امریکا کے ملٹی ملین جھانسے اور بھارت
چینی دنیا کی واحد قوم ہے جو فروژن ڈپلومیسی سے کام لیتی ہے
FAISALABAD:
چینی دنیا کی واحد قوم ہے جو فروژن ڈپلومیسی سے کام لیتی ہے، ٹھنڈی ٹھار پالیسی پر عمل کرتی ہے اور برف میں لگے ہوئے فیصلے کرتی ہے۔ ایسے میں غلطی کی کہاں گنجائش؟ یہ تو جذبات کو قریب ہی پھٹکنے نہیں دیتے۔ کیونکہ ان کو پتا ہے کہ انسان مشتعل ہوا نہیں کہ اس کی عقل گئی گھاس چرنے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد جنوبی چین کے سمندر میں جاپانی بحریہ غرق ہوگئی۔ برطانوی بحریہ کا سورج غروب ہوگیا، باقی بچی امریکی بحریہ، سو وہ جنوبی چین کے سمندر سے لے کر بحر ہند تک تھانیداری کرنے لگی۔
اس دوران مائوزے تنگ کی قیادت میں چین پہلے چسکی کے خمار سے نکلا، پھر ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا۔ آج وہ سپر پاور ہے اور ہمارا ملک دہشت گردوں کی جنت اور ہم دہشت گردوں کا ترنوالا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اب چین اپنے جنوبی چین کے سمندر کا (جنوبی امریکا کے سمندر کا نہیں) کنٹرول سنبھالنے کے لائق ہوگیا، جہاں سے 5 کھرب ڈالر کا تجارتی سامان دنیا کی منڈیوں کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ نوشتہ دیوار تو یہ ہے کہ اب امریکا کو جنوبی امریکا کے سمندر کی طرف کوچ کرنا پڑے گا لیکن چچا سام کا نوشتہ تقدیر کیا ہے، یہ تو اوپر والا جانے۔
اس وقت امریکا دنیا کا سب سے زیادہ قرض دار ملک ہے، جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں ہے، افغانستان جیسے ملک میں گوریلا جنگ لڑنے کے لیے قارون کا خزانہ چاہیے اور بھاگنے کے لیے دو قارون کے خزانے۔ ورنہ حشر روس جیسا۔ امریکا کی دو بنیادی صنعتیں تھیں، کار مینوفیکچرنگ اور اسلحہ سازی کی پیداوار اور تجارت۔ کار مینوفیکچرنگ کی صنعت جاپان کو پیاری ہوگئی۔
بچی اسلحہ سازی کی، جس کو چلانے کے لیے امریکا کو اس وقت ایک جنگ عظیم کی یا بڑی جنگوں کے جمعہ بازار کی بڑی سخت ضرورت ہے۔ ویسے منہ زبانی دنیا میں امن کا بول بالا امریکا کا فرض اور عملاً مہلک اسلحے کی تجارت امریکا کا پیشہ ہے، جس کے لیے وہ دنیا کی ملٹی بلین آبادی کو ملٹی ملین جھانسے دیتا رہتا ہے۔ توڑ جوڑ کی سیاست، توڑ پھوڑ کی حکمت عملی سے کام لیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جنوبی چین کے سمندر اور بحر ہند کو جنگ عظیم سوم کا اکھاڑہ بنانے کی تیاری تو نہیں ہو رہی ہے؟ اس وقت دو اہم گروپ ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ A: امریکا، فلپائن، بھارت اور B: چین، روس، پاکستان۔ اور ممکنہ میدان جنگ جنوبی چین کا سمندر یا جنوبی ایشیا کے ممالک۔
A: امریکی اشارے پر فلپائن نے ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا تھا کہ چین نے جنوبی چین کے سمندر میں (جنوبی امریکا کے نہیں) ناجائز مصنوعی جزیرے تعمیر کر رہا ہے۔ عدالت نے چین کے اس اقدام کو غلط قرار دے دیا۔ اس کے فوری بعد امریکی صدر بارک اوباما نے چین کو خبردار کیا کہ وہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز نہ کرے۔ جواباً چین کے وزیراعظم نے فرمایا ''چین ''آسیان'' کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے (امریکا نہیں) تاکہ بیرونی (یعنی امریکی) مداخلت کا خاتمہ ہو۔'' جنوبی چین کے سمندر میں امن کا قیام خطے کے ممالک کے مفاد میں ہے اور چین ہی پائیدار امن کی ضمانت دے سکتا ہے (کیونکہ وہ اس خطے کا واحد طاقتور ترین ملک ہے)۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق امریکا کے پرانے حلیف فلپائن کے نئے منتخب صدر روڈیکو جنھوں نے جولائی میں اپنے عہدے کا چارج لیا ہے، امریکی صدر بارک اوباما کو ''بازاری عورت کا بیٹا'' کہہ کر مخاطب کرکے امریکا فلپائن خارجہ تعلقات میں بھونچال پیدا کردیا، جس کے بعد آفٹر شاکس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلا جھٹکا ''امریکا سے فوجی تعاون ختم بھی کیا جاسکتا ہے، نہ صرف دہشت گردی کے خلاف بلکہ جنوبی چین کے سمندر کی نگرانی (تھانیداری) کے تعلق سے بھی۔'' دوسرا جھٹکا ملاحظہ کیجیے ''روس اور چین سے دفاعی اور معاشی تعلقات بھی بڑھائے جاسکے ہیں'' وغیرہ۔
بے چارے امریکا کے لیے متعصب ذہن، متلون مزاج اور منہ پھٹ صدارتی امیدوار مسٹر ٹرمپ کیا کم تھے کہ اب ان کے ''جڑواں'' فلپائنی منتخب صدر روڈیکو بھی گلے پڑگئے۔ ادھر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی اسی سانچے کے ڈھلے ہیں، جو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کو صد فی صد ہندوتوا (ہندومت) کی ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
امریکی اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار بھارت امریکا کے ملٹی ملین جھانسوں میں پھنسا ہوا ہے۔ چین کو اپنی اوقات میں رکھنے، پاکستان کو اپنا تابعدار بنانے، بحر ہند کا تھانیدار بننے کو بے چین ہے۔
1962 سے پہلے جب بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور چین کے وزیراعظم چواین لائی تھے، اس وقت چینی بھارتی بھائی بھائی کے نعرے لگتے تھے، جس کی بنیاد ''پنج شیلا'' تھی یعنی ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت۔ لیکن اس کی آڑ میں ہوا کیا؟ چینی علاقہ تبت میں بغاوت کرائی گئی، جو ناکام ہوئی۔ دلائی لامہ (بدھسٹ بھکشو) نے بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ تبت میں چینی فوجوں کا بھارتی فوجوں سے تصادم ہوا اور چینی فوج بھارتی فوج کو کوہ ہمالیہ کی چوٹی سے بھگاتی ہوئی لاکر فیفا میں چھوڑ گئی۔ پنڈت نہرو کے لیے یہ شرمناک شکست جان لیوا ثابت ہوئی۔ اسی دوران چین نے پاکستان سے کہا تھا کہ اپنا مقبوضہ کشمیر واپس لے لیں، لیکن ایوب خان امریکی جھانسے میں آگئے۔ آج بھارت پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے جس کے دریا کشمیر سے نکلتے ہیں، سی پیک پر اعتراض کر رہا ہے کیونکہ وہ متنازعہ علاقے گلگت بلتستان سے گزرتی ہے۔
اس وقت سفارتی گہماگہمی کے ساتھ ساتھ فوجی سرگرمیوں میں بھی اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔ پچھلے مہینہ جنوبی چین کے سمندر میں پہلی مرتبہ روس اور چین کی مشترکہ بحری جنگی مشقیں اور پاکستان میں روس پاکستان کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں۔ جواباً امریکا اور بھارت نے بھی ریاست اترکھنڈ میں مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔
اس خطے میں ایک سابق سپر پاور (روس) ایک حاضر سپر پاور (چین) اور ایٹمی طاقت پاکستان ایک پیج پر ہیں، کیونکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک تینوں کے آن اور بان کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ جب کہ امریکی حلیف بھارت خطے کا سپرپاور بننے کے لیے روایتی اسلحے کے ڈھیر لگا رہا ہے امریکا بیچ رہا ہے بھارت خرید رہا ہے۔ جواباً پاکستان ایٹمی اسلحہ (ایٹم بم نہیں) کے ڈھیر لگا رہا ہے تاکہ وقت پڑنے پر ''سو سنار کی ایک لوہار کی'' والا فارمولا استعمال کرے۔ مختصراً سی پیک کی وجہ سے خطے کی چار ایٹمی طاقتوں میں سے تین ایٹمی طاقتیں ایک پیج پر جب کہ ایک ایٹمی طاقت بھارت ''تتھا'' ہے اور یہ تقسیم جب تک سی پیک قائم ہے، مستقل ہے۔
دوسری مرتبہ میری دعا اور دعویٰ یہ ہے کہ ہندوتوا (ہندومت) کے پجاری بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مزید ایک ٹرم کے لیے منتخب ہوجائیں۔ نتیجتاً ہندوتوا کا خواب پورا ہو یا نہ ہو لیکن بھارت سے سیکولرازم کا جنازہ ضرور نکل جائے گا۔ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور کشمیر پاکستان کی جھولی میں۔ کیوں کیسے؟
حقیقت یہ ہے کہ ہندوتوا اور سیکولر جمہوریت ساتھ ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔ یہ دو متضاد رویے ہیں، کثیر القومی، کثیر اللسانی۔ بھارت کو نریندر مودی ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں جو صرف سیکولر جمہوریت کے سہارے قائم ہے۔ کیونکہ خود ہندو مذہب اونچ نیچ اور چھوت چھات کا نظام ہے۔ متعصب آدمی تنگ نظر متلون مزاج اور منہ پھٹ ہوتا ہے۔ نریندر مودی کے توسط سے جو ''ہندوتوا'' بھارت میں جلوے دکھا رہا ہے وہ گاؤ ماتا کے تقدس، اس کے پیشاب کی حرمت اور اس کے گوبر کی افادیت پر منحصر ہے، یعنی جس نے بھی گاؤ ماتا کے شامی کباب بنانے کی جرأت کی وہ قابل گردن زدنی۔
اڑی (LOC) کے فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرکے 17 فوجیوں کو ہلاک کرنے والے چار دہشت گردوں کے مبینہ طور پر کھانے پینے کے سامان میں بسکٹ کے پیکٹ پائے گئے، جو پاکستانی پروڈکٹ ہے۔ فوراً چاروں کو پاکستانی قرار دے دیا گیا اور الزام حسب معمول پاکستان کے سر تھوپ دیا گیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیر کی نوجوان نسل سڑکوں پر موجود ہے۔
سات لاکھ فوج کی موجودگی میں کرفیو کے نفاذ کو ڈھائی ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا۔ عید کی نماز کے لیے وقفہ تک نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود جلوس نکل رہے ہیں، لاشیں گر رہی ہیں، کھلے بندوں پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں، شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر کھلے میدانوں میں نماز جنازہ پڑھائی جا رہی ہے۔ لیکن مجال ہے کوئی مائی کا لعل پاکستانی پرچم لہرانے والوں کو، پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر شہیدوں کی نماز جنازہ پڑھانے والوں کو اور پڑھنے والوں کو پاکستانی قرار دے۔ میرا معصوم سا سوال صرف یہ ہے کہ بھارت کا اٹوٹ انگ ایسا ہوتا ہے؟
