100افراد کی جان لینے والے آسٹرین کمپنی کے ناقص سی این جی سلنڈر پھر بکنے لگے

کمپنی کو بلیک لسٹ، سلنڈر واپس اٹھانے کا حکم دیا تھا، اوگرا حکام


Arif Rana December 12, 2012
ملک میںسلنڈرکا کوئی دھماکا نہیں ہوا،سربراہ ایکسپلوسو ڈپارٹمنٹ کا دعوی،سلنڈر دوبارہ بک رہے ہیں، سی این جی ایسوسی ایشن کی تصدیق. فوٹو: فائل

آسٹرین کمپنی کے 6500 مسترد شدہ اور غیرمعیاری سی این جی سلنڈروں کی دوبارہ فروخت کا انکشاف ہوا ہے،'' وارتھنگٹن'' کے سی این جی سلنڈر 2010 میں غیرمعیاری قرار دیے گئے تاہم انھیں دوسال بعد دوبارہ ویگنوں اوربسوں میں استعمال کیلیے مارکیٹ میں فروخت کر دیا گیا جس سے حادثات میں خوفناک حد تک اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔

ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا کہ آسٹرین کمپنی وارتھنگٹن کے بنے غیرمعیاری سی این جی سلنڈر اسلام آباد کی ایک گمنام کمپنی'' اکنامک فیول'' نے2006 میں درآمد کیے چونکہ یہ پاکستان میں سی این جی سیکٹر کی غیرمعمولی بڑھوتری کا زمانہ تھا اس لیے سارا اسٹاک2007 کے اختتام تک مارکیٹ میں آ گیا۔ اسی دوران مختلف شہروں میں سی این جی سلنڈروں کے دھماکے ہوئے جن کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ لاہور، کراچی، منڈی بہائوالدین، وانا اوردوسرے شہروں میں ان دھما کوں کی اصل وجہ وارتھنگٹن کمپنی کے غیرمعیاری سلنڈر ہیں۔ ویگنوں اوربسوں میں آئے دن سی این جی سلنڈروں کے خوفناک دھماکوں میں قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔

18

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2006 سے اب تک کراچی، لاہور ، میرپورخاص سے لیکر وانا تک ایک درجن سے زیادہ سی این جی گیس سلنڈروں کے دھماکوں میں100قیمتی جانیں ضائع ہوئیں مگر لواحقین کو کوئی بتانے والا نہیں کہ انکے پیاروں کی جان ویگنوں اور بسوں میں لگے ان ناقص سلنڈروں اور کٹس کی وجہ سے ہوئی جو اکنامک فیول نے درآمد کیے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ اگر سلنڈر غیرمعیاری تھے تو یہ پاکستان میں درآمد کیسے ہوئے۔ اس سوال کا جواب دینا وزارت صنعت کے ذیلی ادارے ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے۔ ادارے کے سربراہ حسین چنا سرے سے یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ پاکستان میں اب تک کوئی سی این جی سلنڈرکا دھماکا ہوا بھی ہے بلکہ وہ دعوی کرتے ہیں کہ بسوں اور ویگنوں میں ہونے والے دھماکے صرف گیس لیکج سے ہوئے۔

اگر ان کا یہ حقائق سے منافی موقف مان بھی لیا جائے تب بھی وہ جس ادارے کے سربراہ ہیں، سیفٹی رولز 2010 کے تحت اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے سی این جی سلنڈر اور کٹس کو فروخت سے روکے جن کی وجہ سے دھماکا ہوسکتا ہو۔ حسین چنا کی غلط بیانی سے ان کے اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف سے اوگرا کو گزشتہ چارسال میں لکھے گئے ان درجنوں خطوط کی نفی ہوتی ہے جن میں ان کے ڈیپارٹمنٹ نے ان رپورٹس کی تصدیق کی ہے کہ واتھنگٹن کمپنی کے درآمد کردہ سلنڈر غیرمعیاری ہیں اور انکے پھٹنے سے ہونے والے دھماکوں میں قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔

اوگرا کے حکام بھی ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کے اس موقف کی پرزور تردید کرتے ہیں، اوگرا کے ایک سینئر افسر نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو بتایا کہ وارتھنگٹن کمپنی کے پاکستان میں درآمد کردہ تمام سلنڈر 2010 میں غیرمعیاری ثابت ہونے کے بعد ان کو مارکیٹ سے واپس اٹھانے کا حکم دیا گیا تھا، اس کے علاوہ کمپنی کو بلیک لسٹ بھی کردیا گیا تھا۔ اوگرا کے ان حکام کا کہنا ہے اوگرا نے وارتھنگٹن کیخلاف کارروائی سے آگاہ کرنے کیلیے دبئی میں آسٹریا کے سفیر اور کمپنی کے نمائندوں کو اسلام آباد طلب کیا تھا۔ سی این جی ایسوسی ایشن کے غیاث پراچہ بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وارتھنگٹن کمپنی کے مسترد کردہ غیرمعیاری سلنڈر دوبارہ مارکیٹ میں بک رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں