بس اب بہت ہوچکا
30 ستمبر کے رائے ونڈ مارچ کے بعد عمران خان تنہا ہی اب 30 اکتوبر کو اسلام آباد مارچ کا اعلان کرچکے ہیں
QUETTA:
30 ستمبر کے رائے ونڈ مارچ کے بعد عمران خان تنہا ہی اب 30 اکتوبر کو اسلام آباد مارچ کا اعلان کرچکے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں اب ہم یہ حکومت یعنی کرپشن سے بھری حکومت چلنے نہیں دیں گے، بس اب بہت ہوچکا۔
عمران خان کے رائے ونڈ والے جلسے نے بڑے بڑوں کو حیران کردیا یہ الگ بات ہے کہ وہ حیرانی و پریشانی میں اس جلسے کو 30,20 ہزار لوگوں کا جلسہ کہہ رہے تھے، حالانکہ عوام کا جوش و خروش اپنی مثال آپ تھا، اور توقع سے بڑھ کر یہ ایک کامیاب جلسہ تھا۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اب پاکستان کے عوام کرپشن، چور بازاری، غنڈہ گردی اور اسی طرح کی تمام خصوصیات سے تنگ آچکے ہیں۔ پھر یہ لوگ ان کو اپنے اوپر کیوں مسلط رکھنے پر مجبور ہیں۔ کراچی میں آپریشن جاری و ساری ہے MQM کوکئی ٹکڑوں میں بانٹا جارہا ہے اور آئے دن کچھ نہ کچھ مزید پیش کردیا جاتا ہے، عوام حیران و پریشان ہے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔لاہور کے سانحہ ماڈل پر انصاف کے منتظر طاہرالقادری بھیانصاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ 30 اکتوبر کی عمران خان کی کال کو معمولی نہ سمجھا جائے اور نہ کسی دیوانے کا خواب۔ عمران خان کہتے ہیں بس اب بہت ہوچکا۔ کیا اب ہم یہ سمجھیں کہ واقعی تبدیلی کے سگنل جلنے بجھنے لگے ہیں، اب لوگ تبدیلی حاصل کرکے رہیں گے۔
سیاستدانوں کے کرتوت عمران خان چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں۔ اگر ان کی باتوں پر یقین کرلیا جائے کوئی بھی ایسا نہیں جوکہ عوام کی خدمت کرسکے توکیا اس کے معنی ہیں کہ صرف عمران خان ہی صحیح آدمی ہے۔ ان ہی کو ہم ایماندار، خدمت گزار اور قوم کے لیے بہترین مانیں؟ یا پھر بہت سے ایسے اچھے بھی ہیں مگر وہ کرپٹ لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں کہ اپنی دکان سب کو چمکانی تھی۔
ہم کس کو اپنا ہمدرد سمجھیں اور کس کو اپنا دکھ بتائیں، کسان سے لے کر صنعت کار ہیجان میں مبتلا ہیں ۔ روز بروز عوام میں دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں، باہر کے دورے، باہر سے شاپنگ اور باہر سے ہی علاج و معالجہ مگر یہاں کے لوگوں کے لیے کیا، نہ صاف پینے کا پانی، مہنگی ترین بجلی، مہنگی ترین تعلیم ہر قدم پہ مشکلات اور پریشانیاں۔
اس الجھی ہوئی مشکل زندگی میں عمران خان کی باتیں دل کو لگتی ہیں۔ شوکت خانم، نمل یونیورسٹی کے وجود سے حوصلہ بڑھتا ہے کہ کوئی تو ایسی جدوجہد میں مصروف ہے جس کا صلہ عوام تک پہنچ رہا ہے۔ کرپشن نے پورے ملک عظیم کوکھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، جو زمینیں سونا اگلنے کے لیے تیار ہیں، ان زمینوں کو بنجر کیا جا رہا ہے، یونیورسٹیوں،کالجز کے طالب علموں کوکیا خبر ہے کہ ان کے کندھوں پہ بھاری بوجھ ہے کہ اس قوم کا ہر فرد ایک امید لگائے بیٹھا ہے ۔
ٹریفک سگنلز پر ننگے پیر، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس معصوم بچے اپنی ہی زندگی کا بوجھ اٹھائے ایک گاڑی کے بعد دوسری گاڑی کی طرف بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں۔ امرا، وزرا سب ہی یہ منظر روزانہ دیکھتے ہیں مگر آنکھوں والے ایسے اندھے ہوگئے ہیں کہ اجالوں میں بھی اندھیرا ہے۔ اسپتال بھی عجیب منظر پیش کرنے لگے ہیں کہ زندہ کو مردہ ہونے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔
بچے پیدا ہوتے ہی اغوا ہوجاتے ہیں، آپریشن کوکاروبار بنا لیا گیا ہے۔ عورت، مرد، بچے سب کے سب ان اسپتالوں کے کاروبار بن کر رہ گئے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، ایک عام آدمی سے سرکار تک سب کے علم میں ہے، مگر کرپشن نیچے سے لے کر اوپر تک ہے۔ ان بے حسی کے حالات میں بھی ایک مسلمان ہونے کے ناتے سے ہمارا یقین کامل ہے کہ اللہ عالی شان ہے اور ہر قدم، ہر لمحے، ہر نیت سے واقف ہے۔ ابھی کسی نے مجھے ایک میسج بھیجا ہے کہ صحیح ہے یا غلط کہ ایک مولانا صاحب نے کہا ہے کہ پوری قوم توبہ استغفار پڑھے بے حساب بے تحاشا، کہ ہم پر ناگہانی آفت آسکتی ہے اور پاکستان مشکل میں گھر سکتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہ تو مولانا صاحب فرما رہے ہیں ہم خود اپنی آنکھوں سے بھی اسی طرح کے منظر روز و شب دیکھ رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھرپور لگن کے جذبے کے ساتھ ہمارے صوبے کے لیے اور خاص طور پر کراچی کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، قائم علی شاہ اب لطیفوں کی نذر ہوگئے ہیں، موجودہ CM اپنی سی کوششوں میں لگ گئے ہیں مگر جہاں پالیسیز بنتی ہیں، جہاں فیصلے ہوتے ہیں ان کے دلوں میں ان کے دماغوں میں روشنی جب ہوگی تب ہی اندھیرے دور ہوں گے۔
شخصیات کے ساتھ پالیسیز کا بننا اور ان کے ساتھ ہی دفن ہوجانا، یہ المیہ آزادی سے آج تک زندہ ہے، بلوچستان ہو یا پنجاب، یا سندھ یا کے پی کے ہر دل پاکستان کی محبت میں دھڑکتا ہے۔ ہر دل اس ملک کو روشن و تابندہ دیکھنا چاہتا ہے مگر برا ہو ان لوگوں کا جو نہ صرف اپنے لیے بوجھ ہیں بلکہ وہ اللہ کا عذاب بنے بیٹھے ہیں۔
پچھلے وقتوں میں گاؤں، دیہاتوں میں نہ بجلی تھی نہ تعلیم نہ پیٹ بھر کر کھانا، نہ کوئی سڑک، نہ ٹیلی فون اس کے باوجود ان دیہاتوں اور گاؤں میں غربت نام کی کوئی چیز نہیں تھی اب جب کہ اس دور میں ان گاؤں و دیہات کی زندگی بدل چکی ہے۔ پکی سڑکیں، ٹریفک، بجلی، ٹیوب لائٹس، ٹی وی، فریج، ٹریکٹرز اور وہ تمام سہولیات جو شہروں میں نظر آتی ہیں، مگر ان سب سہولیات کے ساتھ، ان گاؤں دیہات کے لوگ، غربت، پسماندگی اور محرومی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ 2016 کے ترقی یافتہ دور میں جب ان گاؤں اور دیہات میں جدید زندگی کی موجودگی نظر آتی ہے وہیں یہاں پر غربت، پسماندگی، محرومی بڑھتی جا رہی ہے، جب یہ مٹی کے ڈھیر تھے تو پرسکون تھے، کوئی گلہ نہ تھا۔
یہی حال ہمیں اپنے جدید شہروں میں بھی نظر آتا ہے۔ احساس کمتری، محرومی کا احساس، اپنا آپ بھولے جا رہے ہیں اور مبتلا ہو رہے ہیں اس احساس میں اس ذلت میں جہاں غلامی ہی غلامی نظر آتی ہے۔ میکالے کا فلسفہ رہا ہے کہ اگر کسی قوم کو ختم کرنا ہو وہ بھی بغیر جنگ کے تو اس قوم کو احساس کمتری کا شکار بنا دو وہ ہمیشہ تمہاری غلام رہے گی۔
30 ستمبر کے رائے ونڈ مارچ کے بعد عمران خان تنہا ہی اب 30 اکتوبر کو اسلام آباد مارچ کا اعلان کرچکے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں اب ہم یہ حکومت یعنی کرپشن سے بھری حکومت چلنے نہیں دیں گے، بس اب بہت ہوچکا۔
عمران خان کے رائے ونڈ والے جلسے نے بڑے بڑوں کو حیران کردیا یہ الگ بات ہے کہ وہ حیرانی و پریشانی میں اس جلسے کو 30,20 ہزار لوگوں کا جلسہ کہہ رہے تھے، حالانکہ عوام کا جوش و خروش اپنی مثال آپ تھا، اور توقع سے بڑھ کر یہ ایک کامیاب جلسہ تھا۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اب پاکستان کے عوام کرپشن، چور بازاری، غنڈہ گردی اور اسی طرح کی تمام خصوصیات سے تنگ آچکے ہیں۔ پھر یہ لوگ ان کو اپنے اوپر کیوں مسلط رکھنے پر مجبور ہیں۔ کراچی میں آپریشن جاری و ساری ہے MQM کوکئی ٹکڑوں میں بانٹا جارہا ہے اور آئے دن کچھ نہ کچھ مزید پیش کردیا جاتا ہے، عوام حیران و پریشان ہے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔لاہور کے سانحہ ماڈل پر انصاف کے منتظر طاہرالقادری بھیانصاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ 30 اکتوبر کی عمران خان کی کال کو معمولی نہ سمجھا جائے اور نہ کسی دیوانے کا خواب۔ عمران خان کہتے ہیں بس اب بہت ہوچکا۔ کیا اب ہم یہ سمجھیں کہ واقعی تبدیلی کے سگنل جلنے بجھنے لگے ہیں، اب لوگ تبدیلی حاصل کرکے رہیں گے۔
سیاستدانوں کے کرتوت عمران خان چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں۔ اگر ان کی باتوں پر یقین کرلیا جائے کوئی بھی ایسا نہیں جوکہ عوام کی خدمت کرسکے توکیا اس کے معنی ہیں کہ صرف عمران خان ہی صحیح آدمی ہے۔ ان ہی کو ہم ایماندار، خدمت گزار اور قوم کے لیے بہترین مانیں؟ یا پھر بہت سے ایسے اچھے بھی ہیں مگر وہ کرپٹ لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں کہ اپنی دکان سب کو چمکانی تھی۔
ہم کس کو اپنا ہمدرد سمجھیں اور کس کو اپنا دکھ بتائیں، کسان سے لے کر صنعت کار ہیجان میں مبتلا ہیں ۔ روز بروز عوام میں دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں، باہر کے دورے، باہر سے شاپنگ اور باہر سے ہی علاج و معالجہ مگر یہاں کے لوگوں کے لیے کیا، نہ صاف پینے کا پانی، مہنگی ترین بجلی، مہنگی ترین تعلیم ہر قدم پہ مشکلات اور پریشانیاں۔
اس الجھی ہوئی مشکل زندگی میں عمران خان کی باتیں دل کو لگتی ہیں۔ شوکت خانم، نمل یونیورسٹی کے وجود سے حوصلہ بڑھتا ہے کہ کوئی تو ایسی جدوجہد میں مصروف ہے جس کا صلہ عوام تک پہنچ رہا ہے۔ کرپشن نے پورے ملک عظیم کوکھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، جو زمینیں سونا اگلنے کے لیے تیار ہیں، ان زمینوں کو بنجر کیا جا رہا ہے، یونیورسٹیوں،کالجز کے طالب علموں کوکیا خبر ہے کہ ان کے کندھوں پہ بھاری بوجھ ہے کہ اس قوم کا ہر فرد ایک امید لگائے بیٹھا ہے ۔
ٹریفک سگنلز پر ننگے پیر، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس معصوم بچے اپنی ہی زندگی کا بوجھ اٹھائے ایک گاڑی کے بعد دوسری گاڑی کی طرف بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں۔ امرا، وزرا سب ہی یہ منظر روزانہ دیکھتے ہیں مگر آنکھوں والے ایسے اندھے ہوگئے ہیں کہ اجالوں میں بھی اندھیرا ہے۔ اسپتال بھی عجیب منظر پیش کرنے لگے ہیں کہ زندہ کو مردہ ہونے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔
بچے پیدا ہوتے ہی اغوا ہوجاتے ہیں، آپریشن کوکاروبار بنا لیا گیا ہے۔ عورت، مرد، بچے سب کے سب ان اسپتالوں کے کاروبار بن کر رہ گئے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، ایک عام آدمی سے سرکار تک سب کے علم میں ہے، مگر کرپشن نیچے سے لے کر اوپر تک ہے۔ ان بے حسی کے حالات میں بھی ایک مسلمان ہونے کے ناتے سے ہمارا یقین کامل ہے کہ اللہ عالی شان ہے اور ہر قدم، ہر لمحے، ہر نیت سے واقف ہے۔ ابھی کسی نے مجھے ایک میسج بھیجا ہے کہ صحیح ہے یا غلط کہ ایک مولانا صاحب نے کہا ہے کہ پوری قوم توبہ استغفار پڑھے بے حساب بے تحاشا، کہ ہم پر ناگہانی آفت آسکتی ہے اور پاکستان مشکل میں گھر سکتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہ تو مولانا صاحب فرما رہے ہیں ہم خود اپنی آنکھوں سے بھی اسی طرح کے منظر روز و شب دیکھ رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھرپور لگن کے جذبے کے ساتھ ہمارے صوبے کے لیے اور خاص طور پر کراچی کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، قائم علی شاہ اب لطیفوں کی نذر ہوگئے ہیں، موجودہ CM اپنی سی کوششوں میں لگ گئے ہیں مگر جہاں پالیسیز بنتی ہیں، جہاں فیصلے ہوتے ہیں ان کے دلوں میں ان کے دماغوں میں روشنی جب ہوگی تب ہی اندھیرے دور ہوں گے۔
شخصیات کے ساتھ پالیسیز کا بننا اور ان کے ساتھ ہی دفن ہوجانا، یہ المیہ آزادی سے آج تک زندہ ہے، بلوچستان ہو یا پنجاب، یا سندھ یا کے پی کے ہر دل پاکستان کی محبت میں دھڑکتا ہے۔ ہر دل اس ملک کو روشن و تابندہ دیکھنا چاہتا ہے مگر برا ہو ان لوگوں کا جو نہ صرف اپنے لیے بوجھ ہیں بلکہ وہ اللہ کا عذاب بنے بیٹھے ہیں۔
پچھلے وقتوں میں گاؤں، دیہاتوں میں نہ بجلی تھی نہ تعلیم نہ پیٹ بھر کر کھانا، نہ کوئی سڑک، نہ ٹیلی فون اس کے باوجود ان دیہاتوں اور گاؤں میں غربت نام کی کوئی چیز نہیں تھی اب جب کہ اس دور میں ان گاؤں و دیہات کی زندگی بدل چکی ہے۔ پکی سڑکیں، ٹریفک، بجلی، ٹیوب لائٹس، ٹی وی، فریج، ٹریکٹرز اور وہ تمام سہولیات جو شہروں میں نظر آتی ہیں، مگر ان سب سہولیات کے ساتھ، ان گاؤں دیہات کے لوگ، غربت، پسماندگی اور محرومی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ 2016 کے ترقی یافتہ دور میں جب ان گاؤں اور دیہات میں جدید زندگی کی موجودگی نظر آتی ہے وہیں یہاں پر غربت، پسماندگی، محرومی بڑھتی جا رہی ہے، جب یہ مٹی کے ڈھیر تھے تو پرسکون تھے، کوئی گلہ نہ تھا۔
یہی حال ہمیں اپنے جدید شہروں میں بھی نظر آتا ہے۔ احساس کمتری، محرومی کا احساس، اپنا آپ بھولے جا رہے ہیں اور مبتلا ہو رہے ہیں اس احساس میں اس ذلت میں جہاں غلامی ہی غلامی نظر آتی ہے۔ میکالے کا فلسفہ رہا ہے کہ اگر کسی قوم کو ختم کرنا ہو وہ بھی بغیر جنگ کے تو اس قوم کو احساس کمتری کا شکار بنا دو وہ ہمیشہ تمہاری غلام رہے گی۔