معافی کے کھلے دروازے
ایسے انسانوں کی کمی نہیں جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان دعاؤں کے حقدار بنتے ہیں
میرے سامنے آج یعنی 8 اکتوبر کے اخبارات کھلے ہیں جن میں ایک بزرگ کے جنازے کی تصویر شائع ہوئی ہے جس میں ہزارہا لوگ شامل ہیں۔ یہ علامہ شاہ تراب الحق قادری کے جنازے کی تصویر ہے۔ اس سے مجھے تاریخ کا ایک واقعہ یاد آیا جو حضرت امام احمد بن حنبل کے بارے میں ہے۔
قادری صاحب کے ساتھ بھی بعض لوگوں کا شاید اختلاف رہا ہو گا لیکن امام حنبل کے مخالفوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو بعد میں امام کے نام پر حنبلی بھی کہلائے اور یہ فقہ کا ایک باقاعدہ گروہ بن گیا جو تاریخ میں حنبلی کے نام پر معروف ہے۔ حضرت امام کے نظریاتی مخالفین کی بھی ایک بڑی تعداد تھی اور اختلافات بعض اوقات اس حد تک بڑھ جاتے تھے کہ امام کو یہ کہنا پڑا کہ ہمارے نظریات کی صداقت کی گواہی ہمارے جنازے دیں گے۔
حضرت امام کا یہ جملہ یوں بھی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا کہ جب امام کا انتقال ہوا تو شہر بغداد بند ہو گیا اور ہر شخص جنازے میں شریک تھا۔ امام احمد کی زندگی میں تو ان کے مخالفین کی تعداد کم نہ ہو سکی لیکن ان کے انتقال پر جب پورا شہر بغداد ان کے جنازے میں شریک ہوا تو امام کی یہ بات سچ نکلی کہ ان کے نظریات کی صداقت کی گواہی ان کے جنازے دیں گے۔ تاریخ میں بعض دوسرے ایسے مواقع بھی آئے کہ جنازوں نے کسی کی صداقت کی شہادت دی۔
آج کی زبان میں یوں کہیں کہ کسی اختلافی شخصیت کے جنازے میں ان کے نظریات پر ریفرنڈم ہوا اور عوام نے ان کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کر دی جو مکمل آزاد اور کسی بھی دباؤ سے محفوظ تھی۔ ایسی تاریخی شخصیتیں زیادہ نہیں گزریں کہ دنیا نے ان کے انتقال پر یا ان کی زندگی میں ان کی کسی ابتلاء میں ان کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کر دی جو مکمل آزاد اور منصفانہ تھی۔
ہماری تاریخ کے بڑے لوگ ہمیشہ اختلافات کے شکار رہے اور ایک زمانہ ان سے برملا اختلاف کرتا رہا لیکن یہی لوگ جب کسی حکومتی جبر کے شکار ہو گئے تو دنیا نے کچھ نئے نظارے دیکھے۔ تاریخ میں بڑی مثال یہی امام احمد بن حنبل کی ہے جو حکمرانوں کے معتوب تھے ویسے امام ابو حنیفہ بھی حکومت نے جیل میں ڈال دیے تھے جہاں قید میں ان کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنی وفات کے بعد بھی تاریخ بنا گئے۔ حضرت امام کی طرح کتنے ہی علماء اور مجاہد تھے جو قید میں بند رہے لیکن انھوں نے اپنے نظریات پر مصالحت نہ کی اور اسی حالت میں وفات پا گئے۔
میں نے آج کے اخبارات میں علامہ شاہ تراب الحق قادری کی نماز جنازہ کی تصویر دیکھی جو اپنی تعداد کے لحاظ سے حیران کن تھی۔ اتنی تعداد میں لوگوں کی دعائے مغفرت رائیگاں نہیں جا سکتی بلکہ ایک روایت کے مطابق تو چالیس مسلمان بھی کسی کے جنازے میں صدق دل سے شریک ہوں تو مرحوم کی مغفرت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
انسانوں کی مغفرت ایک ایسا مسئلہ اور معاملہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ اس کے بہانے تلاش کرتا ہے اور چند مسلمانوں کی سفارش پر کسی کی عمر بھر کی غلطیاں اور گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ ایسے ارشادات ملتے ہیں اور بڑی تعداد میں کہ کسی کی مغفرت کے لیے چند مسلمانوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔ یہ نماز جنازہ بھی ایک دعا ہے جو کسی مرحوم کی مغفرت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ بس ایک بات اپنی جگہ پر کہ مغفرت کی دعا میں کتنا اخلاص ہے اور دعا مانگنے والے میں کتنی طلب ہے۔
