بی جے پی کے زوال کے آثار
انتہا پسند ہندوؤں نے گؤ ماتا کو شروع ہی سے اپنی سیاست کی بنیاد بنایا ہوا ہے
انتہا پسند ہندوؤں نے گؤ ماتا کو شروع ہی سے اپنی سیاست کی بنیاد بنایا ہوا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے گزشتہ عیدالاضحیٰ کے موقعے پر لکھنو میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا۔ ہندوؤں کی انتہا پسند تنظیم کے ایک لے پالک نام نہاد مسلمان نے بکرے کی روایتی قربانی کرنے کے بجائے کیک کاٹ کر قربانی کرنے کی مذموم حرکت کی اور اسے انسانیت کا پیغام پھیلانے سے تعبیرکیا۔
انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ (آر ایم ایم)کے سائے تلے کی جانے والی اس گھناؤنی حرکت کی پورے زور و شور سے تشہیر بھی کی گئی تاکہ دین اسلام سے محبت کرنے والے مسلمانوں کو رسوا بھی کیا جاسکے اور ان کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ شکنی بھی کی جائے۔ لعنت ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جن کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے اور وہ محض چند ٹکوں کی خاطر آر ایس ایس جیسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہیں جس کے ہاتھ بابری مسجد کی بے حرمتی اور ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھیلی جانے والی خون کی ہولی میں رنگے ہوئے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ایک شہرت یافتہ نام کا مسلمان صحافی بھی اس مسلم کش سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے۔
ہندوستان کے مسلم کش فسادات میں گائے کی سیاست کا ابتدا ہی سے بڑا عمل دخل رہا ہے اور بقر عید پر بکرے کے بجائے کیک کی قربانی کی اسلام دشمن مذموم اور گھناؤنی رسم کی بنیاد رکھنے کے پس پشت بھی درحقیقت گؤ ماتا ہی کی مکروہ سیاست کارفرما ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت کے صوبے اترپردیش کے ایک شہر دادری میں ایک مسلمان کو یہ افواہ اڑا کر آر ایس ایس کے غنڈوں نے قتل کردیا تھا کہ اس نے اپنے گھر میں گائے کا گوشت پکوا کر کھایا ہے۔ اس سے قبل مویشیوں کی تجارت کرنے والے کئی مسلمان بیوپاری اس جھوٹے الزام کی بنا پر قتل کردیے گئے تھے کہ وہ گایوں کو ذبح کرنے کے لیے مذبح خانے لے جا رہے تھے۔
نچلی ذات کے ہندوؤں جو عرف عام میں دلت کے نام سے مشہور ہیں اور عملاً اچھوت کہلاتے ہیں، کے ساتھ بھی بی جے پی اور آر ایس والوں کا سلوک اسی طرح سے امتیازی اور نفرت آمیز ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہندوستان کی سائیگی میں ہمیشہ سے شامل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے آئین میں شامل خصوصی تحفظات کے باوجود بے چارے دلت بی جے پی کی حکمرانی میں جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور انھیں ذلت و تحقیر کی نظروں سے دیکھنے کے علاوہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس نوعیت کا تازہ ترین واقعہ گزشتہ دنوں بھارتی صوبہ گجرات میں ایک جگہ پیش آیا جہاں سات نوجوان دلتوں پر سر عام کوڑے برسائے گئے جس کے خلاف مظلوم دلت علم احتجاج بلند کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ان بے چاروں کا قصور صرف اتنا تھا کہ انھوں نے مردہ گایوں کی سڑی ہوئی لاشیں اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے قول اور فعل میں زمین و آسمان کا تضاد ہے۔ وہ گؤ ماتا کی عقیدت کا زبانی اظہار تو کرتے ہیں لیکن ان کے مردہ جسموں کو چھونے تک کو بھی تیار نہیں۔ یہی تضاد اس وقت بھی کھل کر سامنے آیا تھا جب سی ایف اینڈریوز نامی ایک گاندھی نواز انگریز لکھاری نے گاندھی جی سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ اگر اچھوتوں کی چاہت میں انھیں ''ہری جن'' یعنی بھگوان کے خاص بندے کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں تو کیا آپ اپنے چہیتے چیلے پیارے لعل کے خاندان میں اپنے بچوں کا بیاہ کرسکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے کے بجائے گاندھی جی نے چپ سادھ لی تھی کیونکہ پیارے لعل کا تعلق اچھوت برادری سے تھا۔ جنھیں شودر بھی کہا جاتا ہے۔
بھارت کی آئین سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے آئین ساز اسمبلی کے سرگرم رکن ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا بنیادی تعلق بھی اسی برادری سے تھا۔ چنانچہ اس خوف سے کہ کہیں وہ مسلم لیگ کی حمایت نہ کر بیٹھیں اور اچھوتوں کی وجہ سے مسلم لیگ کا پلڑا بھاری نہ ہوجائے، گاندھی جی نے اچھوتوں کو ''ہریجن'' کے خطاب سے نواز کر ایک زبردست سیاسی چال چلی تھی۔ اس کے علاوہ گاندھی جی کو شاید یہ خدشہ بھی لاحق رہا ہو کہ کہیں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے امتیازی رویے اور نفرت آمیز سلوک سے تنگ آکر اسلام قبول نہ کرلیں جوکہ ہر قسم کی تفریق کا مخالف ہے۔
اب جب کہ بی جے پی کی حکمرانی میں مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور انھیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہندوستان کی سیاست میں مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان قربت اور اتحاد کا ایک نیا موڑ آتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی دیگر اقلیتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ قیادت کے فقدان کا شکار ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کی بہ نسبت دلتوں کی قیادت خاصی منظم اور بااثر ہے۔
چنانچہ آر ایس ایس کے ظلم و تشدد کے خلاف ان کا ایک پرچم کے سائے تلے اکٹھا ہوجانا عین ممکن ہے اور مشترکہ دشمن کے خلاف یہ اتحاد بہت موثر ثابت ہوسکتا ہے۔اس سے قبل بی جے پی کی عیار حکومت نے نہ صرف دلت مسلم اتحاد کے قیام میں دوڑے اٹکائے تھے بلکہ گجرات کے مسلم کش فسادات میں دلتوں کو اسی طرح آلہ کار کے طور پر استعمال کیا تھا جس طرح قیام پاکستان کے موقعے پر ہندوؤں نے سکھوں کو مشرقی پنجاب اور دہلی وغیرہ میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا تھا۔ 2002 کے مسلم کش فسادات کے بعد حالات نے ایک نیا رخ اختیار کیا اورگجرات کے دلتوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا جس کے نتیجے میں مسلم دلت ایکتا اور اتحاد کی ایک نئی سوچ نے جنم لیا۔ چنانچہ احمد آباد کے سیوک ورکرز کے حقوق کی جدوجہد میں وہاں کی دلت برادری کو مسلمان کمیونٹی کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔
گجرات کے دلتوں کی تحریک میں وہاں کے مسلمانوں نے اپنے مظلوم ساتھیوں کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے جس نے اس تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور ظلم و ستم کے خلاف بلند ہونے والی صدائے احتجاج میں جان پڑ گئی ہے۔ دلتوں کی پشت پر اب جمعیت العلمائے ہند جیسی دیگر سیاسی تنظیموں نے بھی اپنا ہاتھ رکھ دیا ہے جس سے بی جے پی کی صفوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئی ہیں۔
بی جے پی کو عنقریب پنجاب، اترپردیش (یوپی) اور گجرات میں ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی صورت میں ایک سنگین چیلنج کا سامنا درپیش ہے۔ اگر یہ نیا اتحاد قوت پکڑ گیا تو پھر ان آیندہ انتخابات میں بی جے پی کی خیر نہیں ہوگی۔ پنجاب میں جہاں دلتوں کی آبادی کا تناسب 32 فیصد ہے۔ بی جے پی کو دلتوں کی حمایت درکار ہوگی جس کے بغیر اس کے جیتنے کے لالے پڑ جائیں گے۔ ادھر اتر پردیش (یوپی) میں دلت پارٹی، بی ایس پی کو مایاوتی کی قیادت میں زبردست مقبولیت اور نمایاں سیاسی برتری حاصل ہے اور 2017 میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اس کی فتح کے امکانات روز روشن کی طرح عیاں ہو رہے ہیں۔ دلت مسلم اتحاد کے قوی تر ہوجانے کے امکانات نے وہاں بی جے پی کی صفوں میں زبردست کھلبلی مچا دی ہے۔ مایاوتی کی مسلم حلقوں میں روز بہ روز بڑھتی ہوئی مقبولیت نے بی جے پی کے چھکے چھڑانا شروع کردیے ہیں۔
ان حالات نے بی جے پی میں صف ماتم بچھانا شروع کردی ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ 2014 کے لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے پیچھے دلتوں کی حمایت کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس صورتحال سے گھبرا کر بی جے پی نے پاکستان کا معاملہ اچھالنا شروع کردیا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سیکیرٹری پی مرلی دھر راؤ دلت مسلم اتحاد سے گھبرا کر اس جھوٹے پروپیگنڈے پر اتر آئے ہیں کہ پاکستان میں دلتوں کا استحصال ہو رہا ہے اور ان کی آبادی کم ہو رہی ہے۔
بی جے پی کو آیندہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اپنی شکست کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اور وہ اس صورتحال سے بوکھلا کر ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرسکتی ہے۔ اسے مسلم ووٹوں سے زیادہ دلتوں کے ووٹوں کی فکر ہے جنھیں رام کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ چنانچہ مودی نے جسے موذی کہنا زیادہ بہتر ہوگا اب ایک نیا نعرہ ایجاد کیا ہے کہ ''چاہو تو مجھے گولی ماردو لیکن میرے دلت بھائیوں کو اف بھی نہ کہو۔'' البتہ انتہا پسند آر ایس ایس کے غنڈوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مویشیوں کے مسلم بیوپاریوں کی ہلاکت کے بارے میں جن میں ایک 12 سالہ نو عمر لڑکا بھی شامل تھا مودی کو سانپ سونگھ گیا۔
انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ (آر ایم ایم)کے سائے تلے کی جانے والی اس گھناؤنی حرکت کی پورے زور و شور سے تشہیر بھی کی گئی تاکہ دین اسلام سے محبت کرنے والے مسلمانوں کو رسوا بھی کیا جاسکے اور ان کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ شکنی بھی کی جائے۔ لعنت ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جن کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے اور وہ محض چند ٹکوں کی خاطر آر ایس ایس جیسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہیں جس کے ہاتھ بابری مسجد کی بے حرمتی اور ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھیلی جانے والی خون کی ہولی میں رنگے ہوئے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ایک شہرت یافتہ نام کا مسلمان صحافی بھی اس مسلم کش سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے۔
ہندوستان کے مسلم کش فسادات میں گائے کی سیاست کا ابتدا ہی سے بڑا عمل دخل رہا ہے اور بقر عید پر بکرے کے بجائے کیک کی قربانی کی اسلام دشمن مذموم اور گھناؤنی رسم کی بنیاد رکھنے کے پس پشت بھی درحقیقت گؤ ماتا ہی کی مکروہ سیاست کارفرما ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت کے صوبے اترپردیش کے ایک شہر دادری میں ایک مسلمان کو یہ افواہ اڑا کر آر ایس ایس کے غنڈوں نے قتل کردیا تھا کہ اس نے اپنے گھر میں گائے کا گوشت پکوا کر کھایا ہے۔ اس سے قبل مویشیوں کی تجارت کرنے والے کئی مسلمان بیوپاری اس جھوٹے الزام کی بنا پر قتل کردیے گئے تھے کہ وہ گایوں کو ذبح کرنے کے لیے مذبح خانے لے جا رہے تھے۔
