صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروانِ حسینؓ

آخری نبیؐ حضرت محمدؐ محبوب خدا، وجہ بنائے کائنات نے کیا کیا صعوبتیں نہیں اٹھائیں


Saeed Parvez October 10, 2016

آخری نبیؐ حضرت محمدؐ محبوب خدا، وجہ بنائے کائنات نے کیا کیا صعوبتیں نہیں اٹھائیں، کئی کئی دن کے فاقے، مگر صبر و شکر کے ساتھ اپنا کام جاری۔آج دنیا کے سب سے بڑے انسان کیروضے اور ان کی قائم کردہ مسجد میں سونا ہی سونا نظر آتا ہے یا عمدہ قالین۔ مقام فکر ہے کہ زندگی میں حضرت محمدؐ کا سونا چاندی، ہیرے موتی، عمدہ قالینوں کا ساتھ لمحہ بھر کو بھی نہیں رہا۔ ان کے ہاں تو پھٹا پرانا بوریا بستر یا چٹائی، جس کے نشانات ان کے جسم پر نمایاں ہوجاتے تھے، تکیہ کہاں، اینٹ یا پتھر کو تکیہ بنا لیتے۔ ''کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا/ اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام۔'' یہی سب کچھ حسینؓ کو اپنے نانا سے ملا اور انھوں نے اسے اپنا مقصد حیات بنالیا۔

نبی آخر الزماں کے نواسے، باب العلم حضرت علیؓ کے فرزند، آغوش مادر، حضرت فاطمہؓ، یہ سب حوالے اپنی جگہ، مگر بات آخر وہیں پر آتی ہے کہ خود حضرت امام حسینؓ کا کردار۔ یہی کردار ہے کہ آج بھی دنیا (مسلم یا غیر مسلم) ان کی معترف ہے۔

امام حسینؓ نے باطل کے خلاف حق و صداقت کا علم بلند کرتے ہوئے وہ تمام قربانیاں دے ڈالیں، انسان جن کے تصور سے لرز جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی لازوال قربانیوں سے آیندہ آنے والوں کے لیے آسانیاں فراہم کردیں۔ فاصلے مختصر کردیے۔ جالب کا شعر ہے:

سچ کی راہوں میں جو مر گئے ہیں
فاصلے مختصر کر گئے ہیں

حضورؐ کی زندگی میں بھی منافقین اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے تھے۔ حضورؐ کے بعد انھوں نے خوب کل پرزے نکالے، جس کا سب سے بڑا ثبوت چار صحابہ کرام میں سے تین کا شہید ہونا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے علاوہ تین صحابی حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو شہید کیا گیا۔ حضرت امام حسینؓ تک پہنچتے پہنچتے حالات گمبھیر ہوچکے تھے۔

نبی آخر الزماں حضرت محمدؐ نے اپنے کردار سے جو شمع رسالت روشن کی تھی، آخری خطبے میں جو الفاظ حضور نے ادا کیے تھے، انھوں نے موجود لوگوں سے کہا تھا کہ ''میرا آخری پیغام ان لوگوں تک پہنچانا آپ کا کام ہے۔'' حضرت امام حسینؓ نے یہی کام کیا اور نبی آخر الزماں کا آخری پیغام لے کر یزید کی طرف روانہ ہوگئے۔ یزید اسلام کی شکل بدلنے کے درپے تھا، وقت کے تمام دولت والے، بڑے منصب و مقام والے یزید کے ساتھ تھے۔ یزید حرف باطل تھا اور حسین حرف حق۔ علی سردار جعفری کا شعر لکھتے ہوئے آگے بڑھوں گا:

ہے ہمیشہ سے یہی فسانہ پست و بلند
حرف باطل زیب منبر، حرف حق بالائے دار

فرعون، نمرود، شداد وغیرہ یہ سب حرف باطل تھے، آخر مٹ گئے۔ پیغمبر زندہ ہیں، پیغمبروں کو بھی صعوبتیں ہی ملیں۔

حسینؓ زندہ رہ جانے والا کردار ہے۔ اور یہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ حسینؓ کے راستے پر چلنا آسان نہیں ہے۔ مگر اس عظیم کردار کی حرمت کا تو ہمیں خیال رکھنا چاہیے۔ حسینؓ کا انسانیت سے عشق بہت بڑا واقعہ ہے۔ اس عظیم کردار کا عشر عشیر بھی ہم اپنا لیں تو موجودہ وقت کیظالموں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ تمام اشرافیہ ظالم حکمرانوں کے ساتھ ہیں۔غریبوں کو بھوکوں ترسا رہے ہیں۔ آج کوئی حر نہیں ہے جو یزید کے لشکر کو چھوڑ کر حسینؓ کے ساتھ آ ملے اور کربلا کے میدان کا پہلا شہید ہونے کا رتبہ حاصل کرلے۔ صاحبو! آج حسینؓ کو اسی طرح یاد کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک واقعہ درج کرنا چاہتا ہوں۔ جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں نواب مظفر علی قزلباش وزیر خزانہ تھے۔ یہ وہی نواب صاحب ہیں جن کی حویلی اندرون موچی گیٹ سے تاریخی ذوالجناح برآمد ہوتا ہے۔ موصوف نواب صاحب کا ایک بار جالب صاحب سے آمنا سامنا ہوگیا، جالب صاحب نے ان کو آواز دے کر بلایا اور کہا ''میں حسینؓ کا ماننے والا ہوں، شعر سنو!''

صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروان حسینؓ
یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے

جالب صاحب کو نواب صاحب کا وزیر ہونا برا لگا تھا مگر یہ تو ہے۔ جنرل ضیا کی مجلس شوریٰ کا بھی یہی حال تھا اس سے پہلے کی فوجی وغیر فوجی حکومتوں میں ''تمام'' شامل تھے۔

اوپر جو شعر لکھا ہے اس سے پہلے دو شعر اور بھی ہیں:
جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے
مرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے
ہوائیں لاکھ چلیں میرا رخ بدلنے کو
مگر نگاہ میں وہ سرزمین آج بھی ہے
اور ''سلام'' کے عنوان سے جالب ہی کے چار اشعار:
ٹھہرے گا اب نہ ظلم مقابل حسینؓ کے
اب ہم ہنسیں گے، روئیں گے قاتل حسینؓ کے
ہر دور کے یزید سے نفرت رہی ہمیں
ہم سے کہاں ہیں دہر میں قائل حسینؓ کے
مجھ کو یقیں ہے اہلِ ستم کی شکست پر
گاتا رہے گا گیت مرا دل حسینؓ کے
روشن رہے گا مثلِ دوپہر ان کا نام
جو لوگ قافلے میں تھے شامل حسینؓ کے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں