بھولی بسری آوازیں
آج سے ستر اسی سال پہلے اس موجودہ ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا
آج سے ستر اسی سال پہلے اس موجودہ ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن انسان تو ہر حال میں اپنی تفریح کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے بلکہ سائنسی طور پر اس بات کا تجزیہ کیا جا چکا ہے کہ انسان کام کرتے ہوئے گانا کیوں گاتا ہے، ملاح کسان، راہ چلنے والے، جانور چرانے والے اکثر گاتے رہتے ہیں تو اس کا تجزیہ سائنسی طور پر یہ کیا گیا ہے کہ کام کرتے ہوئے جو تھکن ہو جاتی ہے یہ دراصل جسم میں کاربن کے اضافے کا اور آکسیجن کی کمی کا باعث ہوتا ہے چنانچہ انسان لاشعوری اور فطری طور پر گا کر اس کاربن کو خارج کرتا ہے اور آکسیجن کی کمی پوری کرتا ہے، چنانچہ گانا انسان ابتداء ہی سے گاتا چلا آ رہا ہے۔ آج کل تو یہ چیز ہر چیز کی طرح کمرشل ہو گئی ہے لیکن پہلے انسان کی ضرورت ہوتی تھی، ہماری یادداشت کی بات ہے بلکہ اب بھی کہیں کہیں یہ سلسلہ جاری ہے کہ گاؤں کے لوگ کسی جگہ اکٹھے ہو کر رباب اور گھڑے کے ذریعے یہ شغل کرتے تھے۔
پھر پیشہ ور لوگ بھی پیدا ہو گئے جو شادی بیاہ میں گا بجا لیا کرتے تھے۔ لیکن پھر اچانک ترقی کا سیلاب آ گیا اور طرح طرح کے وسائل ان نغموں کو ریکارڈ کرنے لگے، ابتداء میں بجلی نہ تھی تو بیٹری کے ذریعے کالے ریکارڈز پر نغمے ثبت کیے جاتے تھے جنھیں ہاتھ سے چابی دے کر چلایا جاتا تھا اور یہی وہ زمانہ ہے جب ہر زبان میں ایک اچھی خاصی تعداد نغموں کی ریکارڈ ہونے لگی، اس کے بعد ریڈیو آیا ٹیلی ویژن آ گیا اور اب تو بہت کچھ آ چکا ہے لیکن وہ موسیقی جو ان کالے ریکارڈز میں محفوظ کی گئی تھی آہستہ آہستہ مفقود ہونے لگی بلکہ بہت زیادہ اب مفقود بھی ہو چکی ہے۔ عین ممکن تھا کہ وہ سارا قیمتی سرمایہ تلف ہو جاتا، دوسری زبانوں کا تو علم نہیں ہے لیکن پشتو میں اس پر اچھا خاصا کام ہو چکا ہے ۔
جس کا سہرا ویسے تو ریڈیو پاکستان کے سر جاتا ہے کہ اس نے بھولی بسری آوازوں کا ایک مستقل پروگرام شروع کیا اور اسے حاجی محمد اسلم خان کے حوالے کیا جسے خود اس کام سے بے پناہ دل چسپی تھی چنانچہ پروگرام چند دستیاب گانوں سے شروع ہو گیا اور اس میں سننے والوں سے اپیل کی جاتی تھی کہ اگر کسی کے پاس وہ پرانے ریکارڈز ہوں تو ہمیں بتا دیں ہم خود آ کر ان کو ریکارڈ کر لیں گے، ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے پاس یہ پرانے ریکارڈ تھے وہ خود بھی اس کے قدر دان ہی ہوتے تھے کوئی عام آدمی تو ایسی چیزیں محفوظ نہیں رکھتا ان لوگوں کو اس پروگرام کے ساتھ تعاون کرنے میں کوئی دقت نہیں تھی۔
اس طرح اسلم خان نے اپنی ذاتی دلچسپی کے ساتھ گاؤں گاؤں اور گھر گھر پھر کر یہ بھولا بسرا سرمایہ اکٹھا کیا، بے شک ریڈیو پاکستان پشاور کا کردار اس کام میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے اگر وہ اس پروگرام کو شروع نہ کرتا اور پھر سولہ سترہ سال تک نہ چلاتا تو کسی کو خبر بھی نہ ہوتی اور ایک قیمتی سرمایہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا لیکن حاجی اسلم خان نے بھی اس کام کو اپنا کام سمجھ کر ذمے لے لیا، لوگوں کے پاس اپنے خرچے پر پہنچنا اور ایک ایک ریکارڈ ڈھونڈنا کچھ آسان کام نہ تھا کیونکہ یہ سرمایہ کسی ایک جگہ یا ایک شہر یا چند اشخاص کے پاس نہ تھا بلکہ پورے صوبے بلکہ دہلی، کلکتہ اور انگلستان تک بکھرا ہوا تھا، کیونکہ اس زمانے کی ریکارڈنگ کمپنیاں ہزماسٹر وائس بانگا فون اور دوسری کمپنیاں وہاں ہوا کرتی تھیں جہاں وہ خود نہیں پہنچ سکتا تھا، وہاں مختلف ذرایع استعمال کر کے مواد اکٹھا کرتا اور محفوظ کرتا، اچھی بات یہ ہے کہ ریڈیو یا ٹی وی کا پروگرام تو ایک دن کی عمر رکھتا ہے پھر ہوا کے دوش پر ہواؤں میں مل جاتا ہے لیکن حاجی محمد اسلم خان نے اب اپنے اس سارے کام ساری محنت اور ساری معلومات کو ایک کتاب کی صورت بھی دے ڈالی، ''تیرھیر آوازونہ'' یعنی بھولی بسری آوازیں ایک ایسا مرقع ہے جس میں جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا ماضی کو زندہ کیا گیا ہے۔
اسلم خان کے مطابق بھولی بسری آوازوں کے ریکارڈز اس نے ہزاروں کی تعداد میں نہ صرف اکٹھے کیے ہیں بلکہ انھیں جدید آلات حتیٰ کہ کمپیوٹر پر بھی منتقل کر دیا ہے، یہ صرف ایک عام کتاب نہیں ہے بلکہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کے ذریعے ماضی کا ایک پورا دور سامنے آ جاتا ہے اور وہ لوگ چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے جو اپنے اپنے دور کے اسٹار تھے جن کی شہرت اور مقبولیت کے ڈنکے بجتے تھے لیکن اب کوئی انھیں جانتا تک نہیں، کتاب میں ان فنکاروں کے صرف تذکرے ہی نہیں بلکہ ان کی نہایت ہی نایاب تصاویر بھی ہیں۔
یہ اسلم خان کی شرافت اور دیانت ہے کہ اس نے اس کام میں ہمارا بھی جگہ جگہ ذکر کیا ہے اور یہ بار بار دہرایا ہے کہ ہم نے اسے ریڈیو اور ٹی وی پر متعارف کرایا ہے اور قدم قدم پر اس کی رہنمائی کی ہے حالانکہ یہ ایسی کوئی بڑی بات نہیں ہم نے اور بھی بہت سارے لوگوں کو دریافت کیا اور آگے بڑھایا ہے حتیٰ کہ ٹیلی ویژن پروڈیوسروں کی اچھی خاصی تعداد بھی ہم نے ڈھونڈی ہے اور آگے بڑھائی ہے لیکن ان میں جب وہ صلاحیت نہیں تھی تو صرف نوکری کر کے اور پنشن لے کر جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے بلکہ اکثر کی تو خود ہم نے لاتیں کھائی ہیں لیکن یہ خوبی صرف اسلم خان میں تھی کہ تھوڑا سا پُش کرنے کی ضرورت تھی باقی اس میں اپنی خوبی اور صلاحیت تھی جو اس کی کامیابی کا باعث بنی۔ یعنی مٹی خود بڑی زرخیز تھی اور اسے ذرا سا نم کرنے کی ضرورت تھی، ہمیں اسکول کے زمانے کا ایک حقیقہ یاد آ رہا ہے ہمارے پرائمری استاد بٹیرے پالنے کے بڑے شوقین تھے اور خود پکڑتے بھی تھے چنانچہ بٹیروں کے سیزن میں وہ ہم چار پانچ لڑکوں کو ساتھ لے کر بٹیر پکڑنے جاتے تھے۔
یہ قصہ ہم نے اسے لیے سنایا کہ بہت سارے لوگ پڑھتے ہیں لکھتے ہیں لیکن جن میں صلاحیت نہیں ہوتی وہ کبھی آگے بڑھ نہیں پاتے اور صلاحیت والوں کو تھوڑا سا سہارا چاہیے ہوتا ہے، اسلم خان کے اندر بھی صلاحیت ہے لگن ہے شوق ہے اس لیے یہ کارنامہ کر پایا، ہمارے خیال میں اگر وہ شاعر ہوتا اور اپنے دس دیوان بھی شایع کرتا تو اس سے کچھ بھی بننے والا نہیں تھا لیکن اس ایک کتاب نے اسے بہت کچھ بنا دیا ہے، آخر میں ایک بات یاد آئی کتاب میں پہلا نام گوہر کلکتے والی کا ہے جو اصلاً تو افغانستان کی تھی لیکن ہندوستان میں جا کر نامور ہو گئی اس زمانے میں لندن تک بھی ہو آئی تھی اس نے اردو پشتو اور فارسی کے کافی گیت گائے ہیں اور بے پناہ روپیہ اور نام کمایا تھا اور ہمارے خیال میں یہ وہی گوہر تھی جس نے اکبر الہ آبادی سے شکایت کی تھی کہ آپ نے کبھی میرا ذکر کسی شعر میں نہیں کیا ہے مجھ پر بھی کچھ لکھ دیں نا... تب اکبر الہ آبادی نے وہ مشہور شعر کہا تھا کہ
خوش نصیب اور یہاں کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا