پاک بھارت بیک ڈور ڈپلومیسی

ایل او سی پر بھارتی فوج نے بھی فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا جس کا پاکستان کی فوج نے بھرپور جواب دیا


Editorial October 11, 2016
۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: اڑی حملے کے بعد پیدا ہونے والی پاک بھارت کشیدگی اور سرحدی تناؤ میں گزشتہ ایک دو روز سے کسی حد تک کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دونوں ممالک کے حکام کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ کشیدگی بڑھتے بڑھتے بات جنگ تک جا پہنچی تو پھر اس خطے میں تباہی کے سوا کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا' لہٰذا دونوں ممالک بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے کشیدگی کم کرنے پر آمادہ دکھائی دے رہے ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے تصدیق کی ہے کہ دونوں ممالک کے مابین موجودہ تعطل کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری تاہم مستقبل قریب میں بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات ہونے کے امکانات بہت کم ہیں' وہ موجودہ پاک بھارت کشیدگی پر بھارتی حکام سے رابطے میں ہیں۔ خبروں کے مطابق پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں تاکہ ایل او سی پر جاری کشیدگی کنٹرول سے باہر نہ ہونے کو یقینی بنایا جائے۔

دونوں ممالک کے حکام کی جانب سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے کشیدگی اور تناؤ کو کم کرنے کی کوششیں خوش آیند ہیں۔ اڑی حملے کے بعد بھارت نے تحقیقات کیے بغیر پاکستان پر اس کا الزام عائد کرتے ہوئے سرحدوں پر جنگی ماحول پیدا کر دیا تھا' وزیراعظم مودی اتنے سرگرم ہوئے کہ انھوں نے عسکری قیادت سے پاکستان پر حملے کے حوالے سے ملاقاتیں شروع کر دیں یہاں تک کہ ایک پورا دن انھوں نے وار کنٹرول روم میں گزارا۔ مودی کی ان سرگرمیوں سے یہ قیاس آرائیاں جنم لینے لگیں کہ بھارت پاکستان سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے' مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کو جدید توپوں ، اسلحے کی فراہمی اور مورچہ بندی سے ان قیاس آرائیوں کو مزید تقویت ملی۔

دوسری جانب ایل او سی پر بھارتی فوج نے بھی فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا جس کا پاکستان کی فوج نے بھرپور جواب دیا۔ بھارت کی طرف سے ملنے والی جنگ کی دھمکیوں کے جواب میں پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت نے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ اگر بھارت نے کوئی ایسی حرکت کی تو اسے اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان کے اس عزم اور حوصلے کے مثبت اثرات پیدا ہوئے ، بھارتی حکومت اور اس کی عسکری قیادت کو یہ احساس ہو گیا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ لڑنا کوئی آسان نہیں اور نہ یہ 65ء اور 71ء کا زمانہ ہے' اب دونوں ممالک ایٹمی قوت بننے کے ساتھ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں اور اگر جدید ترین میزائل اور ایٹمی ہتھیار چلنے کی نوبت آ گئی تو پھر نہ کوئی فاتح ہو گا اور نہ مفتوح' بس ہر طرف تباہی اور بربادی کے مناظر ہوں گے جو بچ جائیں گے وہ بھی زندہ لاشیں بن جائیں گے۔

اس احساس نے دونوں ممالک کی حکومتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ جنگی جنون کو ہوا دینے کے بجائے بات چیت کے ذریعے باہمی تنازعات حل کرنے کی جانب توجہ دیں۔ دونوں ممالک بات چیت کی جانب کب آتے ہیں اس کے بارے میں فی الفور کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن دونوں کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز یہ خیال ظاہر کر چکے ہیں کہ مودی کے ہوتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بریک تھرو کی کوئی امید نہیں۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا اپنے تجزیے میں کہنا ہے کہ بھارت میں اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں اور وہ اس اہم موقع پر کسی بھی مذاکراتی عمل کی طرف نہیں آئے گا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی نے داخلی سطح پر انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ کو کم کرنے اور آنے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جنگی جنون پیدا کرنے کا ڈرامہ رچایا۔ پاکستان بھارت پر بار بار یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ جنگ کے بجائے باہمی تنازعات مذاکرات کے ذریعے سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ چیف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے اتوار کو کنٹرول لائن پر حاجی پیر سیکٹر میں اگلے مورچوں کا دورہ کیا' اس موقع پر انھوں نے اپنے خطاب میں لائن آف کنٹرول پر تعینات فوجیوں کے بلند حوصلے' آپریشنل تیاریوں اور چوکس رہنے پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا۔

چیف آف آرمی اسٹاف کا یہ دورہ بھارت کو واضح پیغام ہے کہ اگر اس نے جنگ مسلط کرنے کی کوئی غلطی کی تو وہ پاکستان کو مکمل تیار پائے گا۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارتی حکومت اپنی سیاسی مہم کو پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلانے کی پالیسی تبدیل کرے۔ خطے کا امن دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے اس کے علاوہ دوسرا راستہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔بہر حال یہ بات طے ہے کہ باہمی مذاکرات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں اور ان کا مقصد تنازعات خصوصاً تنازعہ کشمیر کا حل ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