ٹریننگ سے اہم پولیس بھرتی

سپریم کورٹ کےحکم پرکی گئی انکوائری میں سندھ پولیس کے بارہ ایس ایس پیزکا غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا


Muhammad Saeed Arain October 11, 2016

سپریم کورٹ کے حکم پرکی گئی انکوائری میں سندھ پولیس کے بارہ ایس ایس پیزکا غیر قانونی بھرتیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد چیف سیکریٹری سندھ کو آئی جی پولیس نے ایک خط کے ذریعے متعلقہ اعلیٰ پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کے لیے لکھا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایڈیشنل آئی جی ثنا اﷲ عباسی نے تحقیقات مکمل کرکے بارہ ایس ایس پیز کے خلاف رپورٹ آئی جی کو بھیجی تھی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے اہم اضلاع اور سندھ پولیس میں اہم عہدوں پر تعینات ایس ایس پیز نے رشوت لے کر پولیس اہلکاروں کی غیر قانونی بھرتیاں کیں اور پولیس کانسٹیبل کی پوسٹ پر بھرتی کے لیے پانچ سے سات لاکھ روپے فی کس رشوت وصول کی گئی تھی۔ ان ایس ایس پیز میں وہ افسران بھی ملوث ہیں جو میڈیا میں اچھی شہرت کے حامل قرار دیے جاتے ہیں یا میڈیا کے سامنے خود کو وہ بڑا پارسا ظاہر کرتے آئے ہیں۔

پولیس میں ایسے اچھی شہرت کے حامل افسران بھی موجود ہیں جنھیں ایماندار کہا جاتا ہے کیوںکہ وہ رشوت نہیں لیتے اور صرف اسی وجہ سے وہ ایمانداری کے دعویدار ہوتے ہیں۔ ایس ایس پی کی حیثیت سے اضلاع کے ان پولیس افسروں کے پاس ضلع پولیس کا کروڑوں روپے کا فنڈ ہوتا ہے جس کے لیے ان کے پاس سویلین اکاؤنٹنٹ، کیشیئر اور کلرک وغیرہ ہوتے ہیں، ہر ضلع کے ایس ایس پی کو جو فنڈ ملتا ہے اس میں پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں کے علاوہ پولیس دفاتر، پولیس گاڑیوں کا پٹرول، گاڑیوں کی مرمت و آٹو سامان کی تبدیلی اور اسٹیشنری کے علاوہ تھانوں اور پولیس عمارتوں کے رنگ و روغن اور چھوٹی موٹی تعمیر ومرمت کی رقم بھی شامل ہوتی ہے جو ایس ایس پی ہی کے دستخط سے نکالی جاسکتی ہے۔

پولیس کے ضلع فنڈ سے اہلکاروں کو تنخواہیں تو دینی ہی پڑتی ہیں مگر اس میں بھی اکاؤنٹس برانچ کا عملہ ہمیشہ ہیرا پھیری کرتا ہے اور پولیس افسروں کے علاوہ ماتحت عملے کی تنخواہ میں خوامخواہ اور جان بوجھ کر رقم کاٹی جاتی ہے اور نچلے عملے کو کبھی پوری تنخواہ نہیں ملتی، کسی تھانے میں اسٹیشنری نہیں ہوتی اور ایف آئی آر، سرکاری کاغذات، موٹر سائیکل، شناختی کارڈ کی چوری وگمشدگی کے لیے آنے والوں سے بازار سے زیادہ مقدار میں منگوائی جاتی ہے۔ پولیس افسروں کی گاڑیوں کے علاوہ تھانوں کو گشت کے لیے اور قیدیوں کو عدالتوں میں لے جانے کے لیے پٹرول اور ڈیزل پورا نہیں ملتا۔ ملزموں کو پکڑنے جانے کے لیے گاڑی اور پٹرول فریادی سے منگوایا جاتا ہے، پولیس گاڑیوں کی مرمت کے لیے ہر ضلع میں مکینک بھی ہوتے ہیں اور صوبے میں پولیس گاڑیوں کے لیے ڈی آئی جی ٹی اینڈ ٹی مقرر ہیں جو زیادہ تر پولیس افسروں کی گاڑیوں ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔

بڑی تعداد میں پولیس تھانے موبائلوں سے محروم ہیں۔ تقریباً ہر ایس ایچ او ہی نہیں بلکہ ایس آئی، اے ایس آئی کے پاس ذاتی گاڑیاں موجود ہیں، پولیس موبائلوں کے اچانک خراب ہوجانے اور سڑکوں پر پولیس موبائلوں کو دھکے لگائے جانے کی تصاویر اور فوٹیج میڈیا پر اکثر نظر آتی ہیں۔ پولیس کا نچلا عملہ بے گناہوں یا معمولی جرم کرنے والوں کو پکڑ کر پولیس گاڑیوں کی مرمت اور پٹرول کے نام پر رشوت وصول کرکے انھیں چھوڑدیتا ہے۔ پولیس کے نچلے عملے کو بعض پٹرول مالکان بھی مفت میں اپنے مطلب کے لیے پٹرول دے دیتے ہیں۔ ہر ضلع میں سالانہ پولیس کھانے کے لیے جو بڑا کھانا کہلاتا ہے فنڈ ملتا ہے، عدالتوں میں حاضریوں اور تفتیش کے لیے بھی سرکار فنڈ دیتی ہے جو ملتا نہیں بھی ہے تو اکاؤنٹس والے رو رو کر اور کاٹ کر رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔

نچلے پولیس ملازمین کے لیے کہنے کو پولیس ڈسپنسریاں ہوتی ہیں جہاں سرکاری اسپتالوں کی طرح سستی ٹیبلیٹس اور لال دوائی دی جاتی ہے۔ بیمار عملے کو میڈیکل ٹیسٹ باہر سے کرانے بلکہ اپنا علاج بھی باہر سے ہی کرانا پڑتا ہے، پولیس اسپتال برائے نام اور بڑے شہروں میں ہیں نچلے عملے کو اچھے اسپتالوں کی سہولت میسر نہیں، مقابلوں میں زخمی ہوجانے والے اہلکاروں کا علاج تھانہ ایس ایچ او مخیر حضرات کے تعاون سے کراتے ہیں۔

نچلے عملے کے رہائشی کوارٹروں کی بھی بری حالت ہے۔ تھانوں کے رنگ اورکوارٹروں میں رہنے والوں کو ضروری مرمت کے لیے سرکاری طور پر کچھ نہیں ملتا۔ تھانوں میں فرنیچر برائے نام ہے اور رپورٹ درج کرانے کے لیے آنے والے ملزموں کی طرح تھانوں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام معاملات کے لیے ایس ایس پیز کو فنڈ حکومت دیتی ہے مگر اس کا پتا متعلقہ ایس ایس پی اور اس کے با اعتماد اکاؤنٹس عملے کو ہوتا ہے جعلی بلوں کی ادائیگی ہوجاتی ہے، مختصر فنڈ ضروریات پر خرچ نہیں ہوتا پولیس اہلکار مانگتے ہیں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ فنڈ نہیں ہے، اوپر لکھا ہے آئے گا تو مل جائے گا۔ کبھی چھوٹے بل مل بھی جاتے ہیں۔ مگر وہ بھی پورے نہیں ملتے اور اوپر ہی اوپر پولیس فنڈ خرچ ہوجاتا ہے۔

ہر ایس ایس پی کے پاس سب انسپکٹر سطح کے افسروں کو ایس ایچ او لگانے کا اختیار ہوتا ہے۔ ڈی ایس پی اور انسپکٹر ڈویژن سطح سے تقرریاں حاصل کرتے ہیں اور تھانوں کا فروخت ہونا، رشوت پر تبادلے اور تقرریاں عام بات ہے، نچلے کو تو رشوت دیے بغیر چھٹیاں نہیں ملتیں اور پولیس لائنوں میں موجود عملے سے جو سلوک ہوتا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، پولیس لائنوں میں نافرمانی کرنے والوں اور رشوت نہ دینے والوں کی بھرمار ہر ضلع میں ہے، آئی جی پولیس سندھ نے بارہ ایس ایس پیز کی جو رپورٹ چیف سیکریٹری کو بھیجی ہے اس میں ایس ایس پیز پر لاکھوں روپے رشوت لے کر پولیس کانسٹیبلز بھرتی کرنے کا الزام ہے جب کہ ہر ضلع کا ایس ایس پی سرکاری فنڈ کے ساتھ جو ہاتھ کر رہا ہے اس کا تو کہیں بھی ذکر نہیں ہوتا۔

با خبر ذرایع کے مطابق ہر ضلع میں چار سو نئے اہلکاروں کی بھرتی ہوئی جس میں تین سو اہلکار حکومتی پارٹی کی شخصیات کے کہنے پر بھرتی ہوئے اور ایک سو کا اختیار متعلقہ ایس ایس پی کا تھا جنھوں نے 25 فی صد بھرتیاں میرٹ پر اور 75 فی صد لاکھوں روپے فی کس رشوت لے کر کی ہیں۔ ذرایع کے مطابق ہر ضلع کو ہر سال تقریباً ایک کروڑ روپے فنڈ ملتا ہے جس میں اگر پچاس لاکھ تنخواہوں ودیگر اخراجات کی مد میں خرچ کیے جائیں تو ہر ایس ایس پی کی نذر پچاس لاکھ روپے با آسانی ہوجاتے ہیں۔

تنخواہ تھانوں سے ہر ماہ ملنے والے لفافوں کے علاوہ ایس ایس پیز ہاؤسز پر آنے والے اخراجات بھی زیادہ تر اوپر سے ہی نکل جاتے ہیں جس کے بعد اگر سپاہی لاکھوں روپے رشوت دے کر بھرتی ہوگا تو الٹی سیدھی تربیت کے دوران بھی وہ ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد وہ جیسے ہی فیلڈ میں آئے گا تو اپنی دی گئی رشوت کو وہ ترجیحی بنیادوں پر وصول کرنا شروع کردے گا، لاکھوں روپے دے کر بھرتی ہونے والا قرضے لے کر ہی رقم جمع کرتا ہے اور ڈیوٹی لے کر رقم واپسی کے لیے وہ ہر غیر قانونی کام کرے گا جس کے ذمے دار وہ ایس ایس پی ہیں جو میرٹ کی بجائے لاکھوں روپے رشوت لے کر اسے بھرتی کرچکے ہیں۔

تربیت کے دوران سپاہیوں پر جو گزرتی ہے اور رشوت دے کر وہ جو ٹریننگ لیتا ہے وہ گالیوں، جھوٹ اور رشوت ہی کی ہوتی ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ پولیس میں بھرتی ہر حال میں میرٹ پر ہو تاکہ بھرتی ہونے والے کو قرضہ اتارنے کی فکر نہ ہو تب ہی وہ صحیح ٹریننگ لے کر اپنی ذمے داری احسن طریقے سے ادا کرنے کے قابل ہوسکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں