مقبوضہ کشمیر میڈیا پر جبر کے سائے
تمام بھارتی ہتھکنڈوں اور خفیہ اداروں کی کڑی نگرانی کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے میڈیا نے ہمت نہیں ہاری ہے
BANNU:
تمام بھارتی ہتھکنڈوں اور خفیہ اداروں کی کڑی نگرانی کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے میڈیا نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ شاباش دینی چاہیے کشمیری اخبار نویسوں کو جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنے منصب کا پرچم تھام رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے تین درجن کے قریب اخبارات شایع ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر انگریزی اخبار ہیں لیکن اچھے اُردو اخبارات بھی چھپ رہے ہیں۔
گریٹر کشمیر، رائزنگ کشمیر اور کشمیر ریڈر یہاں کے ممتاز اور معروف اخبارات میں شمار ہوتے ہیں۔ دہلی کی ہمیشہ سے کوشش اور تمنا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے اخبارات اور صحافیوں کو اپنے تابع فرمان رکھا جائے لیکن یہ تمنا کم کم ہی پوری ہوتی ہے۔ دہلی کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنے ارادوں میں ناکام رہنے کے بعد کشمیری صحافیوں کو داروگیر اور پسِ دیوارِ زنداں کے عذابوں میں مبتلا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی؛ چنانچہ یہ سلسلہ درازسے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ جولائی 2016ء کے وسط میں سرینگر اور نئی دہلی کے باہمی گٹھ جوڑ سے مقبوضہ کشمیر کے تمام اخبارات بیک جنبشِ قلم بند کر دیے گئے تھے۔ تمام کشمیری اخباری برادری نے یک مُشت ہو کر اس ظلم کے خلاف سخت احتجاج تو کیا لیکن محبوبہ مفتی اور نریندر مودی کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔ اور جب ساری مغربی دنیا نے بھارت پر پھٹکار بھیجی تو تین دنوں کے بعد اس جبر اور ظالمانہ پابندیوں سے نجات ملی۔
ابھی اس آزمائش سے جان چھوٹی ہی تھی کہ ایک اور انکشاف سامنے آ گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک معروف صحافی، نصیر احمد، نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دہلی کے جس معروف نجی ٹی وی سے وابستہ ہیں، اُسکی انتظامیہ کا اصرار ہے کہ کشمیری حریت پسندوں کے بارے میں ایسی جعلی ڈاکومنٹری موویز بنائی جائیں جن کی بنیاد پر کشمیری حریت پسندوں کی کردار کشی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں اُنہیں سب سے پہلی اسائنمنٹ شہید برہان مظفروانی کے بارے میں ملی اور حکم دیا گیا کہ ثابت کرنا ہے کہ برہان وانی کے ایک کشمیری لڑکی سے ناجائز تعلقات استوار تھے۔ اور جب نصیر احمد نے یہ کام کرنے سے انکار کیا تو اُنہیں ملازمت سے جبری فارغ کر دیا گیا۔ اٹھارہ سالہ صحافیانہ ملازمت کے بعد اُنہیں بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ دونوں واقعات جبر کی آخری کہانی نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے مقبوضہ کشمیر میں اخبار نویسوں پر بھارتی جبر کا سلسلہ کبھی نہیں ختم ہونے والا۔ اکتوبر 2016ء کے پہلے ہفتے سرینگر اور دہلی کے حکمرانوں کی ملی بھگت سے ایک بار پھر کشمیری میڈیا پر جبر کی بجلی گرا دی گئی۔ اس بار جبر کا یہ کوڑا سرینگر سے شایع ہونے والے انگریزی روزنامہ ''کشمیر ریڈر'' پر برسا۔ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے اخبار مذکور پر الزام لگایا کہ ''اس میں ایسا مواد شایع ہو رہا ہے جسکی وجہ سے امنِ عامہ میں خلل بھی پڑ رہا ہے اور کشمیریوں کی زندگی کا سکون بھی برباد ہو رہا ہے۔''
اخبار مذکور کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 2 اکتوبر کی شام سرینگر کے مجسٹریٹ کا حکم نامہ لے کر پانچ پولیس والے دفتر آئے اور اخبار کے مالک، پرنٹر، پبلشر اور ایڈیٹر سے کہا کہ اخبار آج سے نہیں چھپ سکے گا ''کیونکہ اخبار شیطانی اور شرارت کا مرکز بن گیا ہے۔'' یہ ایک صریح ظالمانہ اقدام تھا لیکن حکم ماننے کے سوا بھی کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ اس سے قبل ''کشمیر ریڈر'' کے خلاف کوئی شکایت بھی نہیں تھی، اس کے باوجود اُسے ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی کٹھ پتلی انتظامیہ کی خواہش بس یہی تھی کہ کشمیری صحافت پر خوف اور بے یقینی کے سائے منڈ لاتے رہیں اور کشمیری اخبار نویس آزادانہ ماحول میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام نہ ہی دے سکیں۔
اس جبریہ فضا کے باوصف بھارتی اور کشمیری حکمرانوں کی تمنائیں پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ اس پابندی پر کشمیری صحافی برادری زیادہ اس لیے بھی حیرت زدہ رہ گئی کہ ''کشمیر ریڈر'' نسبتاً ایک نیا اخبار ہے۔ یہ پانچ سال پہلے سرینگر سے لانچ کیا گیا تھا۔ حاجی حیات محمد بھٹ اس کے بانی اور ہلال احمد میر اس کے ایڈیٹر ہیں۔
گوتم نولکھا، نجیب مبارکی، معظم محمد بھٹ اور پرویز بخاری ایسے معتبر کالم نگار اور اخبار نویس اس سے وابستہ ہیں۔ اِسے پابندِ سلاسل کرنے کے لیے بے بنیاد الزامات گھڑے گئے۔ سی این این نے ان الزامات اور پابندیوں پر اپنا سخت احتجاج ریکارڈ کرایا۔ حیرت خیز بات مگر یہ بھی ہے کہ کشمیری میڈیا پر آئے روز جبر اور زیادتی کے کوڑے برس رہے ہیں لیکن بھارت کا سیکولر میڈیا احتجاج کرنے اور مظلوموں کا ساتھ دینے کے بجائے، خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ کیسا ستم ہے کہ کشمیری صحافیوں کو اپنی مظلوم آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے بھی بھارتی میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے؛ چنانچہ ''کشمیر ریڈر'' کے ایڈیٹر، ہلال میر، کو بھی یہی بیساکھی استعمال کرنا پڑی۔ اُنہوں نے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ظلم کی کہانی بھارتی اخبار ''دی انڈین ایکسپریس'' میں سنائی ہے۔
ہلال میر نے اپنے آرٹیکل میں لکھا: ''ہمارے اخبار، کشمیر ریڈر، کی بندش کا حکم نامہ سرینگر کے مجسٹریٹ فاروق احمد لون کی طرف سے جاری کیا گیا جو تین دن کی تاخیر سے ہمیں موصول ہوا۔ متعلقہ افسر اس تاخیر کی وضاحت کرنے سے انکاری ہیں۔ لون صاحب کا کہنا ہے کہ حکومتی ایجنسیوں اور معتبر سرکاری ذرایع کی شکایات کے بعد ''کشمیر ریڈر'' کے خلاف اقدام کیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے اخبار کو تو گزشتہ لمبے عرصے سے کشمیری حکومت کے انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی شکایت تک موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں مجسٹریٹ صاحب کے ''معتبر سرکاری ذرایع'' کے بارے میں کیا کہا جائے؟ سرکاری مؤقف کو ہم نے ہمیشہ اپنے اخبار میں نمایاں جگہ دی ہے لیکن یہ تازہ ترین فیصلہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ اسی طرح کا فیصلہ رواں برس جولائی کے مہینے میں بھی کیا گیا تھا جسے بعد ازاں حکومت کو عالمی دبائو پر شرمندگی سے واپس لینا پڑا تھا۔ رواں لمحات میں جب کہ پورا کشمیر شدید بحران کی زد میں ہے، ہمارے چھوٹے سے اخبار کو پابندِ سلاسل کرنا ظالمانہ اقدام سے بھی بدتر فیصلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ (کٹھ پتلی) وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی زبانی اور عملی طور پر ظلم پر ظلم ڈھا رہی ہیں۔ ڈھائی ماہ قبل جب کشمیر کے ہر شہر میں نوجوان قتل کیے جا رہے تھے، محبوبہ مفتی نے دلآزار بیان دیتے ہوئے کہا تھا: 'کیا یہ بچے (مقتولین) وہاں ٹافیاں لینے گئے تھے؟' کیا اُن کے یہ الفاظ (مقبوضہ) کشمیر میں آگ لگا رہے ہیں یا ہمارا اخبار باعثِ فساد بن رہا ہے؟ سرینگر اور دہلی کے حکمرانوں نے کشمیریوں کے صبر کا مسلسل امتحان لیا ہے اور اب تو اُن سے ہر امید چھین لی گئی ہے۔ پچھلے نوے دنوں میں نوے کشمیری شہید کر دیے گئے، دس ہزار شدید زخمی ہیں، سات سو نوجوان بھارتی پیلٹ بندوقوں سے اندھے ہو چکے ہیں، آٹھ ہزار کشمیری زیرِ حراست ہیں، حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے پرویز خرم ایسے لاتعداد افراد کو بدنامِ زمانہ ''پبلک سیفٹی ایکٹ'' کے تحت جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے، لوگوں کے گھر مسمار کیے جا رہے ہیں، پکی فصلیں نذرِ آتش کر دی گئی ہیں، لوگوں کو بجلی کی سہولت سے محروم کرنے کے لیے برقی ٹرانسفارمروں کو پُراسرار ہاتھوں نے جگہ جگہ نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے میں کشمیری امید اور زندگی کا چراغ کہاں ڈھونڈنے جائیں؟ کیا ہم بطور اخبار نویس ان سب واقعات کی رپورٹنگ نہ کریں؟ اگر ہم بد دیانتی، سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہم کشمیریوں کا اعتبار کھو بیٹھیں گے۔'' دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے ہلال میر نے مزید یوں لکھا: ''کشمیر میں (بھارت کے خلاف) اُٹھی ناراضی اورغصے کی لہروں کی ذمے داری پاکستان، حریت پسندوں، بھارت نواز عناصر کے مخالفین، مساجد اور انسانی حقوق کے پاسداروں پر ڈالنے (میں ناکامی) کے بعد اب حکومت کا نزلہ کشمیری میڈیا پر گرنے لگا ہے۔ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے حکومت کشمیری میڈیا پر جبر و تعدی کے نئے ہتھکنڈے آزمانے لگی ہے۔ ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ حکومت کو (اپنے گناہوں اور جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے) کشمیری میڈیا میں سے قربانی کا کوئی بکرا نہیں ملے گا۔ ہرگز نہیں۔'' ہلال میر کی جرأتوں کو سلام پہنچے۔ خدا اُنہیں استقامت بھی بخشے۔
ہم تو کشمیری اخبار نویسوں کو درپیش سنگین ریاستی مسائل و مصائب اور جبر کا محض اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جبرو تشدد کے ماحول میں کام کرنے والے کشمیری صحافی ہماری تحسین، اعانت اور شاباش کے مستحق ہیں۔ اللہ بھی اُن سب کا حامی و ناصر ہو ۔
تمام بھارتی ہتھکنڈوں اور خفیہ اداروں کی کڑی نگرانی کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے میڈیا نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ شاباش دینی چاہیے کشمیری اخبار نویسوں کو جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنے منصب کا پرچم تھام رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے تین درجن کے قریب اخبارات شایع ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر انگریزی اخبار ہیں لیکن اچھے اُردو اخبارات بھی چھپ رہے ہیں۔
گریٹر کشمیر، رائزنگ کشمیر اور کشمیر ریڈر یہاں کے ممتاز اور معروف اخبارات میں شمار ہوتے ہیں۔ دہلی کی ہمیشہ سے کوشش اور تمنا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے اخبارات اور صحافیوں کو اپنے تابع فرمان رکھا جائے لیکن یہ تمنا کم کم ہی پوری ہوتی ہے۔ دہلی کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنے ارادوں میں ناکام رہنے کے بعد کشمیری صحافیوں کو داروگیر اور پسِ دیوارِ زنداں کے عذابوں میں مبتلا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی؛ چنانچہ یہ سلسلہ درازسے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ جولائی 2016ء کے وسط میں سرینگر اور نئی دہلی کے باہمی گٹھ جوڑ سے مقبوضہ کشمیر کے تمام اخبارات بیک جنبشِ قلم بند کر دیے گئے تھے۔ تمام کشمیری اخباری برادری نے یک مُشت ہو کر اس ظلم کے خلاف سخت احتجاج تو کیا لیکن محبوبہ مفتی اور نریندر مودی کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔ اور جب ساری مغربی دنیا نے بھارت پر پھٹکار بھیجی تو تین دنوں کے بعد اس جبر اور ظالمانہ پابندیوں سے نجات ملی۔
ابھی اس آزمائش سے جان چھوٹی ہی تھی کہ ایک اور انکشاف سامنے آ گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے ایک معروف صحافی، نصیر احمد، نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دہلی کے جس معروف نجی ٹی وی سے وابستہ ہیں، اُسکی انتظامیہ کا اصرار ہے کہ کشمیری حریت پسندوں کے بارے میں ایسی جعلی ڈاکومنٹری موویز بنائی جائیں جن کی بنیاد پر کشمیری حریت پسندوں کی کردار کشی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں اُنہیں سب سے پہلی اسائنمنٹ شہید برہان مظفروانی کے بارے میں ملی اور حکم دیا گیا کہ ثابت کرنا ہے کہ برہان وانی کے ایک کشمیری لڑکی سے ناجائز تعلقات استوار تھے۔ اور جب نصیر احمد نے یہ کام کرنے سے انکار کیا تو اُنہیں ملازمت سے جبری فارغ کر دیا گیا۔ اٹھارہ سالہ صحافیانہ ملازمت کے بعد اُنہیں بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ دونوں واقعات جبر کی آخری کہانی نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے مقبوضہ کشمیر میں اخبار نویسوں پر بھارتی جبر کا سلسلہ کبھی نہیں ختم ہونے والا۔ اکتوبر 2016ء کے پہلے ہفتے سرینگر اور دہلی کے حکمرانوں کی ملی بھگت سے ایک بار پھر کشمیری میڈیا پر جبر کی بجلی گرا دی گئی۔ اس بار جبر کا یہ کوڑا سرینگر سے شایع ہونے والے انگریزی روزنامہ ''کشمیر ریڈر'' پر برسا۔ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے اخبار مذکور پر الزام لگایا کہ ''اس میں ایسا مواد شایع ہو رہا ہے جسکی وجہ سے امنِ عامہ میں خلل بھی پڑ رہا ہے اور کشمیریوں کی زندگی کا سکون بھی برباد ہو رہا ہے۔''
اخبار مذکور کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 2 اکتوبر کی شام سرینگر کے مجسٹریٹ کا حکم نامہ لے کر پانچ پولیس والے دفتر آئے اور اخبار کے مالک، پرنٹر، پبلشر اور ایڈیٹر سے کہا کہ اخبار آج سے نہیں چھپ سکے گا ''کیونکہ اخبار شیطانی اور شرارت کا مرکز بن گیا ہے۔'' یہ ایک صریح ظالمانہ اقدام تھا لیکن حکم ماننے کے سوا بھی کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ اس سے قبل ''کشمیر ریڈر'' کے خلاف کوئی شکایت بھی نہیں تھی، اس کے باوجود اُسے ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی کٹھ پتلی انتظامیہ کی خواہش بس یہی تھی کہ کشمیری صحافت پر خوف اور بے یقینی کے سائے منڈ لاتے رہیں اور کشمیری اخبار نویس آزادانہ ماحول میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام نہ ہی دے سکیں۔
اس جبریہ فضا کے باوصف بھارتی اور کشمیری حکمرانوں کی تمنائیں پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ اس پابندی پر کشمیری صحافی برادری زیادہ اس لیے بھی حیرت زدہ رہ گئی کہ ''کشمیر ریڈر'' نسبتاً ایک نیا اخبار ہے۔ یہ پانچ سال پہلے سرینگر سے لانچ کیا گیا تھا۔ حاجی حیات محمد بھٹ اس کے بانی اور ہلال احمد میر اس کے ایڈیٹر ہیں۔
گوتم نولکھا، نجیب مبارکی، معظم محمد بھٹ اور پرویز بخاری ایسے معتبر کالم نگار اور اخبار نویس اس سے وابستہ ہیں۔ اِسے پابندِ سلاسل کرنے کے لیے بے بنیاد الزامات گھڑے گئے۔ سی این این نے ان الزامات اور پابندیوں پر اپنا سخت احتجاج ریکارڈ کرایا۔ حیرت خیز بات مگر یہ بھی ہے کہ کشمیری میڈیا پر آئے روز جبر اور زیادتی کے کوڑے برس رہے ہیں لیکن بھارت کا سیکولر میڈیا احتجاج کرنے اور مظلوموں کا ساتھ دینے کے بجائے، خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ کیسا ستم ہے کہ کشمیری صحافیوں کو اپنی مظلوم آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے بھی بھارتی میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے؛ چنانچہ ''کشمیر ریڈر'' کے ایڈیٹر، ہلال میر، کو بھی یہی بیساکھی استعمال کرنا پڑی۔ اُنہوں نے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ظلم کی کہانی بھارتی اخبار ''دی انڈین ایکسپریس'' میں سنائی ہے۔
ہلال میر نے اپنے آرٹیکل میں لکھا: ''ہمارے اخبار، کشمیر ریڈر، کی بندش کا حکم نامہ سرینگر کے مجسٹریٹ فاروق احمد لون کی طرف سے جاری کیا گیا جو تین دن کی تاخیر سے ہمیں موصول ہوا۔ متعلقہ افسر اس تاخیر کی وضاحت کرنے سے انکاری ہیں۔ لون صاحب کا کہنا ہے کہ حکومتی ایجنسیوں اور معتبر سرکاری ذرایع کی شکایات کے بعد ''کشمیر ریڈر'' کے خلاف اقدام کیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے اخبار کو تو گزشتہ لمبے عرصے سے کشمیری حکومت کے انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی شکایت تک موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں مجسٹریٹ صاحب کے ''معتبر سرکاری ذرایع'' کے بارے میں کیا کہا جائے؟ سرکاری مؤقف کو ہم نے ہمیشہ اپنے اخبار میں نمایاں جگہ دی ہے لیکن یہ تازہ ترین فیصلہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ اسی طرح کا فیصلہ رواں برس جولائی کے مہینے میں بھی کیا گیا تھا جسے بعد ازاں حکومت کو عالمی دبائو پر شرمندگی سے واپس لینا پڑا تھا۔ رواں لمحات میں جب کہ پورا کشمیر شدید بحران کی زد میں ہے، ہمارے چھوٹے سے اخبار کو پابندِ سلاسل کرنا ظالمانہ اقدام سے بھی بدتر فیصلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ (کٹھ پتلی) وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی زبانی اور عملی طور پر ظلم پر ظلم ڈھا رہی ہیں۔ ڈھائی ماہ قبل جب کشمیر کے ہر شہر میں نوجوان قتل کیے جا رہے تھے، محبوبہ مفتی نے دلآزار بیان دیتے ہوئے کہا تھا: 'کیا یہ بچے (مقتولین) وہاں ٹافیاں لینے گئے تھے؟' کیا اُن کے یہ الفاظ (مقبوضہ) کشمیر میں آگ لگا رہے ہیں یا ہمارا اخبار باعثِ فساد بن رہا ہے؟ سرینگر اور دہلی کے حکمرانوں نے کشمیریوں کے صبر کا مسلسل امتحان لیا ہے اور اب تو اُن سے ہر امید چھین لی گئی ہے۔ پچھلے نوے دنوں میں نوے کشمیری شہید کر دیے گئے، دس ہزار شدید زخمی ہیں، سات سو نوجوان بھارتی پیلٹ بندوقوں سے اندھے ہو چکے ہیں، آٹھ ہزار کشمیری زیرِ حراست ہیں، حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والے پرویز خرم ایسے لاتعداد افراد کو بدنامِ زمانہ ''پبلک سیفٹی ایکٹ'' کے تحت جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے، لوگوں کے گھر مسمار کیے جا رہے ہیں، پکی فصلیں نذرِ آتش کر دی گئی ہیں، لوگوں کو بجلی کی سہولت سے محروم کرنے کے لیے برقی ٹرانسفارمروں کو پُراسرار ہاتھوں نے جگہ جگہ نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے میں کشمیری امید اور زندگی کا چراغ کہاں ڈھونڈنے جائیں؟ کیا ہم بطور اخبار نویس ان سب واقعات کی رپورٹنگ نہ کریں؟ اگر ہم بد دیانتی، سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہم کشمیریوں کا اعتبار کھو بیٹھیں گے۔'' دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے ہلال میر نے مزید یوں لکھا: ''کشمیر میں (بھارت کے خلاف) اُٹھی ناراضی اورغصے کی لہروں کی ذمے داری پاکستان، حریت پسندوں، بھارت نواز عناصر کے مخالفین، مساجد اور انسانی حقوق کے پاسداروں پر ڈالنے (میں ناکامی) کے بعد اب حکومت کا نزلہ کشمیری میڈیا پر گرنے لگا ہے۔ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے حکومت کشمیری میڈیا پر جبر و تعدی کے نئے ہتھکنڈے آزمانے لگی ہے۔ ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ حکومت کو (اپنے گناہوں اور جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے) کشمیری میڈیا میں سے قربانی کا کوئی بکرا نہیں ملے گا۔ ہرگز نہیں۔'' ہلال میر کی جرأتوں کو سلام پہنچے۔ خدا اُنہیں استقامت بھی بخشے۔
ہم تو کشمیری اخبار نویسوں کو درپیش سنگین ریاستی مسائل و مصائب اور جبر کا محض اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جبرو تشدد کے ماحول میں کام کرنے والے کشمیری صحافی ہماری تحسین، اعانت اور شاباش کے مستحق ہیں۔ اللہ بھی اُن سب کا حامی و ناصر ہو ۔