چینی دنیا کی واحد قوم ہے جو فروژن ڈپلومیسی سے کام لیتی ہے، ٹھنڈی ٹھار پالیسی پر عمل کرتی ہے اور برف میں لگے ہوئے فیصلے کرتی ہے۔ ایسے میں غلطی کی کہاں گنجائش؟ یہ تو جذبات کو قریب ہی پھٹکنے نہیں دیتے۔ کیونکہ ان کو پتا ہے کہ انسان مشتعل ہوا نہیں کہ اس کی عقل گئی گھاس چرنے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد جنوبی چین کے سمندر میں جاپانی بحریہ غرق ہوگئی۔ برطانوی بحریہ کا سورج غروب ہوگیا، باقی بچی امریکی بحریہ، سو وہ جنوبی چین کے سمندر سے لے کر بحر ہند تک تھانیداری کرنے لگی۔
اس دوران مائوزے تنگ کی قیادت میں چین پہلے چسکی کے خمار سے نکلا، پھر ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا۔ آج وہ سپر پاور ہے اور ہمارا ملک دہشت گردوں کی جنت اور ہم دہشت گردوں کا ترنوالا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اب چین اپنے جنوبی چین کے سمندر کا (جنوبی امریکا کے سمندر کا نہیں) کنٹرول سنبھالنے کے لائق ہوگیا، جہاں سے 5 کھرب ڈالر کا تجارتی سامان دنیا کی منڈیوں کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ نوشتہ دیوار تو یہ ہے کہ اب امریکا کو جنوبی امریکا کے سمندر کی طرف کوچ کرنا پڑے گا لیکن چچا سام کا نوشتہ تقدیر کیا ہے، یہ تو اوپر والا جانے۔
اس وقت امریکا دنیا کا سب سے زیادہ قرض دار ملک ہے، جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں ہے، افغانستان جیسے ملک میں گوریلا جنگ لڑنے کے لیے قارون کا خزانہ چاہیے اور بھاگنے کے لیے دو قارون کے خزانے۔ ورنہ حشر روس جیسا۔ امریکا کی دو بنیادی صنعتیں تھیں، کار مینوفیکچرنگ اور اسلحہ سازی کی پیداوار اور تجارت۔ کار مینوفیکچرنگ کی صنعت جاپان کو پیاری ہوگئی۔
بچی اسلحہ سازی کی، جس کو چلانے کے لیے امریکا کو اس وقت ایک جنگ عظیم کی یا بڑی جنگوں کے جمعہ بازار کی بڑی سخت ضرورت ہے۔ ویسے منہ زبانی دنیا میں امن کا بول بالا امریکا کا فرض اور عملاً مہلک اسلحے کی تجارت امریکا کا پیشہ ہے، جس کے لیے وہ دنیا کی ملٹی بلین آبادی کو ملٹی ملین جھانسے دیتا رہتا ہے۔ توڑ جوڑ کی سیاست، توڑ پھوڑ کی حکمت عملی سے کام لیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جنوبی چین کے سمندر اور بحر ہند کو جنگ عظیم سوم کا اکھاڑہ بنانے کی تیاری تو نہیں ہو رہی ہے؟ اس وقت دو اہم گروپ ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ A: امریکا، فلپائن، بھارت اور B: چین، روس، پاکستان۔ اور ممکنہ میدان جنگ جنوبی چین کا سمندر یا جنوبی ایشیا کے ممالک۔
A: امریکی اشارے پر فلپائن نے ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا تھا کہ چین نے جنوبی چین کے سمندر میں (جنوبی امریکا کے نہیں) ناجائز مصنوعی جزیرے تعمیر کر رہا ہے۔ عدالت نے چین کے اس اقدام کو غلط قرار دے دیا۔ اس کے فوری بعد امریکی صدر بارک اوباما نے چین کو خبردار کیا کہ وہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز نہ کرے۔ جواباً چین کے وزیراعظم نے فرمایا ''چین ''آسیان'' کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے (امریکا نہیں) تاکہ بیرونی (یعنی امریکی) مداخلت کا خاتمہ ہو۔'' جنوبی چین کے سمندر میں امن کا قیام خطے کے ممالک کے مفاد میں ہے اور چین ہی پائیدار امن کی ضمانت دے سکتا ہے (کیونکہ وہ اس خطے کا واحد طاقتور ترین ملک ہے)۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق امریکا کے پرانے حلیف فلپائن کے نئے منتخب صدر روڈیکو جنھوں نے جولائی میں اپنے عہدے کا چارج لیا ہے، امریکی صدر بارک اوباما کو ''بازاری عورت کا بیٹا'' کہہ کر مخاطب کرکے امریکا فلپائن خارجہ تعلقات میں بھونچال پیدا کردیا، جس کے بعد آفٹر شاکس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلا جھٹکا ''امریکا سے فوجی تعاون ختم بھی کیا جاسکتا ہے، نہ صرف دہشت گردی کے خلاف بلکہ جنوبی چین کے سمندر کی نگرانی (تھانیداری) کے تعلق سے بھی۔'' دوسرا جھٹکا ملاحظہ کیجیے ''روس اور چین سے دفاعی اور معاشی تعلقات بھی بڑھائے جاسکے ہیں'' وغیرہ۔
بے چارے امریکا کے لیے متعصب ذہن، متلون مزاج اور منہ پھٹ صدارتی امیدوار مسٹر ٹرمپ کیا کم تھے کہ اب ان کے ''جڑواں'' فلپائنی منتخب صدر روڈیکو بھی گلے پڑگئے۔ ادھر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی اسی سانچے کے ڈھلے ہیں، جو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کو صد فی صد ہندوتوا (ہندومت) کی ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
امریکی اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار بھارت امریکا کے ملٹی ملین جھانسوں میں پھنسا ہوا ہے۔ چین کو اپنی اوقات میں رکھنے، پاکستان کو اپنا تابعدار بنانے، بحر ہند کا تھانیدار بننے کو بے چین ہے۔
1962 سے پہلے جب بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور چین کے وزیراعظم چواین لائی تھے، اس وقت چینی بھارتی بھائی بھائی کے نعرے لگتے تھے، جس کی بنیاد ''پنج شیلا'' تھی یعنی ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت۔ لیکن اس کی آڑ میں ہوا کیا؟ چینی علاقہ تبت میں بغاوت کرائی گئی، جو ناکام ہوئی۔ دلائی لامہ (بدھسٹ بھکشو) نے بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ تبت میں چینی فوجوں کا بھارتی فوجوں سے تصادم ہوا اور چینی فوج بھارتی فوج کو کوہ ہمالیہ کی چوٹی سے بھگاتی ہوئی لاکر فیفا میں چھوڑ گئی۔ پنڈت نہرو کے لیے یہ شرمناک شکست جان لیوا ثابت ہوئی۔ اسی دوران چین نے پاکستان سے کہا تھا کہ اپنا مقبوضہ کشمیر واپس لے لیں، لیکن ایوب خان امریکی جھانسے میں آگئے۔ آج بھارت پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے جس کے دریا کشمیر سے نکلتے ہیں، سی پیک پر اعتراض کر رہا ہے کیونکہ وہ متنازعہ علاقے گلگت بلتستان سے گزرتی ہے۔
اس وقت سفارتی گہماگہمی کے ساتھ ساتھ فوجی سرگرمیوں میں بھی اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔ پچھلے مہینہ جنوبی چین کے سمندر میں پہلی مرتبہ روس اور چین کی مشترکہ بحری جنگی مشقیں اور پاکستان میں روس پاکستان کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں۔ جواباً امریکا اور بھارت نے بھی ریاست اترکھنڈ میں مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔
اس خطے میں ایک سابق سپر پاور (روس) ایک حاضر سپر پاور (چین) اور ایٹمی طاقت پاکستان ایک پیج پر ہیں، کیونکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک تینوں کے آن اور بان کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ جب کہ امریکی حلیف بھارت خطے کا سپرپاور بننے کے لیے روایتی اسلحے کے ڈھیر لگا رہا ہے امریکا بیچ رہا ہے بھارت خرید رہا ہے۔ جواباً پاکستان ایٹمی اسلحہ (ایٹم بم نہیں) کے ڈھیر لگا رہا ہے تاکہ وقت پڑنے پر ''سو سنار کی ایک لوہار کی'' والا فارمولا استعمال کرے۔ مختصراً سی پیک کی وجہ سے خطے کی چار ایٹمی طاقتوں میں سے تین ایٹمی طاقتیں ایک پیج پر جب کہ ایک ایٹمی طاقت بھارت ''تتھا'' ہے اور یہ تقسیم جب تک سی پیک قائم ہے، مستقل ہے۔
دوسری مرتبہ میری دعا اور دعویٰ یہ ہے کہ ہندوتوا (ہندومت) کے پجاری بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مزید ایک ٹرم کے لیے منتخب ہوجائیں۔ نتیجتاً ہندوتوا کا خواب پورا ہو یا نہ ہو لیکن بھارت سے سیکولرازم کا جنازہ ضرور نکل جائے گا۔ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور کشمیر پاکستان کی جھولی میں۔ کیوں کیسے؟
حقیقت یہ ہے کہ ہندوتوا اور سیکولر جمہوریت ساتھ ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔ یہ دو متضاد رویے ہیں، کثیر القومی، کثیر اللسانی۔ بھارت کو نریندر مودی ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں جو صرف سیکولر جمہوریت کے سہارے قائم ہے۔ کیونکہ خود ہندو مذہب اونچ نیچ اور چھوت چھات کا نظام ہے۔ متعصب آدمی تنگ نظر متلون مزاج اور منہ پھٹ ہوتا ہے۔ نریندر مودی کے توسط سے جو ''ہندوتوا'' بھارت میں جلوے دکھا رہا ہے وہ گاؤ ماتا کے تقدس، اس کے پیشاب کی حرمت اور اس کے گوبر کی افادیت پر منحصر ہے، یعنی جس نے بھی گاؤ ماتا کے شامی کباب بنانے کی جرأت کی وہ قابل گردن زدنی۔
اڑی (LOC) کے فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرکے 17 فوجیوں کو ہلاک کرنے والے چار دہشت گردوں کے مبینہ طور پر کھانے پینے کے سامان میں بسکٹ کے پیکٹ پائے گئے، جو پاکستانی پروڈکٹ ہے۔ فوراً چاروں کو پاکستانی قرار دے دیا گیا اور الزام حسب معمول پاکستان کے سر تھوپ دیا گیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیر کی نوجوان نسل سڑکوں پر موجود ہے۔
سات لاکھ فوج کی موجودگی میں کرفیو کے نفاذ کو ڈھائی ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا۔ عید کی نماز کے لیے وقفہ تک نہیں دیا گیا۔ اس کے باوجود جلوس نکل رہے ہیں، لاشیں گر رہی ہیں، کھلے بندوں پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں، شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر کھلے میدانوں میں نماز جنازہ پڑھائی جا رہی ہے۔ لیکن مجال ہے کوئی مائی کا لعل پاکستانی پرچم لہرانے والوں کو، پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر شہیدوں کی نماز جنازہ پڑھانے والوں کو اور پڑھنے والوں کو پاکستانی قرار دے۔ میرا معصوم سا سوال صرف یہ ہے کہ بھارت کا اٹوٹ انگ ایسا ہوتا ہے؟