پیغام حسینیتؓ و عصر حاضر
ہجری سال 60 کا ذکر ہے کہ جب ملک عرب میں یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا
ہجری سال 60 کا ذکر ہے کہ جب ملک عرب میں یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا گوکہ اس وقت عام سیاسی حالات و واقعات ایسے نہ تھے کہ اس کی حکمرانی کو فوری خطرہ لاحق ہوتا البتہ اس وقت چار اشخاص ایسے تھے جو کہ اس کی حکمرانی کو چیلنج کر سکتے تھے۔ وہ چار اشخاص تھے حضرت عبداللہ بن عباس جو کہ رسول عربیؐ کے چچا زاد بھائی تھے۔ دوسرے حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ یہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے تھے۔ تیسرے شخص تھے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ۔ یہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ کے نواسے و نامور صحابی رسولؐ حضرت زبیر بن عوام کے نور چشم تھے جب کہ چوتھی عظیم شخصیت تھے نواسہ رسولؐ جگر گوشہ خاتون جنت دختر رسولؐ حضرت بی بی فاطمہؓ و مولا علیؓ شیر خدا کے صاحب زادے امام حسینؓ ان چاروں حضرات کی سیرت کا اگر مطالعہ کیا جائے تو کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ و حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو حکومتی امور سے دلچسپی نا تھی یعنی کسی حکومتی عہدے کے طلبگار نہ تھے اور یہ دونوں صاحبان چونکہ اہل علم تھے اس لیے یہ دونوں حضرات علمی ذخیرہ اکٹھا کرنے کے لیے کوشاں رہے اس وجہ سے یزید کی حکمرانی کو ان دونوں صاحبان سے کوئی خطرہ نہ تھا۔
البتہ حضرت عبداللہ بن زبیر ایسے شخص تھے جوکہ یزید کی حکمرانی کو چیلنج بھی کرتے اور اس کے لیے مشکلات کا باعث بھی بنتے جب کہ چوتھے شخص حضرت امام حسینؓ فی الوقت خاموش ضرور تھے مگر آنے والے وقتوں میں یزید کی طرز حکمرانی دیکھ کر ان سے خاموشی کی امید رکھنا خام خیالی تھی۔
اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے 34 سالہ یزید نے ایک قاصد اپنی تخت نشینی کے بعد مدینہ شریف روانہ کیا اس تاکید کے ساتھ کہ مدینہ منورہ کے گورنر سے کہا گیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو حسینؓ ابن علیؓ سے بیعت لی جائے کہ وہ میری حکمرانی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ یزید کا یہ حکم نامہ جب گورنر مدینہ نے امام حسینؓ کے سامنے رکھا تو آپؓ نے دوٹوک الفاظ میں یزید کی بیعت کرنے سے منع فرما دیا یہاں یہ وضاحت ضروری ہے بیعت کا مطلب تھا ووٹ گویا یزید کو اپنی حکمرانی کے لیے نواسہ رسول محترمؐ کا ووٹ درکار تھا۔
ابو عبداللہؓ کے بیعت سے انکار کا مطلب تھا جنگ و جدل جوکہ مدینہ منورہ میں ہوتا مگر برادر حسن کو یہ جنگ جدل مدینہ میں گوارہ نہ تھا چنانچہ آپؓ نے مکہ شریف جانے کا قصد فرمایا اور بمع اہل و عیال مکہ مکرمہ تشریف لے آئے جہاں آپؓ کا قیام قریب قریب پانچ ماہ رہا اب کیفیت یہ تھی کہ ایام حج قریب تھے دیگر مسلمانوں کے ساتھ آپؓ بھی احرام کی حالت میں تھے کہ یزید کے مقرر کردہ لوگ حاجیوں کے بھیس میں مکہ مکرمہ آچکے تھے۔ جن کی آمد کا مقصد حج کرنا نہ تھا بلکہ موقعہ پا کر ابن علیؓ کو قتل کرنا تھا۔
حضرت شبیرؓ کو ان لوگوں کے ناپاک ارادے کی بروقت خبر ہو گئی چنانچہ امام حسینؓ نے حج کو عمرے میں تبدیل کیا اور اپنے اہل و عیال کے ہمراہ نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔ ابھی 61 ہجری کا آغاز ہی ہوا تھا کہ امام حسین میدان کربلا میں پہنچ گئے یہ مقام ملک عراق میں واقع ہے۔ البتہ اس مقام تک آتے آتے پسر علیؓ کو لاتعداد مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ کربلا کے چٹیل میدان میں امام حسینؓ یزیدی فوجوں کے گھیرے میں آ چکے تھے دشمنان اہل بیت کی عددی قوت بڑھتی جا رہی تھی اور ساتھ میں آپؓ پر یزید کی بیعت کے لیے دباؤ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔
اس موقعے پر آسان ترین راستہ تو یہ تھا کہ یزید کی بیعت کر لی جاتی اپنی و اپنے اہل و عیال کی جانیں بھی بچا لی جاتیں مگر 56 برس پانچ ماہ کی عمر رکھنے والے محبوبؐ خدا کے نواسے نے فرمایا ۔ ''ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے'' یزید کی بیعت کے بعد میں آنے والی زندگی نعوذ باللہ ذلت ہی کی زندگی تو ہوتی ہے، چنانچہ اس کیفیت میں امام حسینؓ نے یہ فرماتے ہوئے کہ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا ان کے ظلم میں شریک ہونے کے مترادف ہے کہ یزیدی لشکر جس کی تعداد ہزاروں میں تھی کہ سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا گو کہ یہ مشکل ترین فیصلہ تھا کیونکہ یہ فیصلہ اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت حسینؓ کو اپنے بچپن کے دوست حبیبؓ ابن مظاہر قمر بنی ہاشم جناب عباس، ابن علیؓ یعنی اپنے بھائی و اپنے بیٹے ہم شکل رسولؐ عربی حضرت علی اکبر مرحوم بھائی حضرت حسن کے صاحبزادے حضرت قاسمؓ و دیگر عزیز و اقارب جن میں 32 کوفی و 40 مدنی ساتھیوں کی قربانی دینا ہو گی اور دس محرم 61 ہجری کو ہوا بھی ایسا ہی۔ یعنی ان سب نے میرے و آپ کے امام حسینؓ پر اپنی جانیں نچھاور کر دیں اور جگر گوشہ خاتون جنت نے بھی عین نماز جمعۃ المبارک کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش فرمایا اور آنے والے قیامت تک کے مظلوم لوگوں کو گویا یہ پیغام دیا کہ اگر تم لوگوں کو اپنے نظریات کی صداقت کا پورا پورا یقین ہے تو پھر تم لوگ جدوجہد کا راستہ اختیار کرو اور اگر تم کامیابی کے یقین کے ساتھ جدوجہد کرو گے تو ضرور تمہاری جدوجہد رنگ لائے گی اور تم کامیاب رہو گے۔
اس ضمن یہاں ہم جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا سے منسوب ایک واقعہ بیان کریں تو بے محل نہ ہو گا چنانچہ نیلسن منڈیلا کہتے ہیں کہ ان کی طویل ترین جدوجہد کے دوران جو کہ انھوں نے اپنے ہم وطنوں کی آزادی کے لیے کی اس تاریخی جدوجہد کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ جب میں نے سوچا کہ میری جدوجہد لاحاصل ہے اور جنوبی افریقہ کی عوام کو نسلی تعصب سے آزادی ملنے والی نہیں ہے مگر دوسرے ہی لمحے مجھے قربانی حسینؓ یاد آ گئی چنانچہ میں نے اسی وقت یہ عہد کیا کہ میں اپنے ساتھیوں سمیت جدوجہد جاری رکھوں گا پھر ایسا ہی ہوا اور دنیا نے دیکھا نیلسن منڈیلا کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور جنوبی افریقہ کے عوام کو نسلی تعصب سے آزادی مل گئی۔
اب اگر ہم عصر حاضر میں اپنے سماج پر ایک سرسری نظر میں ڈالیں تو ہمارا سماج تمام برائیوں کی گویا عملی تصویر پیش کر رہا ہے اور ہمارا سماج جبر و استحصال کا مکمل شکار ہے جن برائیوں نے ہمارے سماج کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے وہ یہ ہیں اول عدم مساوات۔ دوم۔ دہشتگردی ۔سوم ۔ملکی سیاست جیسے دینی سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔ چہارم ۔جاگیرداری و سرمایہ داری نظام کا نفاذ جس کے باعث تمام ملکی وسائل کا چند ہاتھوں میں تیزی سے سمیٹنا پنجم بڑھتی ہوئی بے روزگاری و افلاس جس کے باعث سماج میں بڑھتے ہوئے جرائم و لاقانونیت ششم بڑھتی ہوئی جہالت کیونکہ ہمارا تعلیمی معیار خطے کے تمام ممالک سے پست ہے کیا یہ تمام برائیاں ہم سے جدوجہد کا تقاضا نہیں کرتیں؟ اگر جواب ''ہاں'' میں ہے تو آج یوم عاشور 1438ھ و امام حسینؓ کے 1377ویں یوم شہادت کے موقعے پر ہم عہد کریں کہ اپنے سماج سے تمام قسم کے جبر و استحصال کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔
البتہ حضرت عبداللہ بن زبیر ایسے شخص تھے جوکہ یزید کی حکمرانی کو چیلنج بھی کرتے اور اس کے لیے مشکلات کا باعث بھی بنتے جب کہ چوتھے شخص حضرت امام حسینؓ فی الوقت خاموش ضرور تھے مگر آنے والے وقتوں میں یزید کی طرز حکمرانی دیکھ کر ان سے خاموشی کی امید رکھنا خام خیالی تھی۔
اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے 34 سالہ یزید نے ایک قاصد اپنی تخت نشینی کے بعد مدینہ شریف روانہ کیا اس تاکید کے ساتھ کہ مدینہ منورہ کے گورنر سے کہا گیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو حسینؓ ابن علیؓ سے بیعت لی جائے کہ وہ میری حکمرانی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ یزید کا یہ حکم نامہ جب گورنر مدینہ نے امام حسینؓ کے سامنے رکھا تو آپؓ نے دوٹوک الفاظ میں یزید کی بیعت کرنے سے منع فرما دیا یہاں یہ وضاحت ضروری ہے بیعت کا مطلب تھا ووٹ گویا یزید کو اپنی حکمرانی کے لیے نواسہ رسول محترمؐ کا ووٹ درکار تھا۔
ابو عبداللہؓ کے بیعت سے انکار کا مطلب تھا جنگ و جدل جوکہ مدینہ منورہ میں ہوتا مگر برادر حسن کو یہ جنگ جدل مدینہ میں گوارہ نہ تھا چنانچہ آپؓ نے مکہ شریف جانے کا قصد فرمایا اور بمع اہل و عیال مکہ مکرمہ تشریف لے آئے جہاں آپؓ کا قیام قریب قریب پانچ ماہ رہا اب کیفیت یہ تھی کہ ایام حج قریب تھے دیگر مسلمانوں کے ساتھ آپؓ بھی احرام کی حالت میں تھے کہ یزید کے مقرر کردہ لوگ حاجیوں کے بھیس میں مکہ مکرمہ آچکے تھے۔ جن کی آمد کا مقصد حج کرنا نہ تھا بلکہ موقعہ پا کر ابن علیؓ کو قتل کرنا تھا۔
حضرت شبیرؓ کو ان لوگوں کے ناپاک ارادے کی بروقت خبر ہو گئی چنانچہ امام حسینؓ نے حج کو عمرے میں تبدیل کیا اور اپنے اہل و عیال کے ہمراہ نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔ ابھی 61 ہجری کا آغاز ہی ہوا تھا کہ امام حسین میدان کربلا میں پہنچ گئے یہ مقام ملک عراق میں واقع ہے۔ البتہ اس مقام تک آتے آتے پسر علیؓ کو لاتعداد مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ کربلا کے چٹیل میدان میں امام حسینؓ یزیدی فوجوں کے گھیرے میں آ چکے تھے دشمنان اہل بیت کی عددی قوت بڑھتی جا رہی تھی اور ساتھ میں آپؓ پر یزید کی بیعت کے لیے دباؤ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔
اس موقعے پر آسان ترین راستہ تو یہ تھا کہ یزید کی بیعت کر لی جاتی اپنی و اپنے اہل و عیال کی جانیں بھی بچا لی جاتیں مگر 56 برس پانچ ماہ کی عمر رکھنے والے محبوبؐ خدا کے نواسے نے فرمایا ۔ ''ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے'' یزید کی بیعت کے بعد میں آنے والی زندگی نعوذ باللہ ذلت ہی کی زندگی تو ہوتی ہے، چنانچہ اس کیفیت میں امام حسینؓ نے یہ فرماتے ہوئے کہ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا ان کے ظلم میں شریک ہونے کے مترادف ہے کہ یزیدی لشکر جس کی تعداد ہزاروں میں تھی کہ سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا گو کہ یہ مشکل ترین فیصلہ تھا کیونکہ یہ فیصلہ اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت حسینؓ کو اپنے بچپن کے دوست حبیبؓ ابن مظاہر قمر بنی ہاشم جناب عباس، ابن علیؓ یعنی اپنے بھائی و اپنے بیٹے ہم شکل رسولؐ عربی حضرت علی اکبر مرحوم بھائی حضرت حسن کے صاحبزادے حضرت قاسمؓ و دیگر عزیز و اقارب جن میں 32 کوفی و 40 مدنی ساتھیوں کی قربانی دینا ہو گی اور دس محرم 61 ہجری کو ہوا بھی ایسا ہی۔ یعنی ان سب نے میرے و آپ کے امام حسینؓ پر اپنی جانیں نچھاور کر دیں اور جگر گوشہ خاتون جنت نے بھی عین نماز جمعۃ المبارک کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش فرمایا اور آنے والے قیامت تک کے مظلوم لوگوں کو گویا یہ پیغام دیا کہ اگر تم لوگوں کو اپنے نظریات کی صداقت کا پورا پورا یقین ہے تو پھر تم لوگ جدوجہد کا راستہ اختیار کرو اور اگر تم کامیابی کے یقین کے ساتھ جدوجہد کرو گے تو ضرور تمہاری جدوجہد رنگ لائے گی اور تم کامیاب رہو گے۔
اس ضمن یہاں ہم جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا سے منسوب ایک واقعہ بیان کریں تو بے محل نہ ہو گا چنانچہ نیلسن منڈیلا کہتے ہیں کہ ان کی طویل ترین جدوجہد کے دوران جو کہ انھوں نے اپنے ہم وطنوں کی آزادی کے لیے کی اس تاریخی جدوجہد کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ جب میں نے سوچا کہ میری جدوجہد لاحاصل ہے اور جنوبی افریقہ کی عوام کو نسلی تعصب سے آزادی ملنے والی نہیں ہے مگر دوسرے ہی لمحے مجھے قربانی حسینؓ یاد آ گئی چنانچہ میں نے اسی وقت یہ عہد کیا کہ میں اپنے ساتھیوں سمیت جدوجہد جاری رکھوں گا پھر ایسا ہی ہوا اور دنیا نے دیکھا نیلسن منڈیلا کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور جنوبی افریقہ کے عوام کو نسلی تعصب سے آزادی مل گئی۔
اب اگر ہم عصر حاضر میں اپنے سماج پر ایک سرسری نظر میں ڈالیں تو ہمارا سماج تمام برائیوں کی گویا عملی تصویر پیش کر رہا ہے اور ہمارا سماج جبر و استحصال کا مکمل شکار ہے جن برائیوں نے ہمارے سماج کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے وہ یہ ہیں اول عدم مساوات۔ دوم۔ دہشتگردی ۔سوم ۔ملکی سیاست جیسے دینی سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔ چہارم ۔جاگیرداری و سرمایہ داری نظام کا نفاذ جس کے باعث تمام ملکی وسائل کا چند ہاتھوں میں تیزی سے سمیٹنا پنجم بڑھتی ہوئی بے روزگاری و افلاس جس کے باعث سماج میں بڑھتے ہوئے جرائم و لاقانونیت ششم بڑھتی ہوئی جہالت کیونکہ ہمارا تعلیمی معیار خطے کے تمام ممالک سے پست ہے کیا یہ تمام برائیاں ہم سے جدوجہد کا تقاضا نہیں کرتیں؟ اگر جواب ''ہاں'' میں ہے تو آج یوم عاشور 1438ھ و امام حسینؓ کے 1377ویں یوم شہادت کے موقعے پر ہم عہد کریں کہ اپنے سماج سے تمام قسم کے جبر و استحصال کا خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