تاریخ میں ایسے واقعات کے حوالے بھی ملتے ہیں کہ کسی کے جنازے میں کوئی ایسا فرد بھی شریک ہوا کہ جس نے جنازے کی نماز کے بعد مرحوم کی مغفرت کی نشاندہی کر دی۔ بلاشبہ ایسے انسانوں کی کمی نہیں جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان دعاؤں کے حقدار بنتے ہیں۔ ہم مسلمان دیکھتے ہیں کہ کسی کے انتقال کے بعد کتنے ہی ایسے موقع ہوتے ہیں جو کسی مرحوم کے لیے نعمت بن سکتے ہیں۔ جنازے سے لے کر بعد کے ایسے اجتماعات تک جو کسی کی مغفرت کے لیے منعقد ہوتے ہیں۔
یہ سب کسی مرحوم کے لیے ایک تحفہ ہیں جو ان کے پسماندگان کی طرف سے ان کو ملتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گیا وہ تو گیا اب اللہ تعالیٰ جانیں یا اس کے حضور میں حاضر ہونے والا۔ لیکن ہم لوگ جو پسماندگان کہلاتے ہیں ہمارے لیے لازم ہے کہ مرحوم کے لیے اس جذبے اور خلوص کے ساتھ دعا کریں کہ جیسے اس کی جگہ وہ خود ہیں۔ ہماری تاریخ مغفرت کی تاریخ ہے اور کسی بھی نیک انسان کی مغفرت کے بہانے تلاش کرتی ہے۔
ہماری فقہ اور معرفت و سلوک کی کتابوں کے کتنے ہی حوالے ہیں جو ہماری دعاؤں کی تائید کرتے ہیں اور اللہ تبارک تعالیٰ کے بارے میں ہمارے صوفیا نے ایسے کتنے ہی واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی مغفرت کر دی صرف ایسے گناہ درج ہیں جن کی معافی ممکن نہیں مثلاً کسی مسلمان کا قتل ایک ناقابل معافی جرم ہے جو کسی صورت میں معاف نہیں ہو سکتا ورنہ کتنے ہی گناہ ہیں جو بقول ایک بزرگ کے ہر وقت معافی کے لیے چشم براہ رہتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ کوئی ان کے معافی کی درخواست کرے گا اور مراد پائے گا۔ بات صرف اتنی ہے کہ کوئی گناہ شوقیہ نہ کیا جائے اور کسی کی معافی دل کی گہرائیوں سے مانگی جائے۔ معافی اور مغفرت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت ہے۔
قادری صاحب کے ساتھ بھی بعض لوگوں کا شاید اختلاف رہا ہو گا لیکن امام حنبل کے مخالفوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو بعد میں امام کے نام پر حنبلی بھی کہلائے اور یہ فقہ کا ایک باقاعدہ گروہ بن گیا جو تاریخ میں حنبلی کے نام پر معروف ہے۔ حضرت امام کے نظریاتی مخالفین کی بھی ایک بڑی تعداد تھی اور اختلافات بعض اوقات اس حد تک بڑھ جاتے تھے کہ امام کو یہ کہنا پڑا کہ ہمارے نظریات کی صداقت کی گواہی ہمارے جنازے دیں گے۔
حضرت امام کا یہ جملہ یوں بھی تاریخ کا ایک حصہ بن گیا کہ جب امام کا انتقال ہوا تو شہر بغداد بند ہو گیا اور ہر شخص جنازے میں شریک تھا۔ امام احمد کی زندگی میں تو ان کے مخالفین کی تعداد کم نہ ہو سکی لیکن ان کے انتقال پر جب پورا شہر بغداد ان کے جنازے میں شریک ہوا تو امام کی یہ بات سچ نکلی کہ ان کے نظریات کی صداقت کی گواہی ان کے جنازے دیں گے۔ تاریخ میں بعض دوسرے ایسے مواقع بھی آئے کہ جنازوں نے کسی کی صداقت کی شہادت دی۔
آج کی زبان میں یوں کہیں کہ کسی اختلافی شخصیت کے جنازے میں ان کے نظریات پر ریفرنڈم ہوا اور عوام نے ان کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کر دی جو مکمل آزاد اور کسی بھی دباؤ سے محفوظ تھی۔ ایسی تاریخی شخصیتیں زیادہ نہیں گزریں کہ دنیا نے ان کے انتقال پر یا ان کی زندگی میں ان کی کسی ابتلاء میں ان کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کر دی جو مکمل آزاد اور منصفانہ تھی۔
ہماری تاریخ کے بڑے لوگ ہمیشہ اختلافات کے شکار رہے اور ایک زمانہ ان سے برملا اختلاف کرتا رہا لیکن یہی لوگ جب کسی حکومتی جبر کے شکار ہو گئے تو دنیا نے کچھ نئے نظارے دیکھے۔ تاریخ میں بڑی مثال یہی امام احمد بن حنبل کی ہے جو حکمرانوں کے معتوب تھے ویسے امام ابو حنیفہ بھی حکومت نے جیل میں ڈال دیے تھے جہاں قید میں ان کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنی وفات کے بعد بھی تاریخ بنا گئے۔ حضرت امام کی طرح کتنے ہی علماء اور مجاہد تھے جو قید میں بند رہے لیکن انھوں نے اپنے نظریات پر مصالحت نہ کی اور اسی حالت میں وفات پا گئے۔
میں نے آج کے اخبارات میں علامہ شاہ تراب الحق قادری کی نماز جنازہ کی تصویر دیکھی جو اپنی تعداد کے لحاظ سے حیران کن تھی۔ اتنی تعداد میں لوگوں کی دعائے مغفرت رائیگاں نہیں جا سکتی بلکہ ایک روایت کے مطابق تو چالیس مسلمان بھی کسی کے جنازے میں صدق دل سے شریک ہوں تو مرحوم کی مغفرت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
انسانوں کی مغفرت ایک ایسا مسئلہ اور معاملہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ اس کے بہانے تلاش کرتا ہے اور چند مسلمانوں کی سفارش پر کسی کی عمر بھر کی غلطیاں اور گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ ایسے ارشادات ملتے ہیں اور بڑی تعداد میں کہ کسی کی مغفرت کے لیے چند مسلمانوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔ یہ نماز جنازہ بھی ایک دعا ہے جو کسی مرحوم کی مغفرت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ بس ایک بات اپنی جگہ پر کہ مغفرت کی دعا میں کتنا اخلاص ہے اور دعا مانگنے والے میں کتنی طلب ہے۔
تاریخ میں ایسے واقعات کے حوالے بھی ملتے ہیں کہ کسی کے جنازے میں کوئی ایسا فرد بھی شریک ہوا کہ جس نے جنازے کی نماز کے بعد مرحوم کی مغفرت کی نشاندہی کر دی۔ بلاشبہ ایسے انسانوں کی کمی نہیں جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان دعاؤں کے حقدار بنتے ہیں۔ ہم مسلمان دیکھتے ہیں کہ کسی کے انتقال کے بعد کتنے ہی ایسے موقع ہوتے ہیں جو کسی مرحوم کے لیے نعمت بن سکتے ہیں۔ جنازے سے لے کر بعد کے ایسے اجتماعات تک جو کسی کی مغفرت کے لیے منعقد ہوتے ہیں۔
یہ سب کسی مرحوم کے لیے ایک تحفہ ہیں جو ان کے پسماندگان کی طرف سے ان کو ملتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گیا وہ تو گیا اب اللہ تعالیٰ جانیں یا اس کے حضور میں حاضر ہونے والا۔ لیکن ہم لوگ جو پسماندگان کہلاتے ہیں ہمارے لیے لازم ہے کہ مرحوم کے لیے اس جذبے اور خلوص کے ساتھ دعا کریں کہ جیسے اس کی جگہ وہ خود ہیں۔ ہماری تاریخ مغفرت کی تاریخ ہے اور کسی بھی نیک انسان کی مغفرت کے بہانے تلاش کرتی ہے۔
ہماری فقہ اور معرفت و سلوک کی کتابوں کے کتنے ہی حوالے ہیں جو ہماری دعاؤں کی تائید کرتے ہیں اور اللہ تبارک تعالیٰ کے بارے میں ہمارے صوفیا نے ایسے کتنے ہی واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی مغفرت کر دی صرف ایسے گناہ درج ہیں جن کی معافی ممکن نہیں مثلاً کسی مسلمان کا قتل ایک ناقابل معافی جرم ہے جو کسی صورت میں معاف نہیں ہو سکتا ورنہ کتنے ہی گناہ ہیں جو بقول ایک بزرگ کے ہر وقت معافی کے لیے چشم براہ رہتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ کوئی ان کے معافی کی درخواست کرے گا اور مراد پائے گا۔ بات صرف اتنی ہے کہ کوئی گناہ شوقیہ نہ کیا جائے اور کسی کی معافی دل کی گہرائیوں سے مانگی جائے۔ معافی اور مغفرت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت ہے۔