سرپرائز لیٹ نہ کریں
کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا اور کون جانتا ہے کہ قطرے کے گہر ہونے تک کیا گزرے گی۔
BANGALORE:
وفاقی وزیر خورشید شاہ کا یہ انکشاف تو کچھ زیادہ اہم نہیں کہ اسمبلیاں قبل از وقت ٹوٹ سکتی ہیں کیونکہ یہ اطلاعات حکومتی ذرائع نجی سطح پر دیتے آرہے ہیں کہ الیکشن مارچ،اپریل میں ہو جائیں گے۔ ایسا تبھی ہو گا جب اسمبلیاں مدت سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ٹوٹ جائیں اور ایک ڈیڑھ ماہ کا فرق ایسا ہے بھی نہیں جسے بہت اہم کہا جا سکے۔ جمہوری ملکوں میں اتنی مدت پہلے الیکشن کو بھی بروقت الیکشن مانا جاتا ہے اور اتنی مدت بعد بھی ان کا یہ انکشاف اہم ہے کہ حکومت اور مسلم لیگ (ن) نگراں وزیر اعظم کے بارے میں سرپرائزدینے والی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان نگراں وزیر اعظم کے تقرر کے بارے میں جو خفیہ مذاکرات جاری تھے، وہ کامیاب رہے ہیں۔ خبر اچھی ہے لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ سرپرائز دینے میں دیر نہ کی جائے کیونکہ دیر کرنے سے کسی اور طرف سے سرپرائز آنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
کہیں اور سے سرپرائز کی بات اب خیالی رہی ہے نہ ''مفروضاتی'' جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں توں توں احتساب' ووٹرلسٹوں' کرپشن وغیرہ کو بنیاد بنا کر لکھے جانے والے کالموں اور ٹاک شوز کی گنتی بڑھتی جا رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ایسے عوامل کا اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے جو ''کپ اور لب'' کے درمیان فاصلہ بڑھا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کل بھی عدالت کے یہ ریمارکس سامنے آئے کہ بلدیاتی الیکشن نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلدیاتی انتخابات نہ کرا کے صوبائی حکومتوں نے غلط کیا لیکن اس کی کچھ وجوہات بھی تھیں، اب جو شکل سامنے آئی ہے، اس میں امکان ہے کہ اگر عدالت نے بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم دے دیا تو فوری انتخابات معرض التوا میں ڈالے بغیر اور کوئی صورت نظر نہیں آئے گی۔ کراچی میں نئی حلقہ بلندیوں اور انتخابی فہرستوں کی درستگی کا عمل بالکل صحیح ہے لیکن اگر اس مطالبے نے زور پکڑ لیا کہ یہ عمل سارے ملک میں کیا جائے تو کیا ہو گا۔ ویسے مجھے تو کراچی کی حد تک بھی یہ کام لمبا نظر آتا ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے وہ یہ کام مقررہ وقت میں کرے گا لیکن اصل میں تو کام شروع ہونے کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے کہ اس میں کتنا وقت لگے گا ع
کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا اور کون جانتا ہے کہ قطرے کے گہر ہونے تک کیا گزرے گی۔ جب یہ عمل شروع ہو گا تو کراچی میں کچھ غیر متوقع واقعات بھی ہو سکتے ہیں اور یہ واقعات بڑھ بھی سکتے ہیں۔ اسی دوران ایک خاموش پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ لندن میں پولیس نے متحدہ کے دفتر پر چھاپہ مارا ہے۔ متحدہ نے اس چھاپے کی تردید کی ہے لیکن تردید اپنی جگہ وہاں کچھ نہ کچھ اہم بات ہوئی ہے۔ اہم بات نہ ہوتی تو پاکستان کے دفتر خارجہ کو متحدہ کی حمایت میں بیان جاری نہ کرنا پڑتا۔ اس خاموش پیش رفت سے کئی کہانیوںکو جوڑا جا رہا ہے اور یہ قیاس آرائی ایک اہم تجزیہ نگار نے ٹی وی پر یہ کہہ کر بیان کی کہ کچھ سیاسی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ شہر بدستور متحدہ کے پاس ہی رہے گا لیکن کچھ چہرے بدل جائیں گے۔ اگر یہ کہانیاں درست ہیں تو دل نہیں مانتا کہ یہ تبدیلیاں بالکل سکون سے' منصوبے کے مطابق ہو جائیں گی اور کہیں پتہ تک نہیں ہلے گا۔ کراچی کی صورتحال ایسی نازک ہے کہ اب فوجی آپریشن بھی کچھ اس قسم کا ہو گا جیسے ڈاکٹر حضرات مریض کے لواحقین سے یہ تحریر لکھوا لیتے ہیں کہ یہ آپریشن ہم اپنے رسک پر کرا رہے ہیں۔ مریض نہ بچ سکا تو ڈاکٹر کی کوئی ذمے داری نہ ہو گی۔ ماضی کے آپریشن بھی ناکام ہوئے۔ حالانکہ تب کیس بہت سادہ تھا۔ اب تو صورتحال دن بدن پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
اب کراچی میں صرف متحدہ ہی نہیں حقیقی بھی ہے' اے این پی بھی ہے، اس کے علاوہ طالبان بھی ہیں۔ شیعہ اور سُنّی سیاسی جماعتیں بھی بن چکی ہیں۔ انتہا پسند بھی ہیں' غیرملکی ایجنٹ بھی ہیں' جرائم پیشہ مافیاز بھی ہیں۔ جو اپنی لغت میں خود سیاسی جماعتیں بن چکے ہیں۔ کارروائی کس کے خلاف ہو گی؟ کسے پکڑا جائے گا؟ کسے چھوڑا جائے گا؟ کسے رعایت دی جائے گی؟ کسے سلطانی گواہ بنایا جائے گا؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کراچی میں حلقہ بندیاں ہوں یا ٹارگٹڈ آپریشن۔ اس کی شروعات کیسے ہو گی اور شروعات ہو گی تو اسے سمیٹا کیسے جائے گا۔
اب ''تازہ ترین خوشخبری'' یہ ہے کہ مولانا طاہر القادری بیرون ملک سے یہ نعرہ لے کر آرہے ہیں کہ سیاست نہیں ملک بچائو۔ مولانا بہت عالم فاضل آدمی ہیں۔ انھیں میرے جیسا کم علم تو یہ بتا نہیں سکتا کہ ملک بچانا بھی سیاست ہی کا حصہ ہے۔ بہرحال ان کے نعرے کا مطلب واضح ہے۔ ملک بچانا ہے تو کچھ عرصے کیلیے سیاست کو ایک طرف رکھنا پڑے گا۔ ایک طرف سے مراد کولڈ اسٹوریج ہے۔ سیاست کتنا عرصہ تک کولڈ اسٹوریج میں یا ڈیپ فریزر میں ر ہے گی، اس سوال کا جواب فہرستوں والے کالموں میں آ چکا ہے۔ یعنی تین سال بعد برف کا تودہ جمہوریت کے فریزر سے نکلے گا تو ''گرم'' ہو سکے گا یا نہیں' اس سوال کی باری بعد میں آئے گی۔
پہلے تو یہ سوال اُٹھے گا کہ یہ تین سال تین سال ہی رہیں گے، تین کے دس یا تین کے تیرہ تو نہیں کیے جائیں گے اور اس آپریشن سہ سالہ کے بعد مریض کا کیا بنے گا۔ لواحقین کو وصیت یا تو لکھ دینی چاہیے یا لکھوا دینی چاہیے، باقی اللہ خیر کرے گا۔
بہرحال یہ سارا منظر بدل جانے کی توقع کی جا سکتی ہے اگر حکومت اور مسلم لیگ ن اپنا سرپرائز جلد پردے سے باہر لے آئیں۔ یہ آپریشن ''سہ سالہ'' کو روکنے کی گارنٹی تو نہیں دے سکے گا لیکن اس سے ''مسیحائوں'' کے حوصلے قدرے پست ضرور ہو جائیں گے۔