پورٹ قاسم پر کوئلے کی برتھوں کی تعمیر
ملکی معیشت کی ترقی اہم ہے لیکن انسانی صحت اور ماحولیات کا بچاؤ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔
پنجاب میں ساہیوال کے مقام پر لگنے والے 660 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کو بطور ایندھن کوئلہ فراہم کرنے کے لیے کراچی میں پورٹ قاسم پر دو برتھیں تعمیر کی جارہی ہیں لیکن ماہرین ماحولیات اور متوشش شہریوں کے تحفظات ہیں کہ بحری جہازوں سے کوئلہ اتارنے اور انھیں ٹرکوں پر لادنے کے عمل کے دوران جو آلودگی پھیلے گی اس سے فائدہ سے زیادہ نقصان ہوگا، اس منصوبے کے ماحولیات پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔
منصوبے کی منظوری سندھ میں ماحولیات کا تحفظ کرنے والی ایجنسی سیپا کے تحت ہونی ہے، امکان یہی ہے کہ ایجنسی اس کی منظوری دے دیگی کیونکہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران وہ اس قسم کے دیگر منصوبوں کی اجازت بھی دے چکی ہے، چنانچہ یہ منصوبہ بھی ماحولیات کو نقصان پہنچائے گا۔ منصوبے کے مخالفین کا خیال ہے کہ سیپا کے پاس نہ تو ایسی ورک فورس ہے جو اتنے بڑے پروجیکٹ کو مانیٹر کرسکے، جب کہ ملک میں قوانین کے کمزور نفاذ اور مانیٹرنگ کی ایک تاریخ موجود ہے، نتیجتاً چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے اور منصوبے کے مضر رساں ہونے کے باعث ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
صنعتی انقلاب کے بعد سے دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے باعث نہ صرف طرح طرح کی بیماریوں نے نوع انسانی کو گھیر لیا بلکہ کرۂ ارض کی حفاظت کرنے والی اوزون سطح کو بھی نقصان پہنچایا۔ ایسے وقت میں جب دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی آلودگی کے خلاف سر جوڑے بیٹھے ہیں، مقامی سطح پر ہمیں بھی چوکنا رہنا ہوگا۔ مذکورہ منصوبے کا ہر پہلو سے جائزہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے، صرف پورٹ قاسم ہی نہیں ملک کے دیگر شہروں میں بھی جہاں آبادی موجود ہے وہاں اس طرح کے پروجیکٹ نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ راست ہوگا کہ اس معاملے پر باقاعدہ ماہرین کی رائے لی جائے، اگر منصوبے میں مضمرات شامل ہیں تو ان کا سدباب کیا جائے۔ ملکی معیشت کی ترقی اہم ہے لیکن انسانی صحت اور ماحولیات کا بچاؤ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔
منصوبے کی منظوری سندھ میں ماحولیات کا تحفظ کرنے والی ایجنسی سیپا کے تحت ہونی ہے، امکان یہی ہے کہ ایجنسی اس کی منظوری دے دیگی کیونکہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران وہ اس قسم کے دیگر منصوبوں کی اجازت بھی دے چکی ہے، چنانچہ یہ منصوبہ بھی ماحولیات کو نقصان پہنچائے گا۔ منصوبے کے مخالفین کا خیال ہے کہ سیپا کے پاس نہ تو ایسی ورک فورس ہے جو اتنے بڑے پروجیکٹ کو مانیٹر کرسکے، جب کہ ملک میں قوانین کے کمزور نفاذ اور مانیٹرنگ کی ایک تاریخ موجود ہے، نتیجتاً چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے اور منصوبے کے مضر رساں ہونے کے باعث ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔
صنعتی انقلاب کے بعد سے دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے باعث نہ صرف طرح طرح کی بیماریوں نے نوع انسانی کو گھیر لیا بلکہ کرۂ ارض کی حفاظت کرنے والی اوزون سطح کو بھی نقصان پہنچایا۔ ایسے وقت میں جب دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی آلودگی کے خلاف سر جوڑے بیٹھے ہیں، مقامی سطح پر ہمیں بھی چوکنا رہنا ہوگا۔ مذکورہ منصوبے کا ہر پہلو سے جائزہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے، صرف پورٹ قاسم ہی نہیں ملک کے دیگر شہروں میں بھی جہاں آبادی موجود ہے وہاں اس طرح کے پروجیکٹ نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ راست ہوگا کہ اس معاملے پر باقاعدہ ماہرین کی رائے لی جائے، اگر منصوبے میں مضمرات شامل ہیں تو ان کا سدباب کیا جائے۔ ملکی معیشت کی ترقی اہم ہے لیکن انسانی صحت اور ماحولیات کا بچاؤ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