ہمارا پست ترین نظام تعلیم

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستان میں ذہانت اور ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں

عالمی مسابقتی رپورٹ برائے 2015-16 کی رینکنگ کے مطابق اعلیٰ تعلیم و تربیت کے میدان میں پاکستان کی کارکردگی نہایت ناقابل رشک ہے، جب کہ وزیر تعلیم نے بتایا ہے کہ دنیا کی پہلی ایک سو جامعات میں کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں، تاہم عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی 6 یونیورسٹیاں 501 سے لے کر 701 میں شامل ہیں جو کوئی قابل رشک بات تو نہیں لیکن اس بات کی غمازی ہے کہ اگر حکومتی سطح پر مربوط جدوجہد کی جائے تو پاکستان تعلیم کے میدان میں اپنا سکہ ضرور منوا سکتا ہے۔

ملکی منظرنامے پر گہری نگاہ رکھنے والے اس بات سے کبھی انکار نہیں کریں گے کہ وطن عزیز میں تعلیم ہمارے کسی بھی دور کے حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی اور اب بھی اس پر قومی بجٹ کا چار فیصد سے زیادہ حصہ خرچ نہیں ہوتا۔

اگر ہمارے تعلیمی نظام کا بھرپور جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہماری ابتدائی درسگاہوں سے لے کر جامعات تک کے طلبا و طالبات کو معیاری تعلیم کی وہ سہولتیں حاصل نہیں جو دنیا کے ترقی یافتہ ہی نہیں کئی ترقی پذیر ممالک کو حاصل ہیں مگر اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کرگزرنے میں کوئی کمی نہیں کر رہے۔

صوابی کی سدرہ نامی ایک طالبہ نے حال ہی میں اے سی سی اے کے امتحان میں 180 ممالک کے طلبا میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، شرط صرف یہ ہے کہ انھیں ارزاں اور کوالٹی ایجوکیشن فراہم کی جائے اور اس کے لیے سازگار ماحول مہیا کیا جائے اور اگر زبانی دعوے و بیان سے آگے آکر اس حوالے سے عملی اقدامات کیے جائیں تو وہ اپنے اسلاف کی بغداد، غرناطہ اور اشبیلہ میں قائم کردہ علمی روایات کو تازہ کرنے میں کوئی کمی نہیں کریں۔

لیکن افسوس ہمیشہ ملک میں شرح خواندگی بڑھنے اور بچوں کو اسکول کی سہولتیں اور داخلہ دینے کے حوالے سے صرف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اعلانات ہی کیے گئے جس سنجیدگی سے تعلیم جیسے اہم اور حساس شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت تھی وہ نہیں دی جاسکی، اس لیے ہمارے ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اب تک اسکول جانے سے محروم ہیں۔ اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ اس وقت پاکستان میں شرح خواندگی تشویشناک حد تک کم ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے ملکوں میں پاکستان 160 ویں نمبر پر ہے اور شرح خواندگی 55 فیصد ہے، اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں صرف ایتھوپیا، یوگنڈا اور نائجیریا تین ایسے پسماندہ ترین ممالک ہی پاکستان سے پیچھے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستان میں ذہانت اور ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اور ہمارے ملک کے جن نوجوانوں کو اندرون یا بیرون ملک اعلیٰ تعلیم میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے وہ دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ نوجوانوں کو بھی اپنے سے بہت پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک پاکستانی نژاد لڑکے اور لڑکی کی خلا میں کشش ثقل کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں قابل ذکر حصہ ڈال کر اپنی صلاحیت کو منوانا اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں جواہر قابل کی قلت یا قحط ہرگز نہیں لیکن انھیں مناسب تعلیم و تربیت کی سہولتیں بہرطور میسر نہیں جو ان کی صلاحیتوں کو ہرکس و ناکس سے منوا سکیں۔ اس کی سب سے بڑی اور واحد وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی اولین ترجیح میں تعلیم کے شعبے کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید ترین سائنسی خطوط پر استوار کرنے کا کوئی نظام ہی شامل نہیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وطن عزیز تعلیمی میدان میں نیپال اور بھوٹان ایسے ممالک سے بھی پیچھے نہ رہ جاتا۔


یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں اصلاحات کے نام پر کیے جانے والے اقدامات کے باوجود پاکستان کا نظام تعلیم ابھی تک قومی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا اور ہمارے ہاں آج بھی شرح خواندگی کے اعتبار سے قوموں کی برادری میں بہت پچھلی صفوں میں کھڑا ہے اور یہ عمومی رائے ہے کہ یہ نظام محض کلرک اور منشی پیدا کرتا ہے یا معاشرے میں طبقاتی تفریق بڑھاتا ہے۔ اہل علم کے نزدیک اس رائے پر بحث مباحثے کی یقیناً گنجائش ہوگی مگر اقوام متحدہ نے جو تازہ رپورٹ جاری کی ہے، اس میں ہماری تعلیمی زبوں حالی کی قلعی کھول کر رکھ دی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام جدید دور کے تقاضوں سے 60 سال پیچھے ہے جب کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نہ صرف شرح خواندگی کم ہے بلکہ تعلیم بھی معیار کے مطابق نہیں۔ پرائمری سطح پر دی جانے والی تعلیم قدرے بہتر یعنی نئے دور کے تقاضوں سے 50 سال پیچھے ہے جب کہ سیکنڈری سطح پر یہ معیار 60 سال پیچھے ہے اور ایٹمی ملک ہونے کے حوالے سے یہ واحد ملک ہے جس کا نظام تعلیم نہایت پست ہے۔

اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے معاشرے یا ملک میں اکثر لوگ گریجویٹ تک نہ انگریزی میں اپنا مدعا درست طور پر بیان کرسکتے ہیں اور نہ ہی اردو میں وہ اپنا مافی الضمیر کہہ سکتے ہیں اور یہ برہنہ سچائی کس قدر شرمناک کہی جاسکتی ہے اس کا اندازہ ہر اہل علم بخوبی لگا سکتا ہے۔

جس ملک کی جامعات میں جعلی ڈگریوں کے حامل اساتذہ پڑھا رہے ہوں، جس ملک کی ایک جامعہ کے وائس چانسلر تک کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری جعلی ہو، وہاں تعلیم، اس کے نظام اور معیار کو کیا نام دیا جاسکتا ہے؟

ہمارے میڈیاز میں بھی اکثریت اب ایسے اداروں سے آتی ہے جہاں وہ تعلیم کے نام پر جہالت سیکھ کر آرہے ہیں۔ اس کی مثال ایک یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق ہے جس کے مطابق وہاں پی ایچ ڈی اور ایم فل کے داخلے اس بنیاد پر منسوخ کیے گئے کہ ان میں داخلے کے لیے آنے والے تمام طالب علم فیل ہوگئے تھے۔ ان تمام شعبوں میں خاص طور پر شعبہ ابلاغیات کا نام آتا ہے جہاں بے ایمانی کے ذریعے پی ایچ ڈی کے تمام امیدواروں کو فیل ہونے پر اضافی نمبر دیے گئے۔

اگر تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو عبرت کے انمٹ سیکڑوں ہزاروں نشان موجود ہیں، بے شمار تمثیلات اور ان گنت مثالیں موجود ہیں، مگر کیا کریں کہ یہ بھی تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی تاریخ سے نہیں سیکھتا اور تاریخ بھی شاید اس لیے خود کو دہراتی رہتی ہے؟

اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ کتابیں، تقریریں، مباحثے اور مشاہیر کے ساتھ سیشن یہ سب کے سب علم پھیلانے کے بڑے پارٹس رہے ہیں لیکن ہماری یونیورسٹیاں جید اپنے کام سے وفادار اور حد درجہ دانش مند اساتذہ یا پروفیسرز کے ساتھ ساتھ سبھی سے فارغ ہوچکی ہیں، ازکار رفتہ کے دور کا سلیبس اس قدر بوسیدہ یا پرانا ہوگیا ہے کہ اسے طالب علم پڑھنا ہی نہیں چاہتا، بس وہ پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو کاپی کرواتے ہیں، اس کا رٹا لگاتے ہیں اور باقی وقت موبائل یا نیٹ پر نظریں گاڑ کر اپنی بینائیاں خرچ کردیتے ہیں اور یوں علم و عرفان کے عظیم ادارے جہالت کی خوفناک فیکٹریاں بن چکے ہیں۔

تعلیمی اصلاحات کے ضمن میں سب سے پہلے تو لائق فائق اساتذہ کا انتخاب شرط اولین ہے، اس کے بعد ان کے اور طالب علموں کے تحفظ یا سیکیورٹی کا فول پروف نظام ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں ہر اساتذہ، ہر طالب علم اور ہر تعلیمی ادارہ برسہا برس سے عدم تحفظ کا شکار ہے (جس کی وجہ سے وہ تعلیم پر پوری یکسوئی سے توجہ نہیں دے پا رہے) پھر نصاب تعلیم کی تبدیلی ازحد ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ریسرچ ادارے قائم ہیں جن کی تحقیق کی بنیاد پر تقریباً ہر سال نصاب میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے، اس کے برعکس ہمارے ہاں نصف صدی کا پرانا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔

ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ اب تعلیم جیسے تعمیری، اہم اور حساس ترین شعبے پر ہنگامی بنیادوں پر تعمیری اور مقصدی اقدامات کرے اور تعلیمی نظام کو جدید ترین تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے جامع اصلاحات روبہ عمل لائے تاکہ ملک اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکے۔
Load Next Story