گھر تو آخر اپنا ہے…

میں اپنے بیٹے کو اسکول سے لینے کے لیے گئی تو اس کی ٹیچر اس کے ہمراہ کھڑی تھی


Shirin Hyder October 08, 2016
[email protected]

میں اپنے بیٹے کو اسکول سے لینے کے لیے گئی تو اس کی ٹیچر اس کے ہمراہ کھڑی تھی، میرے بیٹے کے ہاتھ میں آلو کے مسالہ دار چپس کا پیکٹ تھا، میں نے حیرت سے دیکھا کہ وہ چپس کا پیکٹ کہاں سے اس کے پاس آیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ میں اسے ایسی چیزیں خود خرید کر نہیں دیتی تھی کہ اس کے گلے اور پیٹ کا مسئلہ تھا بلکہ اسے سمجھا رکھا تھا کہ وہ کسی سے لے کر بھی ایسی اشیا نہ کھائے۔

''کیا بات ہے مس روحی؟'' میں نے اس کی ٹیچر سے پوچھا کیونکہ بچے کے ساتھ اس کی ٹیچر کا کھڑا ہونا مجھے تشویش میں مبتلا کر گیا تھا، اس اسکول کی ٹیچر کلاس کے تمام بچوں کی قطار کے ساتھ کھڑی ہوتی تھیں نہ کہ یوں ایک بچے کے ساتھ علیحدہ۔

'' اس کے پیٹ میں درد تھا اور اس نے اپنا معمول کا لنچ بھی نہیں کھایا تو میں نے اسے چپس خرید کر دے دیے، یہ بھی بڑی مشکل سے کھا رہا ہے، پہلے تو لے ہی نہیں رہا تھا کہ ماما نے منع کیا ہے''... '' ہاں میں اسے اس طرح کی الا بلا کھانے کو نہیں دیتی، بہر حال آپ کا شکریہ!! '' میں نے بیٹے کو اپنے ساتھ لگا لیا، '' اب ٹھیک ہو بیٹا؟ ''

'' جی مما '' اس نے مجھے کہا، '' ٹیچر یہ خالی پیکٹ؟ '' اس نے خالی پیکٹ ٹیچر کو پکڑایا، ٹیچر نے وہ خالی پیکٹ اس کے ہاتھ سے لے کر وہیں زمین پر پھینک دیا اورمجھے میرے بیٹے کا بیگ پکڑایا۔

'' آپ کے ہاتھ سے چپس کا پیکٹ نیچے گر گیا ہے '' میں نے جان بوجھ کر جھک کر وہ پیکٹ اٹھایا اور اسے ٹیچر کی طرف بڑھایا۔'' پھینک دیں '' اس نے فوراً پیکٹ میرے ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ واپس پھینک دیا، '' ابھی صفائی کرنے والا صفائی شروع کر دے گا اور اٹھا لے گا سارا کوڑا کرکٹ!!''

'' بیٹا آپ دو منٹ کے لیے اس بنچ پر بیٹھیں!! '' میں نے بیٹے کو اس منظر سے ہٹانے کو اسے کہا اور واپس اس کی ٹیچر کی طرف مڑی، '' آپ ایک استاد ہیں اور میں سمجھی کہ میں نے آپ کی ایک غلط حرکت کو بڑے سلیقے سے بچے کے سامنے کور کیا تا کہ وہ محسوس نہ کرے اور اسے ایک حادثہ سمجھے مگر آپ نے وہی غلط حرکت دوبارہ کر کے اپنی غلطی کو بچے کے سامنے بھی مستند کر دیا ہے، بچے اپنے ماں باپ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں مگر ان کے لیے اصل سکھانے والے ان کے استاد ہوتے ہیں جن کی بات کے سامنے وہ اپنے ماں باپ کی بات کو بھی رد کر دیتے ہیں'' ...''میں سمجھی نہیں'' اس نے حیرت سے کہا، '' آپ کس غلط حرکت کی بات کر رہی ہیں؟ ''...'' آپ بچوں کو سکھاتی ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے... خود کو، اپنے گھر کو اور اپنی گلی، محلے، شہر اور ملک کو صاف رکھنا ہماری ذمے داری ہے ''

'' جی بالکل سکھاتے ہیں!! '' اس نے اعتماد سے کہا۔...'' اچھا کس طرح سکھاتے ہیں آپ ان بچوں کو؟ '' میں نے سوال کیا۔'' زبانی بتاتے ہیں، اسکول میں دیواروں پر صفائی کی اہمیت کے بارے میں لکھا ہوا ہے، اسمبلی میں بھی ہفتے میں ایک بار پرنسپل صفائی کے موضوع پر بات کرتی ہیں، معلوماتی فلمیں دکھاتے ہیں، نظموں کے ذریعے بھی انھیں بتاتے ہیں، مہینے میںایک دن ہم بچوں کو کلاس سے باہر گراؤنڈ میںلے کر جاتے ہیں، ان سب کے ہاتھوںمیں ایک ایک خالی کوڑا کرکٹ جمع کرنے والا لفافہ پکڑاتے ہیں، ہم خود بھی ایک ایک لفافہ پکڑ لیتی ہیں اور ان بچوں کے ساتھ مل کر پورے اسکول کا چکر لگاتے ہیں اور اس دوران جسے بھی کوئی کوڑا کرکٹ نظر آتا ہے وہ اٹھا کر اپنے لفافے میں ڈال لیتا ہے، اس روز ہم خود ہی کچھ خالی پیکٹ، بوتلوں کے ڈھکن، کاغذ وغیرہ فرشوں پر اور میدان میں پھنکوا دیتے ہیں اور پھر بچوں کے ساتھ مل کر صاف کرتے ہیں، ہر جماعت کے بچوں کو یہ پریکٹس کروائی جاتی ہے ''

