہ جنگی کی چوبائی چل رہی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون کس پر حملہ آور ہے اور کون حملے کا نشانہ بن رہا ہے۔ اس جنگ کا المناک پہلو یہ ہے کہ شامی مار رہے ہیں اور شامی مر رہے ہیں۔
بشار الاسد کی حکومت باغی شامیوں کو کچلنے میں مصروف ہے۔ ان کے شہروں پر بمباری ہو رہی ہے اور بمباری بھی ایسی کہ جسے کارپٹ بامبنگ کہتے ہیں۔ اس میں شہر اور آبادیاں فرش کی طرح زمین پر بچھا دی جاتی ہیں۔ آٹھ دس منزلہ کنکریٹ کی عمارتوں کے اندر سے مجروح بچے اور بڑے کس طرح نکالے جائیں؟ ان مسمار شدہ عمارتوں کے کھنڈر دیکھیے، ان کی تصویریں دیکھیے تو دل لرز جاتا ہے۔ وہ باپ ہیں جو اپنی سیاسی اور مذہبی وفاداریوں کے سبب کسی تہ خانے یا گھر کے کسی بچ رہنے والے کمرے میں بیٹھ کر بم بناتے ہیں اور ان بموں کی تیاری میں اپنے بچوں کو شریک کرتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو خطرات سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حمص میں، الپو میں ایسے باپ بھی ہیں جو اپنی آٹھ اور نو برس کی بچیوں کو بم بنانے کی تربیت دیتے ہیں۔ ایک طرف یہ ناقابل یقین معاملہ ہے، دوسری طرف سرکاری فوجیں اپنے ہی شہری بچوں کو انسانی ڈھال بنا لیتی ہیں۔ باغیوں کے علاقے میں پیش قدمی سے پہلے یہ آٹھ نو اور دس برس کی بچیاں اور بچے آگے رکھے جاتے ہیں تا کہ تربیت یافتہ فوجی کسی بارودی سرنگ یا چھپائے ہوئے بم کا نشانہ ، نہ بنیں۔ یہ بچے جن میں سے اکثر کے ماں باپ جنگ کا نوالہ بن چکے، وہ ایک ایسی صورت حال کا شکار ہیں جن کا اب سے کچھ دنوں پہلے انھوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
وہ اپنے گھروں میں رہتے تھے، ماؤں اور بڑی بہنوں کے ہاتھ سے نوالے کھاتے تھے، اسکول جاتے اور باغوں میں کھیلتے۔ وہ تنور میں سنکی ہوئی تازہ روٹی کا ذائقہ جانتے تھے، لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ خانہ جنگی کیا ہوتی ہے۔ کب محلے اور شہر ایک دوسرے کے دشمن جانی ہو جاتے ہیں۔ اب وہ بے گھری اور در بہ دری سے دو چار ہیں۔
وہ ذلت اور زبوں حالی کا ذائقہ چکھتے ہیں۔ خاکستری بھوک، ان کی انتڑیاں کترتی ہے اور محبت کی نرمی اور گرمی کو وہ بھلا چکے ہیں۔ دس اور گیارہ برس کی یہ بچیاں اور بچے جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ انھیں ناکافی اور ناقص غذا دی جاتی ہے اور حکم عدولی پر انھیں بے رحمی سے زدو کوب کیا جاتا ہے، بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں اور ہر قدم پر ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ان کے ساتھ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ شام کی محصور آبادیوں میں رہنے والے باغیوں کے بچے ہیں۔
اکتوبر کا مہینہ آغاز ہوا تو بشار الاسد اور ان کی حامی روسی حکومت کو اطلاع ملی کہ شام کے القاعدہ کا ایک اہم لیڈر احمد سلامہ مبروک عدلب کے علاقے میں مارا گیا ہے۔ مبروک جسے مصری ابو فراج کے نام سے جانتے ہیں اور جس کے خلاف شامی حکومت، روسی افواج اور امریکی سب ہی گھات لگائے ہوئے تھے۔ اسے امریکیوں نے ہلاک کیا اور اس ہلاکت کا اقرار بھی کیا۔ مبروک یا ابوالفراج کی ہلاکت کے لیے کتنے بے گناہ شہری، عورتیں اور بچے ہلاک کر دیے گئے، اس کی کسی کو پروا نہیں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں افراد اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچا کر فرار ہو رہے ہیں اور یورپ پہنچ رہے ہیں۔
ان کی غول در غول آمد جہاں مغربی حکومتوں کو پریشان کر رہی ہے اور وہ ان کے لیے پناہ گزین کیمپ قائم کرنے اور بنیادی انسانی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، وہیں کچھ آبادیاں ایسی بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ یہ پناہ گزیں ان کے یہاں آبادی کا تناسب بدل دیں گے اور ان کے ملک بہت سی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔
شام کے محصور علاقوں پر بمباری روسیوں، امریکیوں اور شامی صدر کے حامی فوجیوں سب ہی نے کی ہے اور الپو کے علاقے کے سب سے بڑے اسپتال کو زمیں بوس کرنے کی ذمے داری کسی ایک فریق نے قبول نہیں کی۔ جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کوشش (یہ سطریں شائع ہونے تک) ابھی کامیاب نہیں ہوئی۔
فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ناقابل یقین بات ہے کہ شامی صدر بشارالاسد اُلپو پر شدید بمباری اور زمینی حملے کے ذریعے اپنے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔
صحافی اور فوٹوگرافر شامی حکومت کا خاص نشانہ ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں کے قلم اور کیمرے ظالم کے خلاف نہایت کاری ہتھیار ہیں۔ ان کی بھیجی ہوئی خبریں اور تصویریں آن کی آن میں ساری دنیا تک پہنچ جاتی ہیں اور شام کے تباہ شدہ شہروں اور مقتول بچوں سے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے لوگ دہشت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک فوٹو گرافر نورالدین ہاشم تصویریں کھینچنے کے جرم میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس کی عمر ابھی محض 21 برس تھی۔ اس نے دنیا میں ابھی کچھ نہیں دیکھا تھا لیکن اس نے دنیا میں انسانوں پر ہونے والے جنگی جرائم کو تصویروں کے ذریعے جس بہادری سے دنیا تک پہنچایا، اسے اس عظیم قربانی پر کن لفظوں میں داد دی جائے۔
2011ء سے 2016ء کے دوران نو عمر شامی لڑکیاں اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں بے حرمت ہو رہی ہیں۔ ان پر بھیانک جنسی تشدد ہو رہا ہے اور یہ سب کچھ کرنے والے ان کے اپنے ہیں۔ ایک ہی ملک کے رہنے والے، ایک ہی سرزمین پر سانس لینے والے اور ایک ہی کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں یہ کون سی مسلم اُمہ ہے؟ یہ کون سا ایمانی رشتہ ہے؟
محرم کے دن ہیں، ان دنوں میں یاد کیجیے کہ حسین ؑ اور ان کے ساتھی جن اشقیا کی سفاکی کا شکار ہوئے، وہ بھی مسلمان تھے، وہ بھی کلمہ گو تھے۔ حسین ؑ اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کو گھوڑوں کے سموں سے جنھوں نے روندا وہ بھی کلمہ گو تھے اور دمشق کے دربار کو سرِ حسین ؑ کسی اور نے نہیں کلمہ گو افراد نے بھیجا تھا۔ کل اور آج کی تاریخ میں کیا واقعی کوئی بنیادی فرق ہے؟ ذرا سوچیے تو سہی!