نچلی ذات کے ہندوؤں جو عرف عام میں دلت کے نام سے مشہور ہیں اور عملاً اچھوت کہلاتے ہیں، کے ساتھ بھی بی جے پی اور آر ایس والوں کا سلوک اسی طرح سے امتیازی اور نفرت آمیز ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہندوستان کی سائیگی میں ہمیشہ سے شامل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے آئین میں شامل خصوصی تحفظات کے باوجود بے چارے دلت بی جے پی کی حکمرانی میں جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور انھیں ذلت و تحقیر کی نظروں سے دیکھنے کے علاوہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس نوعیت کا تازہ ترین واقعہ گزشتہ دنوں بھارتی صوبہ گجرات میں ایک جگہ پیش آیا جہاں سات نوجوان دلتوں پر سر عام کوڑے برسائے گئے جس کے خلاف مظلوم دلت علم احتجاج بلند کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ان بے چاروں کا قصور صرف اتنا تھا کہ انھوں نے مردہ گایوں کی سڑی ہوئی لاشیں اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے قول اور فعل میں زمین و آسمان کا تضاد ہے۔ وہ گؤ ماتا کی عقیدت کا زبانی اظہار تو کرتے ہیں لیکن ان کے مردہ جسموں کو چھونے تک کو بھی تیار نہیں۔ یہی تضاد اس وقت بھی کھل کر سامنے آیا تھا جب سی ایف اینڈریوز نامی ایک گاندھی نواز انگریز لکھاری نے گاندھی جی سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ اگر اچھوتوں کی چاہت میں انھیں ''ہری جن'' یعنی بھگوان کے خاص بندے کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں تو کیا آپ اپنے چہیتے چیلے پیارے لعل کے خاندان میں اپنے بچوں کا بیاہ کرسکتے ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے کے بجائے گاندھی جی نے چپ سادھ لی تھی کیونکہ پیارے لعل کا تعلق اچھوت برادری سے تھا۔ جنھیں شودر بھی کہا جاتا ہے۔
بھارت کی آئین سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے آئین ساز اسمبلی کے سرگرم رکن ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا بنیادی تعلق بھی اسی برادری سے تھا۔ چنانچہ اس خوف سے کہ کہیں وہ مسلم لیگ کی حمایت نہ کر بیٹھیں اور اچھوتوں کی وجہ سے مسلم لیگ کا پلڑا بھاری نہ ہوجائے، گاندھی جی نے اچھوتوں کو ''ہریجن'' کے خطاب سے نواز کر ایک زبردست سیاسی چال چلی تھی۔ اس کے علاوہ گاندھی جی کو شاید یہ خدشہ بھی لاحق رہا ہو کہ کہیں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے امتیازی رویے اور نفرت آمیز سلوک سے تنگ آکر اسلام قبول نہ کرلیں جوکہ ہر قسم کی تفریق کا مخالف ہے۔
اب جب کہ بی جے پی کی حکمرانی میں مسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور انھیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہندوستان کی سیاست میں مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان قربت اور اتحاد کا ایک نیا موڑ آتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی دیگر اقلیتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ قیادت کے فقدان کا شکار ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کی بہ نسبت دلتوں کی قیادت خاصی منظم اور بااثر ہے۔
چنانچہ آر ایس ایس کے ظلم و تشدد کے خلاف ان کا ایک پرچم کے سائے تلے اکٹھا ہوجانا عین ممکن ہے اور مشترکہ دشمن کے خلاف یہ اتحاد بہت موثر ثابت ہوسکتا ہے۔اس سے قبل بی جے پی کی عیار حکومت نے نہ صرف دلت مسلم اتحاد کے قیام میں دوڑے اٹکائے تھے بلکہ گجرات کے مسلم کش فسادات میں دلتوں کو اسی طرح آلہ کار کے طور پر استعمال کیا تھا جس طرح قیام پاکستان کے موقعے پر ہندوؤں نے سکھوں کو مشرقی پنجاب اور دہلی وغیرہ میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا تھا۔ 2002 کے مسلم کش فسادات کے بعد حالات نے ایک نیا رخ اختیار کیا اورگجرات کے دلتوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا جس کے نتیجے میں مسلم دلت ایکتا اور اتحاد کی ایک نئی سوچ نے جنم لیا۔ چنانچہ احمد آباد کے سیوک ورکرز کے حقوق کی جدوجہد میں وہاں کی دلت برادری کو مسلمان کمیونٹی کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔
گجرات کے دلتوں کی تحریک میں وہاں کے مسلمانوں نے اپنے مظلوم ساتھیوں کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے جس نے اس تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور ظلم و ستم کے خلاف بلند ہونے والی صدائے احتجاج میں جان پڑ گئی ہے۔ دلتوں کی پشت پر اب جمعیت العلمائے ہند جیسی دیگر سیاسی تنظیموں نے بھی اپنا ہاتھ رکھ دیا ہے جس سے بی جے پی کی صفوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئی ہیں۔
بی جے پی کو عنقریب پنجاب، اترپردیش (یوپی) اور گجرات میں ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی صورت میں ایک سنگین چیلنج کا سامنا درپیش ہے۔ اگر یہ نیا اتحاد قوت پکڑ گیا تو پھر ان آیندہ انتخابات میں بی جے پی کی خیر نہیں ہوگی۔ پنجاب میں جہاں دلتوں کی آبادی کا تناسب 32 فیصد ہے۔ بی جے پی کو دلتوں کی حمایت درکار ہوگی جس کے بغیر اس کے جیتنے کے لالے پڑ جائیں گے۔ ادھر اتر پردیش (یوپی) میں دلت پارٹی، بی ایس پی کو مایاوتی کی قیادت میں زبردست مقبولیت اور نمایاں سیاسی برتری حاصل ہے اور 2017 میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اس کی فتح کے امکانات روز روشن کی طرح عیاں ہو رہے ہیں۔ دلت مسلم اتحاد کے قوی تر ہوجانے کے امکانات نے وہاں بی جے پی کی صفوں میں زبردست کھلبلی مچا دی ہے۔ مایاوتی کی مسلم حلقوں میں روز بہ روز بڑھتی ہوئی مقبولیت نے بی جے پی کے چھکے چھڑانا شروع کردیے ہیں۔
ان حالات نے بی جے پی میں صف ماتم بچھانا شروع کردی ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ 2014 کے لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے پیچھے دلتوں کی حمایت کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس صورتحال سے گھبرا کر بی جے پی نے پاکستان کا معاملہ اچھالنا شروع کردیا ہے۔ بی جے پی کے جنرل سیکیرٹری پی مرلی دھر راؤ دلت مسلم اتحاد سے گھبرا کر اس جھوٹے پروپیگنڈے پر اتر آئے ہیں کہ پاکستان میں دلتوں کا استحصال ہو رہا ہے اور ان کی آبادی کم ہو رہی ہے۔
بی جے پی کو آیندہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں اپنی شکست کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اور وہ اس صورتحال سے بوکھلا کر ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرسکتی ہے۔ اسے مسلم ووٹوں سے زیادہ دلتوں کے ووٹوں کی فکر ہے جنھیں رام کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ چنانچہ مودی نے جسے موذی کہنا زیادہ بہتر ہوگا اب ایک نیا نعرہ ایجاد کیا ہے کہ ''چاہو تو مجھے گولی ماردو لیکن میرے دلت بھائیوں کو اف بھی نہ کہو۔'' البتہ انتہا پسند آر ایس ایس کے غنڈوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مویشیوں کے مسلم بیوپاریوں کی ہلاکت کے بارے میں جن میں ایک 12 سالہ نو عمر لڑکا بھی شامل تھا مودی کو سانپ سونگھ گیا۔