''آپ کا اپنا عمل بچوں کو کچھ بھی سکھانے کے لیے سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے '' میں نے اسے سمجھایا، '' آپ خود کسی بچے بلکہ اتنے زیادہ بچوں کے سامنے چپس کا خالی پیکٹ کوڑے دان کی بجائے فرش پر پھینک رہی ہیں اور توقع کرتی ہیں کہ بچے ایسا نہیں کریں گے؟ ''...'' میں نے بتایا نا کہ ابھی صفائی والے صفائی... ''

''سن لیا تھا میں نے... مگر آپ نے بچے کے ذہن میں یہ سوچ تو پختہ کر دی نا کہ ہم پڑھے لکھے لوگوں کا کام گندگی پھیلانا ہے تا کہ ان پڑھ صفائی کرنے والے اسے صاف کر سکیں!! ہم تو اس نبی ﷺ کی امت ہیں جو دوسروں کے گھروں میں بھی کام کر کے ان کی مدد کرتے تھے اور ہم اتنے محتاج کہ اپنے ہاتھ کا کوڑا بھی چار قدم چل کر کوڑے دان میں نہیں ڈال سکتے''...'' اوہ سوری'' اس نے کہا، '' آپ کو برا لگا!!''... '' سوری اس بات پر نہ کریں آپ کہ مجھے برا لگا، سوری اس بات پر ہونا چاہیے کہ آپ نے ایک غلط کام کیا، کسی بھی سوری کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب آپ نے اپنے عمل کو برا سمجھا ہو اور دل سے عہد کیا ہو کہ دوبارہ آپ ایسا نہیں کریں گے۔

آپ لوگ استاد ہیں اس قوم کے معمار ہیں، آپ لوگوں کا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بچے غور سے دیکھتے ہیں اور آپ سے ہی سیکھتے ہیں، آپ اگر ان کے سامنے ایسا کام کریں گے تو وہ ایسا کرنے کو برا نہیں سمجھیں گے، اپنے اسکول، گھر، گلی، محلے کو بھی صاف رکھنا نہیں سیکھیں گے، یہ سب ہمارے ملک کا حصہ ہیں اور ملک ہمار ا گھر ہے، گھر جو ہم سب کا ہے، اسے صاف رکھنا ہم سب کی ذمے داری ہے، ہم ملک میں گندگی کے ڈھیر دیکھ کر کڑھتے ہیں،دوسروں کو گندا کہتے ہیں مگر سمجھتے نہیں کہ کسی بھی اچھائی یا برائی کا آغاز اتنے ہی چھوٹے کام سے ہوتا ہے جتنا آپ نے ابھی کیا ہے ''... '' میں واقعی بہت شرمندہ ہوں !! '' اب اس کے لہجے میں وہ شرمندگی تھی جس سے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کے بعد وہ اس غلطی کو نہیں دہرائے گی۔

'' آپ صرف ایک کام کریں، بچوں کو بتائیں کہ محبت کیا ہوتی ہے، انھیں بتائیں کہ جس چیز سے ہمیں محبت ہوتی ہے اسے ہم بہت اچھا دیکھنا چاہتے ہیں، خود سے محبت ہوتی ہے تو ہم خود کو اچھا بناتے ہیں، گھر سے محبت ہوتی ہے تو اپنے گھر کو اچھا رکھتے ہیں، اس ملک سے محبت کا درس ان بچوں کے لیے سب سے اہم ہے، اس ملک میں وہ پیدا ہوتے ہیں، یہاں پل کر جوان ہوتے ہیں، اسی سے ان کا نام اور پہچان ہے، اسے اچھا دیکھنے کی خواہش ان کے دلوں میں ہونی چاہیے اور انھیں علم ہونا چاہیے کہ اسے وہ خود ہی اچھا رکھ سکتے ہیں، ان کے بنانے اور بگاڑنے میں ان کا کردار اہم ہے۔

اس ملک کی گلیاں کوچے ان ہی کی کوششوں سے صاف رہ سکتے ہیں، اس ملک کے وسائل انھوں نے ہی احتیاط سے استعمال کرنا ہے تا کہ ہماری اگلی نسلیں ہم سے زیادہ محرومیوں کا شکار نہ ہوں ، اس ملک کو برا نہ کہیں کہ یہ ہمار ا اصل گھر ہے!!''

'' آپ کا بہت بہت شکریہ، آپ نے میری سوچ کو ایک نیا رخ اور منفرد طرز دی ہے!! '' اس نے مجھ سے پرجوش مصافحہ کیا اور میں اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ لے کر اسکول سے نکلی تومیرے دل کو یقین تھا کہ کم از کم اس کی ایک استاد تو اس کے بعد صاحب عمل ہو گی۔ حال ہی میں ہم نے اساتذہ کا عالمی دن منایا ہے، اصل روح یہ ہے کہ صرف طالب علم ہی اساتذہ کا شکریہ ادا نہ کریں بلکہ اساتذہ بھی خود کو صاحب علم و عمل ثابت کریں اور طالب علموں میں وہ اوصاف اپنے عمل سے پیدا کریں جو انھیں معاشرے کا ایک مثبت فرد بنائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں