پاکستانیوں کی مہمان نوازی نے دل جیت لئے
پی سی بی نے کوچنگ کے لیے پیشکش کی تو غور کروں گا، جونٹی رہوڈز
کوچنگ کم ریالٹی ٹی وی شو کرکٹ سپر اسٹار کے لیے حال ہی میں سابق عظیم ویسٹ انڈین فاسٹ بولر اینڈی رابرٹس، جنوبی افریقہ کے جونٹی رہوڈز، آسٹریلیا کے ڈیمین مارٹن اور نیوزی لینڈ کے ڈینی موریسن کراچی آئے، انھوں نے یہاں چند دن گزارے اور کوچنگ کیمپ کے فائنل مرحلے میں ججز کے فرائض نبھائے۔
اس پروگرام کے تحت لاہور اور کراچی میں اوپن ٹرائلز سے سابق پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر عبدالقادر، جلال الدین اور محمد وسیم نے 8،8 کھلاڑیوں کا انتخاب کیا، ان میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکے ٹرائلز سے منتخب شدہ 8 پلیئرز بھی شامل ہوئے ، کیمپ ختم ہونے کے بعد ایک ایک فاسٹ بولر اور بیٹسمین کو ٹریننگ کے لیے آسٹریلیا بھیجا جائے گا،1کو پی ایس ایل میں کوئٹہ کی نمائندگی کا موقع ملے گا جبکہ سب کی ملازمتوں کا بھی انتظام کیا جائے گا۔
یہ پروجیکٹ کراچی اسپورٹس فاؤنڈیشن کے روح رواں نعمان نبی نے عارف حبیب کے ساتھ شروع کیا، نعمان کینیڈا میں انٹرنیشنل ٹورنامنٹ بھی کرانے کا تجربہ رکھتے ہیں، واپسی سے قبل چاروں سابق کرکٹ اسٹارز نے ''ایکسپریس'' کو خصوصی انٹرویو میں مختلف امور پر روشنی ڈالی جس کی تفصیل یہ ہے۔
جونٹی رہوڈز
ایکسپریس: پاکستان میں ٹیلنٹ کی تلاش کا تجربہ کیسا رہا؟
جونٹی رہوڈز: پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کی تلاش مختلف کام تھا، میں پہلے کوچنگ اور ٹی وی ورک کر چکا، مگر ان دونوں کو ملا کر کبھی کچھ نہیں کیا تھا لہٰذا یہ میرے لیے سیکھنے کا عمل تھا، ساتھ ہی گلیوں میں کھیلنے والے کرکٹرز جنھیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا کوئی موقع نہیں ملا تھا، ایسے نئے ٹیلنٹ کودیکھنا بہت سنسنی خیزرہا۔
ایکسپریس: اپنے مشہور عالم رن آؤٹ کے بارے میں بتائیں؟
جونٹی رہوڈز:انضمام الحق کو 1992 ورلڈکپ میں رن آؤٹ کرنا اب بھی مجھے کل ہی کی بات لگتی ہے، اس سے مجھے فیلڈنگ میں نام بنانے کا موقع تو ملا ساتھ ہی نوجوان بھی اس شعبے میں زیادہ محنت کرنے لگے، وہ رن آؤٹ کرکٹ کو چاہنے والا کوئی بھی شائق کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
ایکسپریس:ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
جونٹی رہوڈز: میں ڈے اینڈ نائٹ ون ڈے کرکٹ کھیل چکا، فلڈ لائٹ میں ٹیسٹ گذشتہ برس ہی شروع ہوئے ہیں،کچھ کھلاڑی پنک گیند کو درست خیال کرتے ہیں بعض کے مطابق وائٹ اور ریڈ گیند کے مقابلے میں وہ مختلف ہے، یہ چمک تیزی سے کھوتی اور جب ایسا ہو جائے تو دوبارہ چمکانا مشکل ہوتا ہے، میں نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا ٹیسٹ دیکھا اس میں شائقین آئے تھے، ٹیسٹ کرکٹ کو زندہ رکھنے کے لیے جو کچھ ہو سکے کرنا چاہیے، کھیل کو تروتازہ اور نیا رکھنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ایکسپریس: فیلڈنگ میں بہتری کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
جونٹی رہوڈز: پاکستانی کھلاڑی فیلڈنگ میں سخت محنت کرتے ہیں، مگر گراس روٹ لیول پر کوشش کرنی چاہیے جہاں سے نئے پلیئرز آگے آتے ہیں، انھیں کھیلنے کے لیے اچھی سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں، کیونکہ اگر آپ کسی خراب گراؤنڈ میں ڈائیو لگائیں تو زخمی ہو جائیں گے، اس لیے ڈائیو لگاتے ہوئے محتاط رہیں گے،پاکستان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ پلیئرز پہلے ڈائیو لگانے کا سوچتے پھر ایسا کرتے ہیں تب تک بہت دیر ہو جاتی ہے، جدید کرکٹ میں ہر گیند پر ڈائیو کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے، مگر بچے اگر ایسے پس منظر سے آئے ہوں جہاں ڈائیو لگاتے ہوئے ڈر لگتا ہو تو وہ محتاط ہی رہیں گے، کارپوریٹ اداروں کو سامنے آنا چاہیے، وہ پی سی بی کا ساتھ دیں، سہولتیں بہتر ہوں گی تو اس سے پاکستان میں گراس روٹ پر فیلڈنگ کا معیار بڑھے گا۔
ایکسپریس: پاکستان میں کوچنگ کی پیشکش ہو توقبول کرینگے؟
جونٹی رہوڈز: اگر پی سی نی نے ایسی کوئی پیشکش کی تب ہی سوچوں گا،کوچنگ میں آپ کو نتائج چاہیے ہوتے ہیں،پاکستان کی فیلڈنگ میں خاصی بہتری آئی ہے اور اب چند اچھے فیلڈرز موجود ہیں،اگر میں نے کہیں بھی کچھ کوچنگ کا کام کیا تو آپ نتائج بھی دیکھیں گے، اینڈی رابرٹس بھی دنیا میں جہاں موقع ملے کوچنگ کے خواہشمند ہیں، ہم سب کھیل سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
ڈیمین مارٹن
ایکسپریس: ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
ڈیمین مارٹن:میں ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کو پسند کرتا ہوں، یہ ٹیسٹ کرکٹ کا مستقبل ہے، ہم نے آسٹریلیا میں اسے آزمایا، اصل مسئلہ درست گیند کی تلاش کا ہے، اگر وہ مل گئی اور پلیئرز کھیلنے کے عادی ہو گئے تو پھر یہ تجربہ کامیاب رہے گا۔
ایکسپریس: کراچی کے بارے میں عام تاثر منفی سا ہے، مگر آپ آسٹریلیا سے یہاں آئے، ساحل سمندر اور سپر مارکیٹس میں بھی گئے؟
ڈیمین مارٹن: مجھے کراچی بہت اچھا لگا، مغربی دنیا میں ہم خبریں دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کراچی بہت خطرناک جگہ ہے، مگر جب یہاں آیا تو بہترین مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، یہاں ہر کوئی کرکٹ سے محبت کرتا ہے اور ہم سے ہر کوئی بہت اچھے انداز سے ملا، انٹرنیشنل کرکٹرز یہاں آئیں تو بہت اچھا محسوس کریں گے جیسا کہ ہم آئے تو بہترین تجربہ ہوا، ہم یہاں دوبارہ آنا بھی پسند کریں گے۔
ایکسپریس: آپ کی نظر میں پاکستان کا بہترین بولر کون ہے؟
ڈیمین مارٹن: وسیم اکرم اور وقار یونس میرے پسندیدہ پیسرز تھے، ثقلین مشتاق بہترین پاکستانی اسپنر رہے ہیں، سب سے آگے میں وسیم کو ہی رکھوں گا۔
ایکسپریس:کیا نیا ٹیلنٹ حوصلہ افزا نظر آیا؟
ڈیمین مارٹن: پاکستان میں مجھے نئے ٹیلنٹ کو دیکھنے کا موقع ملا، یہاں باصلاحیت بچے موجود ہیں جن کے ساتھ مزید وقت گذاریں تو کھیل میں نکھار آئے گا، میں نے یہاں مختلف شہروں سے آنے والا بالکل نیا ٹیلنٹ دیکھا ان پلیئرز کو مواقع ملیں تو یقیناً آگے آئیں گے،ان کے ساتھ کوچز کو وقت گذارنے کی ضرورت ہے، جو خامیاں دور کریں گے تو کیا پتا مستقبل میں ملک کیلئے خدمات انجام دینے کے بھی قابل بن جائیں۔ ہمیں پاکستان میں 24 پلیئرز ملے جن میں سے 2 کو آسٹریلیا بھیجا جائے گا، میں پہلی بار پرائیوٹ سیکٹر کی کسی ایسی سرگرمی میں شریک ہوا، ایسے ہی اقدامات سے پاکستان کرکٹ مزید ترقی کرے گی۔
ایکسپریس:پاکستان کرکٹ کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
ڈیمین مارٹن: پاکستان ٹیم مکی آرتھر کی کوچنگ میں درست سمت میں گامزن ہے، حال ہی میں ٹیسٹ نمبر ون بنی اور اب دوسری پوزیشن پر ہے،ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ کھیلنے کے باوجود کارکردگی کا معیار برقرار رکھنا دشوار تھا مگر پاکستان نے ایسا کیا، ٹیم اچھا کھیل پیش کر رہی ہے اور اس کے پاس معیاری ٹیلنٹ بھی موجود ہے۔
اینڈی رابرٹس
ایکسپریس: کراچی کا دورہ کیسا رہا؟
اینڈی رابرٹس: ماضی میں جب کبھی کراچی آیا تو ہوٹل سے گراؤنڈ ہی آنے جانے کا موقع ملا، اب پہلی باریہاں سیروتفریح اور شاپنگ بھی کی، یہاں بہت اچھے مقامات موجود ہیں، کئی جگہ میں گیا مگر چند وقت کی کمی کے سبب رہ بھی گئیں، پہلی بار مجھے یہاں آ کر لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، جیسی سیکیورٹی ہمیں ملی اگر وہی غیرملکی ٹیموں کو بھی دی جائے تو ضرور ان کو پاکستان آ کر کھیلنا چاہیے۔
ایکسپریس: نو عمر کرکٹرز میں کیسی صلاحیتیں دیکھیں؟
اینڈی رابرٹس: میں نے پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کو دیکھا، بعض کرکٹرز میری توقعات پر پورا نہیں اترے لیکن چند نے بیحد متاثر کیا، انھیں اگر درست رہنمائی فراہم کی جائے تو اچھے فرسٹ کلاس کرکٹرز بن سکتے ہیں جو مستقبل میں ملک کی نمائندگی کے بھی قابل ہوںگے۔
ایکسپریس: کرکٹ کی تاریخ میں بہترین بولرز کن کو سمجھتے ہیں؟
اینڈی رابرٹس: انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈینس للی اور میلکم مارشل سے بہتر بولرز کبھی نہیں آئے، وسیم اکرم اور عمران خان بھی بہت اچھے تھے، مگر وسیم کو میں نے صرف ٹی وی پرہی دیکھا اس لیے ان کے بارے میں بالکل درست تجزیہ نہیں کر سکوں گا، موجودہ پاکستانی فاسٹ بولرز میں سے کون سب سے اچھا ہے اس بارے میں کچھ کہنا میرے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ محمد عامر 5 برس بعد کرکٹ میں واپس آئے ہیں، ابھی ان میں ماضی جیسی بات نہیں آ سکی، البتہ مزید میچز کھیلنے سے یقیناً فارم واپس آئے گی، اگر آپ 6 ماہ بعد مجھ سے یہ سوال دوبارہ پوچھیں گے تو شاید میرا جواب محمد عامر ہو۔
ایکسپریس: ویسٹ انڈین بولنگ میں ماضی جیسا دم خم نہیں رہا، اس کی کیا وجہ ہے؟
اینڈی رابرٹس: 70اور80 کی دہائی کے ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز میں بہت کمٹمنٹ اور ٹیم کے لیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہوتا تھا، وہ طویل القامت بھی تھے، مگر اب کرس گیل اور پولارڈ جیسے لمبے کرکٹرز بیٹسمین ہیں،گذشتہ 10 برس میں ویسٹ انڈیز نے جو معیاری فاسٹ بولرز پیدا کیے وہ جیروم ٹیلر، فیڈل ایڈورڈز اور ٹینو بیسٹ تھے، یہ سب 5فٹ 9 انچ کی قامت کے حامل ہیں، میرے خیال میں یہ بڑا مسئلہ تھا، یہ تیز بولنگ کر سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کتنے وقت تک ایسا کرنے کے قابل رہتے۔
ایکسپریس: آج کی کرکٹ پیسرز کے لیے مشکل نہیں ہوگئی؟
اینڈی رابرٹس: اوور میں ایک باؤنسر کی اجازت فاسٹ بولرز کے ساتھ غیر منصفانہ تھی،گوکہ اب اسے 2 تک بڑھا دیا گیا مگر اب بولرز پر بہت زیادہ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں،اگر آپ جدید دور کی ون ڈے کرکٹ دیکھیں تو بولرز کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کھیل مکمل طور پر بیٹسمین کے حق میں چلا گیا ہے۔
ایکسپریس: کیریبیئن کرکٹ کے زوال کی کیاوجوہات ہیں؟
اینڈی رابرٹس: اب میں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ کو زیادہ فالو نہیں کرتا کیونکہ اس کا معیار ماضی جیسا نہیں رہا، کھلاڑی سخت محنت کی کوشش نہیں کرتے، ان کی زیادہ دلچسپی کھیل کی مختصر طرز میں ہے جہاں کم وقت میں زیادہ ڈالرز کمائے جا سکتے ہیں، جس طرح کراچی میں ابھی ٹرائلز کا انعقاد ہوا، میں امید ہی کر سکتا ہوں کہ ایسا ویسٹ انڈیز میں بھی ہو تاکہ نیا ٹیلنٹ تو سامنے آئے۔
ایکسپریس: ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
اینڈی رابرٹس: جلد یا بدیر ڈے نائٹ ٹیسٹ تو ہونے ہی ہیں، موجودہ دور میں صرف انگلینڈ یا پھر آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچز کے دوران زیادہ کراؤڈ آتا ہے،1970میں جب میں بھارت گیا تو کولکتہ میں ٹیسٹ کے دوران تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، جتنے لوگ گراؤنڈ میں تھے ان سے زیادہ باہر موجود تھے،آسٹریلیا میں بھی اس دور میں 95 ہزار کا کراؤڈ بھی میچ دیکھنے آیا، اب ایسا نہیں ہے،شائقین کو لانے کے لیے ڈے نائٹ ٹیسٹ جیسے اقدامات ضروری ہیں۔
ایکسپریس: آپ کے پسندیدہ بیٹسمین کون سے ہیں؟
اینڈی رابرٹس: سنیل گاوسکر، ویوین رچرڈز اور بیری رچرڈز میرے پسندیدہ بیٹسمین تھے، گیری سوبرز اورگریم پولاک بھی ٹاپ کلاس کرکٹرز تھے،انھوں نے خطرناک فاسٹ بولرز کا بھی جوانمردی سے سامنا کیا، جدید دور میں کھلاڑی دفاعی سازوسامان سے لیس ہوتے ہیں اور بیٹنگ آسان بن گئی ہے، اسی کے ساتھ ماضی جیسے پیسرز بھی اب موجود نہیں رہے۔
ڈینی موریسن
ایکسپریس: آپ کا پاکستان میں تجربہ کیسا رہا؟
ڈینی موریسن: پاکستان آکر بہت اچھا لگا، نئے دوست بھی بنانے کا موقع ملا، مجھے کراچی بہت پسند آیا،خوشی ہے یہاں پرائیوٹ سیکٹر بھی کرکٹ کے فروغ کے لیے آگے آ رہا ہے، پاکستان میں کرکٹ کا بہت ٹیلنٹ ہے جس کی کچھ جھلک مجھے اپنے دورے کے دوران بھی دیکھنے کو ملی،جو پلیئرز منتخب ہوئے انھیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا جس سے وہ اپنے خواب پورے کر سکیںگے، مستقبل میں بھی مجھے موقع ملا تو یہاں آ کر نئے ٹیلنٹ کی تلاش میں ضرور مدد فراہم کروں گا۔
ایکسپریس: کیا آپ بھی ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کے حامی ہیں؟
ڈینی موریسن: میں ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کا بڑا حامی ہوں، کھیل کو شائقین کے لیے مزیددلچسپ بنانے کی ضرورت ہے، فلڈ لائٹس میں پنک گیند سے میچ دیکھنے کے لیے یقینا لوگ وقت نکال پائیں گے اور ٹیسٹ کرکٹ کا مستقبل بہترہوگا۔
اینڈی رابرٹس
ویسٹ انڈین کرکٹ کا بام عروج تک پہنچانے والے کرکٹرز میں سے ایک ہیں، انہوں نے مائیکل ہولڈنگ، جوئیل گارنر اور کولن کرافٹ کے ہمراہ حریف ٹیموں کے ناک میں دم کئے رکھا،برق رفتاری،خطرناک باؤنسر اور بیٹسمینوں کی نفسیات سے کھیلنے کا ہنر رکھنے والے اس پیسر 1974سے 1983تک محیط کیریئر کے دوران 47ٹیسٹ میچز میں 25.61کی اوسط سے 202شکار کئے، بہترین بولنگ 54رنز کے عوض 7وکٹ رہی،56ون ڈے مقابلوں میں انہوں نے 20.35کی ایوریج سے 87کو پویلین کی راہ دکھائی،بہترین کارکردگی 22رنز کے بدلے میں 5وکٹ رہی، نوجوان پیسرز آج بھی ان کی ویڈیوز دیکھ کر بولنگ کے گر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈینی موریسن
نیوزی لینڈ کی جانب سے ون ڈے کرکٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے دوسرے بولر ڈینی موریسن اپنے منفرد ایکشن اورمہلک آؤٹ سوئنگر کی وجہ سے مشہور تھے،انہوں نے 1987میں ڈیبیو کرنے کے بعد اپنے 10سالہ کیریئر میں کئی بار حریفوں کو حیران و پریشان کیا، پیسر نے 48ٹیسٹ میچز میں 34.68کی اوسط سے 160شکار کئے،بہترین بولنگ 89رنز کے عوض 7وکٹ رہی،ون ڈے کرکٹ میں انہوں نے 27.53کی ایوریج سے 126کو پویلین کی راہ دکھائی،بہترین کارکردگی 34رنز کے بدلے میں 5وکٹ رہی،ریٹائرمنٹ کے بعد آسٹریلیا میں سکونت پذیر ہونے کے بعد وہ منفرد لب و لہجہ کی بدولت مبصر کی حیثیت سے بھی خاص مقام حاصل کرچکے ہیں۔
ڈیمین مارٹن
کلاسیکی تکنیک اور شاندار سکوائر کٹ کی وجہ سے پہچانے جانے والے آسٹریلوی مڈل آرڈر بیٹسمین ڈیمین مارٹن کبھی کبھار بولنگ کرنے والے میڈیم پیسر بھی تھے، 1992سے 2006تک انٹرنیشنل کیریئر میں کئی یادگار اننگز کھیلنے والے کرکٹر کی فیلڈنگ بھی لاجواب تھی،انہوں نے 67ٹیسٹ میچز میں 46.37کی اوسط سے 13سنچریز اور 27ففٹیز سمیت 4406رنز بنائے،سب سے بڑی اننگز 165کی کھیلی، ون ڈے کرکٹ کے 208مقابلوں میں انہوں نے 40.80کی ایوریج سے 5346رنز جوڑے،5سنچریز اور 37ففٹیز بھی شامل ہیں،زیادہ سے زیادہ سکور 144ناٹ آؤٹ رہا، کیریئر کے بہترین سال 2004میں ڈیمین مارٹن نے 1608رنز بنائے،2بار مین آف دی سیریز رہے۔
جونٹی رہوڈز
ورلڈ کپ 1992میں شاندار ڈائیو لگا کر انضمام الحق کو رن آؤٹ کرکے شہرت پانے والے جونٹی رہوڈز کو آج تک دنیائے کرکٹ کا بہترین فیلڈر قرار دیا جاتا ہے، مچھلی کی طرح فضا میں تیرتے ہوئے کئی یادگار کیچ تھامنے والے پروٹیز کرکٹر قابل بھروسہ مڈل آرڈر بیٹسمین بھی تھے، انہوں نے 52ٹیسٹ میچز میں 35.6کی اوسط سے 2532رنز بنائے ہیں،3سنچریز اور 17ففٹیز شامل تھیں،زیادہ سے زیادہ سکور 117رہا، ون ڈے کرکٹ میں انہوں نے 245مقابلوں میں 35.11کی ایوریج سے 5935رنز جوڑے،2تھری فیگر اننگز اور 33نصف سنچریز بھی شامل تھیں،زیادہ سے زیادہ سکور 121رہا،2003 میں ریٹائر ہونے والے جونٹی رہوڈز نے ٹیسٹ میں 34اور ون ڈے میں 105کیچ بھی تھامے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت لاہور اور کراچی میں اوپن ٹرائلز سے سابق پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر عبدالقادر، جلال الدین اور محمد وسیم نے 8،8 کھلاڑیوں کا انتخاب کیا، ان میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکے ٹرائلز سے منتخب شدہ 8 پلیئرز بھی شامل ہوئے ، کیمپ ختم ہونے کے بعد ایک ایک فاسٹ بولر اور بیٹسمین کو ٹریننگ کے لیے آسٹریلیا بھیجا جائے گا،1کو پی ایس ایل میں کوئٹہ کی نمائندگی کا موقع ملے گا جبکہ سب کی ملازمتوں کا بھی انتظام کیا جائے گا۔
یہ پروجیکٹ کراچی اسپورٹس فاؤنڈیشن کے روح رواں نعمان نبی نے عارف حبیب کے ساتھ شروع کیا، نعمان کینیڈا میں انٹرنیشنل ٹورنامنٹ بھی کرانے کا تجربہ رکھتے ہیں، واپسی سے قبل چاروں سابق کرکٹ اسٹارز نے ''ایکسپریس'' کو خصوصی انٹرویو میں مختلف امور پر روشنی ڈالی جس کی تفصیل یہ ہے۔
جونٹی رہوڈز
ایکسپریس: پاکستان میں ٹیلنٹ کی تلاش کا تجربہ کیسا رہا؟
جونٹی رہوڈز: پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کی تلاش مختلف کام تھا، میں پہلے کوچنگ اور ٹی وی ورک کر چکا، مگر ان دونوں کو ملا کر کبھی کچھ نہیں کیا تھا لہٰذا یہ میرے لیے سیکھنے کا عمل تھا، ساتھ ہی گلیوں میں کھیلنے والے کرکٹرز جنھیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا کوئی موقع نہیں ملا تھا، ایسے نئے ٹیلنٹ کودیکھنا بہت سنسنی خیزرہا۔
ایکسپریس: اپنے مشہور عالم رن آؤٹ کے بارے میں بتائیں؟
جونٹی رہوڈز:انضمام الحق کو 1992 ورلڈکپ میں رن آؤٹ کرنا اب بھی مجھے کل ہی کی بات لگتی ہے، اس سے مجھے فیلڈنگ میں نام بنانے کا موقع تو ملا ساتھ ہی نوجوان بھی اس شعبے میں زیادہ محنت کرنے لگے، وہ رن آؤٹ کرکٹ کو چاہنے والا کوئی بھی شائق کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
ایکسپریس:ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
جونٹی رہوڈز: میں ڈے اینڈ نائٹ ون ڈے کرکٹ کھیل چکا، فلڈ لائٹ میں ٹیسٹ گذشتہ برس ہی شروع ہوئے ہیں،کچھ کھلاڑی پنک گیند کو درست خیال کرتے ہیں بعض کے مطابق وائٹ اور ریڈ گیند کے مقابلے میں وہ مختلف ہے، یہ چمک تیزی سے کھوتی اور جب ایسا ہو جائے تو دوبارہ چمکانا مشکل ہوتا ہے، میں نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا ٹیسٹ دیکھا اس میں شائقین آئے تھے، ٹیسٹ کرکٹ کو زندہ رکھنے کے لیے جو کچھ ہو سکے کرنا چاہیے، کھیل کو تروتازہ اور نیا رکھنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ایکسپریس: فیلڈنگ میں بہتری کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
جونٹی رہوڈز: پاکستانی کھلاڑی فیلڈنگ میں سخت محنت کرتے ہیں، مگر گراس روٹ لیول پر کوشش کرنی چاہیے جہاں سے نئے پلیئرز آگے آتے ہیں، انھیں کھیلنے کے لیے اچھی سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں، کیونکہ اگر آپ کسی خراب گراؤنڈ میں ڈائیو لگائیں تو زخمی ہو جائیں گے، اس لیے ڈائیو لگاتے ہوئے محتاط رہیں گے،پاکستان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ پلیئرز پہلے ڈائیو لگانے کا سوچتے پھر ایسا کرتے ہیں تب تک بہت دیر ہو جاتی ہے، جدید کرکٹ میں ہر گیند پر ڈائیو کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے، مگر بچے اگر ایسے پس منظر سے آئے ہوں جہاں ڈائیو لگاتے ہوئے ڈر لگتا ہو تو وہ محتاط ہی رہیں گے، کارپوریٹ اداروں کو سامنے آنا چاہیے، وہ پی سی بی کا ساتھ دیں، سہولتیں بہتر ہوں گی تو اس سے پاکستان میں گراس روٹ پر فیلڈنگ کا معیار بڑھے گا۔
ایکسپریس: پاکستان میں کوچنگ کی پیشکش ہو توقبول کرینگے؟
جونٹی رہوڈز: اگر پی سی نی نے ایسی کوئی پیشکش کی تب ہی سوچوں گا،کوچنگ میں آپ کو نتائج چاہیے ہوتے ہیں،پاکستان کی فیلڈنگ میں خاصی بہتری آئی ہے اور اب چند اچھے فیلڈرز موجود ہیں،اگر میں نے کہیں بھی کچھ کوچنگ کا کام کیا تو آپ نتائج بھی دیکھیں گے، اینڈی رابرٹس بھی دنیا میں جہاں موقع ملے کوچنگ کے خواہشمند ہیں، ہم سب کھیل سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
ڈیمین مارٹن
ایکسپریس: ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
ڈیمین مارٹن:میں ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کو پسند کرتا ہوں، یہ ٹیسٹ کرکٹ کا مستقبل ہے، ہم نے آسٹریلیا میں اسے آزمایا، اصل مسئلہ درست گیند کی تلاش کا ہے، اگر وہ مل گئی اور پلیئرز کھیلنے کے عادی ہو گئے تو پھر یہ تجربہ کامیاب رہے گا۔
ایکسپریس: کراچی کے بارے میں عام تاثر منفی سا ہے، مگر آپ آسٹریلیا سے یہاں آئے، ساحل سمندر اور سپر مارکیٹس میں بھی گئے؟
ڈیمین مارٹن: مجھے کراچی بہت اچھا لگا، مغربی دنیا میں ہم خبریں دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کراچی بہت خطرناک جگہ ہے، مگر جب یہاں آیا تو بہترین مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، یہاں ہر کوئی کرکٹ سے محبت کرتا ہے اور ہم سے ہر کوئی بہت اچھے انداز سے ملا، انٹرنیشنل کرکٹرز یہاں آئیں تو بہت اچھا محسوس کریں گے جیسا کہ ہم آئے تو بہترین تجربہ ہوا، ہم یہاں دوبارہ آنا بھی پسند کریں گے۔
ایکسپریس: آپ کی نظر میں پاکستان کا بہترین بولر کون ہے؟
ڈیمین مارٹن: وسیم اکرم اور وقار یونس میرے پسندیدہ پیسرز تھے، ثقلین مشتاق بہترین پاکستانی اسپنر رہے ہیں، سب سے آگے میں وسیم کو ہی رکھوں گا۔
ایکسپریس:کیا نیا ٹیلنٹ حوصلہ افزا نظر آیا؟
ڈیمین مارٹن: پاکستان میں مجھے نئے ٹیلنٹ کو دیکھنے کا موقع ملا، یہاں باصلاحیت بچے موجود ہیں جن کے ساتھ مزید وقت گذاریں تو کھیل میں نکھار آئے گا، میں نے یہاں مختلف شہروں سے آنے والا بالکل نیا ٹیلنٹ دیکھا ان پلیئرز کو مواقع ملیں تو یقیناً آگے آئیں گے،ان کے ساتھ کوچز کو وقت گذارنے کی ضرورت ہے، جو خامیاں دور کریں گے تو کیا پتا مستقبل میں ملک کیلئے خدمات انجام دینے کے بھی قابل بن جائیں۔ ہمیں پاکستان میں 24 پلیئرز ملے جن میں سے 2 کو آسٹریلیا بھیجا جائے گا، میں پہلی بار پرائیوٹ سیکٹر کی کسی ایسی سرگرمی میں شریک ہوا، ایسے ہی اقدامات سے پاکستان کرکٹ مزید ترقی کرے گی۔
ایکسپریس:پاکستان کرکٹ کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
ڈیمین مارٹن: پاکستان ٹیم مکی آرتھر کی کوچنگ میں درست سمت میں گامزن ہے، حال ہی میں ٹیسٹ نمبر ون بنی اور اب دوسری پوزیشن پر ہے،ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ کھیلنے کے باوجود کارکردگی کا معیار برقرار رکھنا دشوار تھا مگر پاکستان نے ایسا کیا، ٹیم اچھا کھیل پیش کر رہی ہے اور اس کے پاس معیاری ٹیلنٹ بھی موجود ہے۔
اینڈی رابرٹس
ایکسپریس: کراچی کا دورہ کیسا رہا؟
اینڈی رابرٹس: ماضی میں جب کبھی کراچی آیا تو ہوٹل سے گراؤنڈ ہی آنے جانے کا موقع ملا، اب پہلی باریہاں سیروتفریح اور شاپنگ بھی کی، یہاں بہت اچھے مقامات موجود ہیں، کئی جگہ میں گیا مگر چند وقت کی کمی کے سبب رہ بھی گئیں، پہلی بار مجھے یہاں آ کر لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، جیسی سیکیورٹی ہمیں ملی اگر وہی غیرملکی ٹیموں کو بھی دی جائے تو ضرور ان کو پاکستان آ کر کھیلنا چاہیے۔
ایکسپریس: نو عمر کرکٹرز میں کیسی صلاحیتیں دیکھیں؟
اینڈی رابرٹس: میں نے پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کو دیکھا، بعض کرکٹرز میری توقعات پر پورا نہیں اترے لیکن چند نے بیحد متاثر کیا، انھیں اگر درست رہنمائی فراہم کی جائے تو اچھے فرسٹ کلاس کرکٹرز بن سکتے ہیں جو مستقبل میں ملک کی نمائندگی کے بھی قابل ہوںگے۔
ایکسپریس: کرکٹ کی تاریخ میں بہترین بولرز کن کو سمجھتے ہیں؟
اینڈی رابرٹس: انٹرنیشنل کرکٹ میں ڈینس للی اور میلکم مارشل سے بہتر بولرز کبھی نہیں آئے، وسیم اکرم اور عمران خان بھی بہت اچھے تھے، مگر وسیم کو میں نے صرف ٹی وی پرہی دیکھا اس لیے ان کے بارے میں بالکل درست تجزیہ نہیں کر سکوں گا، موجودہ پاکستانی فاسٹ بولرز میں سے کون سب سے اچھا ہے اس بارے میں کچھ کہنا میرے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ محمد عامر 5 برس بعد کرکٹ میں واپس آئے ہیں، ابھی ان میں ماضی جیسی بات نہیں آ سکی، البتہ مزید میچز کھیلنے سے یقیناً فارم واپس آئے گی، اگر آپ 6 ماہ بعد مجھ سے یہ سوال دوبارہ پوچھیں گے تو شاید میرا جواب محمد عامر ہو۔
ایکسپریس: ویسٹ انڈین بولنگ میں ماضی جیسا دم خم نہیں رہا، اس کی کیا وجہ ہے؟
اینڈی رابرٹس: 70اور80 کی دہائی کے ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز میں بہت کمٹمنٹ اور ٹیم کے لیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہوتا تھا، وہ طویل القامت بھی تھے، مگر اب کرس گیل اور پولارڈ جیسے لمبے کرکٹرز بیٹسمین ہیں،گذشتہ 10 برس میں ویسٹ انڈیز نے جو معیاری فاسٹ بولرز پیدا کیے وہ جیروم ٹیلر، فیڈل ایڈورڈز اور ٹینو بیسٹ تھے، یہ سب 5فٹ 9 انچ کی قامت کے حامل ہیں، میرے خیال میں یہ بڑا مسئلہ تھا، یہ تیز بولنگ کر سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کتنے وقت تک ایسا کرنے کے قابل رہتے۔
ایکسپریس: آج کی کرکٹ پیسرز کے لیے مشکل نہیں ہوگئی؟
اینڈی رابرٹس: اوور میں ایک باؤنسر کی اجازت فاسٹ بولرز کے ساتھ غیر منصفانہ تھی،گوکہ اب اسے 2 تک بڑھا دیا گیا مگر اب بولرز پر بہت زیادہ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں،اگر آپ جدید دور کی ون ڈے کرکٹ دیکھیں تو بولرز کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کھیل مکمل طور پر بیٹسمین کے حق میں چلا گیا ہے۔
ایکسپریس: کیریبیئن کرکٹ کے زوال کی کیاوجوہات ہیں؟
اینڈی رابرٹس: اب میں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ کو زیادہ فالو نہیں کرتا کیونکہ اس کا معیار ماضی جیسا نہیں رہا، کھلاڑی سخت محنت کی کوشش نہیں کرتے، ان کی زیادہ دلچسپی کھیل کی مختصر طرز میں ہے جہاں کم وقت میں زیادہ ڈالرز کمائے جا سکتے ہیں، جس طرح کراچی میں ابھی ٹرائلز کا انعقاد ہوا، میں امید ہی کر سکتا ہوں کہ ایسا ویسٹ انڈیز میں بھی ہو تاکہ نیا ٹیلنٹ تو سامنے آئے۔
ایکسپریس: ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
اینڈی رابرٹس: جلد یا بدیر ڈے نائٹ ٹیسٹ تو ہونے ہی ہیں، موجودہ دور میں صرف انگلینڈ یا پھر آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچز کے دوران زیادہ کراؤڈ آتا ہے،1970میں جب میں بھارت گیا تو کولکتہ میں ٹیسٹ کے دوران تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، جتنے لوگ گراؤنڈ میں تھے ان سے زیادہ باہر موجود تھے،آسٹریلیا میں بھی اس دور میں 95 ہزار کا کراؤڈ بھی میچ دیکھنے آیا، اب ایسا نہیں ہے،شائقین کو لانے کے لیے ڈے نائٹ ٹیسٹ جیسے اقدامات ضروری ہیں۔
ایکسپریس: آپ کے پسندیدہ بیٹسمین کون سے ہیں؟
اینڈی رابرٹس: سنیل گاوسکر، ویوین رچرڈز اور بیری رچرڈز میرے پسندیدہ بیٹسمین تھے، گیری سوبرز اورگریم پولاک بھی ٹاپ کلاس کرکٹرز تھے،انھوں نے خطرناک فاسٹ بولرز کا بھی جوانمردی سے سامنا کیا، جدید دور میں کھلاڑی دفاعی سازوسامان سے لیس ہوتے ہیں اور بیٹنگ آسان بن گئی ہے، اسی کے ساتھ ماضی جیسے پیسرز بھی اب موجود نہیں رہے۔
ڈینی موریسن
ایکسپریس: آپ کا پاکستان میں تجربہ کیسا رہا؟
ڈینی موریسن: پاکستان آکر بہت اچھا لگا، نئے دوست بھی بنانے کا موقع ملا، مجھے کراچی بہت پسند آیا،خوشی ہے یہاں پرائیوٹ سیکٹر بھی کرکٹ کے فروغ کے لیے آگے آ رہا ہے، پاکستان میں کرکٹ کا بہت ٹیلنٹ ہے جس کی کچھ جھلک مجھے اپنے دورے کے دوران بھی دیکھنے کو ملی،جو پلیئرز منتخب ہوئے انھیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا جس سے وہ اپنے خواب پورے کر سکیںگے، مستقبل میں بھی مجھے موقع ملا تو یہاں آ کر نئے ٹیلنٹ کی تلاش میں ضرور مدد فراہم کروں گا۔
ایکسپریس: کیا آپ بھی ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کے حامی ہیں؟
ڈینی موریسن: میں ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ کا بڑا حامی ہوں، کھیل کو شائقین کے لیے مزیددلچسپ بنانے کی ضرورت ہے، فلڈ لائٹس میں پنک گیند سے میچ دیکھنے کے لیے یقینا لوگ وقت نکال پائیں گے اور ٹیسٹ کرکٹ کا مستقبل بہترہوگا۔
اینڈی رابرٹس
ویسٹ انڈین کرکٹ کا بام عروج تک پہنچانے والے کرکٹرز میں سے ایک ہیں، انہوں نے مائیکل ہولڈنگ، جوئیل گارنر اور کولن کرافٹ کے ہمراہ حریف ٹیموں کے ناک میں دم کئے رکھا،برق رفتاری،خطرناک باؤنسر اور بیٹسمینوں کی نفسیات سے کھیلنے کا ہنر رکھنے والے اس پیسر 1974سے 1983تک محیط کیریئر کے دوران 47ٹیسٹ میچز میں 25.61کی اوسط سے 202شکار کئے، بہترین بولنگ 54رنز کے عوض 7وکٹ رہی،56ون ڈے مقابلوں میں انہوں نے 20.35کی ایوریج سے 87کو پویلین کی راہ دکھائی،بہترین کارکردگی 22رنز کے بدلے میں 5وکٹ رہی، نوجوان پیسرز آج بھی ان کی ویڈیوز دیکھ کر بولنگ کے گر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈینی موریسن
نیوزی لینڈ کی جانب سے ون ڈے کرکٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے دوسرے بولر ڈینی موریسن اپنے منفرد ایکشن اورمہلک آؤٹ سوئنگر کی وجہ سے مشہور تھے،انہوں نے 1987میں ڈیبیو کرنے کے بعد اپنے 10سالہ کیریئر میں کئی بار حریفوں کو حیران و پریشان کیا، پیسر نے 48ٹیسٹ میچز میں 34.68کی اوسط سے 160شکار کئے،بہترین بولنگ 89رنز کے عوض 7وکٹ رہی،ون ڈے کرکٹ میں انہوں نے 27.53کی ایوریج سے 126کو پویلین کی راہ دکھائی،بہترین کارکردگی 34رنز کے بدلے میں 5وکٹ رہی،ریٹائرمنٹ کے بعد آسٹریلیا میں سکونت پذیر ہونے کے بعد وہ منفرد لب و لہجہ کی بدولت مبصر کی حیثیت سے بھی خاص مقام حاصل کرچکے ہیں۔
ڈیمین مارٹن
کلاسیکی تکنیک اور شاندار سکوائر کٹ کی وجہ سے پہچانے جانے والے آسٹریلوی مڈل آرڈر بیٹسمین ڈیمین مارٹن کبھی کبھار بولنگ کرنے والے میڈیم پیسر بھی تھے، 1992سے 2006تک انٹرنیشنل کیریئر میں کئی یادگار اننگز کھیلنے والے کرکٹر کی فیلڈنگ بھی لاجواب تھی،انہوں نے 67ٹیسٹ میچز میں 46.37کی اوسط سے 13سنچریز اور 27ففٹیز سمیت 4406رنز بنائے،سب سے بڑی اننگز 165کی کھیلی، ون ڈے کرکٹ کے 208مقابلوں میں انہوں نے 40.80کی ایوریج سے 5346رنز جوڑے،5سنچریز اور 37ففٹیز بھی شامل ہیں،زیادہ سے زیادہ سکور 144ناٹ آؤٹ رہا، کیریئر کے بہترین سال 2004میں ڈیمین مارٹن نے 1608رنز بنائے،2بار مین آف دی سیریز رہے۔
جونٹی رہوڈز
ورلڈ کپ 1992میں شاندار ڈائیو لگا کر انضمام الحق کو رن آؤٹ کرکے شہرت پانے والے جونٹی رہوڈز کو آج تک دنیائے کرکٹ کا بہترین فیلڈر قرار دیا جاتا ہے، مچھلی کی طرح فضا میں تیرتے ہوئے کئی یادگار کیچ تھامنے والے پروٹیز کرکٹر قابل بھروسہ مڈل آرڈر بیٹسمین بھی تھے، انہوں نے 52ٹیسٹ میچز میں 35.6کی اوسط سے 2532رنز بنائے ہیں،3سنچریز اور 17ففٹیز شامل تھیں،زیادہ سے زیادہ سکور 117رہا، ون ڈے کرکٹ میں انہوں نے 245مقابلوں میں 35.11کی ایوریج سے 5935رنز جوڑے،2تھری فیگر اننگز اور 33نصف سنچریز بھی شامل تھیں،زیادہ سے زیادہ سکور 121رہا،2003 میں ریٹائر ہونے والے جونٹی رہوڈز نے ٹیسٹ میں 34اور ون ڈے میں 105کیچ بھی تھامے ہیں۔