پاک بھارت کشیدگی میں کمی لانے کیلیے خاموشی سے کام جاری
دونوں مشیرسلامتی کی گفتگواس بات پرفوکس تھی اشتعال انگیزبیانات روکنے چاہئیں
ہفتوں کے لفظی جنگ اور بارڈر پر جھڑپوں، جس نے جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایوں کو مکمل فوجی تصادم کے دہانے پر لاکھڑا کیا، کے بعد یہ محسوس کرتے ہوئے کہ جنگ ایک آپشن نہیں، پاکستان اور بھارت بیان بازی کم کرنے پر خاموشی سے کام کر رہے ہیں۔
جب پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں نے 2 اکتوبر کو ایک دوسرے سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان کی گفتگو اس بات پر فوکس تھی کہ کیسے اس شدت کو مزید بڑھانے سے روکا جائے۔ اس پیشرفت سے واقف حکام نے ''ایکسپریس ٹریبیون'' کو بتایا پاکستانی مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ اور ان کے بھارتی ہم منصب اجیت دوول نے اتفاق کیا کہ کشیدگی کے خاتمے کیلیے فریقین کو پہلے اقدام کے طور پر اشتعال انگیز بیانات روکنے چاہئیں۔ تاہم ناصر خان جنجوعہ نے دوول کو بتایا کہ بھارت کے برعکس پاکستان جنگی جنون سے گریز کررہا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ فوجی تصادم کے دونوں ممالک کیلیے تباہ کن نتائج ہوںگے۔
حکام کے مطابق دوول نے ناصر خان جنجوعہ کو یقین دلایا کہ مودی حکومت اس شدت میں کمی لانا چاہتی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائیگا کہ کوئی بھارتی حکام غیرضروری بیانات نہ دیں۔ یہ اس اتفاق کا نتیجہ تھا کہ وزیراعظم نریندرا مودی نے گزشتہ ہفتے اپنی کابینہ کے وزرا کو نام نہاد سرجیکل سٹرائیک پر بات کرنے سے روکا اور ہدایت کی کہ پاکستان سے تعلقات پر صرف متعلقہ وزراء ہی بیانات دیںگے۔ بظاہر ان کا یہ اقدام موجودہ کشیدگی کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لیجانے سے روکنے کی ان کوششوں کا حصہ ہے جب امریکہ نے اسے پاکستان کیساتھ رابطے کے چینل کھولنے پر قائل کیا۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے تصدیق کی ہے کہ دونوں ممالک کے مابین موجودہ تعطل کے خاتمے کیلئے کوششیں جاری ہیںتاہم مستقبل قریب میں بھارت کے جامع مذاکرات کی طرف واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ عبدالباسط نے بتایا کہ سفارتکاری میں دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں اور وہ موجودہ پاک بھارت کشیدگی پر بھارتی حکام سے رابطے میں ہیں۔
فوجی حکام نے بھی بتایا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ایک دوسرے رابطے میں ہیں تاکہ ایل او سی پر جاری کشیدگی کنٹرول سے باہر نہ ہونے دینے کو یقینی بنایا جائے۔ پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے چین کی سرکاری نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین رابطے کے تمام چینل کھلے ہیں۔ عاصم باجوہ نے واضح کیا کہ پاکستان کشیدگی میں شدت نہیں چاہتا مگر سرحد پار سے کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں جواب دینے کیلیے تیار ہے۔ اپنے تجزیے میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ بھارت میں اگلے سال انتخابات ہونیوالے ہیں، وہ اس اہم موقع پر کسی بھی مذاکراتی عمل کی طرف نہیں آئیگا۔ عبدالباسط نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان کے متعلق مودی کی موجودہ پالیسی داخلی مجبوری کے تحت چل رہی ہے۔
تاہم یہاں حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان بحران کے اوقات میں بھی بھارت کیساتھ بامعنی تعلقات چاہتا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید جو کشمیر پر وزیراعظم کے خصوصی ایلچی کے طور پر امریکا کے دورے پر تھے، پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے مودی سے مثبت یوٹرن لینے کی امید رکھتے ہیں۔ ان کی اس امید کی بنیاد یہ ہے کہ امریکا بھارت پر زور دے رہا ہے کہ وہ پاکستان کیساتھ کشیدگی میں شدت لانے سے گریز کرے۔ مشاہد حسین کا خیال ہے کہ مودی دہلی کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں جو پرانی کولڈ وار ذہنیت میں اٹکی ہے بلکہ وہ باہر سے آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا سارک کانفرنس اسلام آباد میں ہوگی، مسٹر مودی آئیگا اور نوازشریف کو گلے لگائیگا۔ میں سمجھتا ہوں مودی محسوس کریگا کہ یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔
جب پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں نے 2 اکتوبر کو ایک دوسرے سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان کی گفتگو اس بات پر فوکس تھی کہ کیسے اس شدت کو مزید بڑھانے سے روکا جائے۔ اس پیشرفت سے واقف حکام نے ''ایکسپریس ٹریبیون'' کو بتایا پاکستانی مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ اور ان کے بھارتی ہم منصب اجیت دوول نے اتفاق کیا کہ کشیدگی کے خاتمے کیلیے فریقین کو پہلے اقدام کے طور پر اشتعال انگیز بیانات روکنے چاہئیں۔ تاہم ناصر خان جنجوعہ نے دوول کو بتایا کہ بھارت کے برعکس پاکستان جنگی جنون سے گریز کررہا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ فوجی تصادم کے دونوں ممالک کیلیے تباہ کن نتائج ہوںگے۔
حکام کے مطابق دوول نے ناصر خان جنجوعہ کو یقین دلایا کہ مودی حکومت اس شدت میں کمی لانا چاہتی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائیگا کہ کوئی بھارتی حکام غیرضروری بیانات نہ دیں۔ یہ اس اتفاق کا نتیجہ تھا کہ وزیراعظم نریندرا مودی نے گزشتہ ہفتے اپنی کابینہ کے وزرا کو نام نہاد سرجیکل سٹرائیک پر بات کرنے سے روکا اور ہدایت کی کہ پاکستان سے تعلقات پر صرف متعلقہ وزراء ہی بیانات دیںگے۔ بظاہر ان کا یہ اقدام موجودہ کشیدگی کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لیجانے سے روکنے کی ان کوششوں کا حصہ ہے جب امریکہ نے اسے پاکستان کیساتھ رابطے کے چینل کھولنے پر قائل کیا۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے تصدیق کی ہے کہ دونوں ممالک کے مابین موجودہ تعطل کے خاتمے کیلئے کوششیں جاری ہیںتاہم مستقبل قریب میں بھارت کے جامع مذاکرات کی طرف واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ عبدالباسط نے بتایا کہ سفارتکاری میں دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں اور وہ موجودہ پاک بھارت کشیدگی پر بھارتی حکام سے رابطے میں ہیں۔
فوجی حکام نے بھی بتایا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ایک دوسرے رابطے میں ہیں تاکہ ایل او سی پر جاری کشیدگی کنٹرول سے باہر نہ ہونے دینے کو یقینی بنایا جائے۔ پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے چین کی سرکاری نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین رابطے کے تمام چینل کھلے ہیں۔ عاصم باجوہ نے واضح کیا کہ پاکستان کشیدگی میں شدت نہیں چاہتا مگر سرحد پار سے کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں جواب دینے کیلیے تیار ہے۔ اپنے تجزیے میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ بھارت میں اگلے سال انتخابات ہونیوالے ہیں، وہ اس اہم موقع پر کسی بھی مذاکراتی عمل کی طرف نہیں آئیگا۔ عبدالباسط نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان کے متعلق مودی کی موجودہ پالیسی داخلی مجبوری کے تحت چل رہی ہے۔
تاہم یہاں حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان بحران کے اوقات میں بھی بھارت کیساتھ بامعنی تعلقات چاہتا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید جو کشمیر پر وزیراعظم کے خصوصی ایلچی کے طور پر امریکا کے دورے پر تھے، پاکستان سے مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے مودی سے مثبت یوٹرن لینے کی امید رکھتے ہیں۔ ان کی اس امید کی بنیاد یہ ہے کہ امریکا بھارت پر زور دے رہا ہے کہ وہ پاکستان کیساتھ کشیدگی میں شدت لانے سے گریز کرے۔ مشاہد حسین کا خیال ہے کہ مودی دہلی کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں جو پرانی کولڈ وار ذہنیت میں اٹکی ہے بلکہ وہ باہر سے آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا سارک کانفرنس اسلام آباد میں ہوگی، مسٹر مودی آئیگا اور نوازشریف کو گلے لگائیگا۔ میں سمجھتا ہوں مودی محسوس کریگا کہ یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