پارلیمنٹ کا بائیکاٹ غیر دانشمندانہ فیصلہ

اڑی حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا، جو مودی حکومت کی بوکھلاہٹ اور ہیجان کا مظہر تھا۔


[email protected]

مقبوضہ کشمیر میں نوجوان حریت پسند رہنما برہان وانی کی شہادت کے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال اور کشمیریوں پر بھارت کے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت کے حکمرانوں نے اڑی میں بھارتی فوجی کے ہیڈکوارٹر پر حملے کا ڈراما رچا کے اس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا، جو مودی حکومت کی بوکھلاہٹ اور ہیجان کا مظہر تھا۔ اس کے بعد بھارت نے پاکستان پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں مگر پاکستان کی بھرپور دفاعی تیاریوں کی وجہ سے بھارت حملے کی جرأت نہیں کر سکا۔

البتہ اس نے اپنے عوام کی تسلی کے لیے ایک نام نہاد ڈراما رچایا اور کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا۔ لیکن پاکستان نے اس جھوٹے دعوے کا پول کھول دیا۔ جس پر مودی سرکار کو بھارت میں بھی زبردست تنقید کا سامنا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی فوجیں جنگ کی حالت میں ہیں۔ ایسے میں سیاسی اور فوجی قیادت نے بھارت کو دوٹوک جواب دیا کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو اس کا بھرپور جواب دیں گے، لیکن بھارت مسلسل خطے میں کشیدگی بڑھا رہا ہے۔

پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی بند کر نے کی دھمکی، سارک کانفرنس کا التوا اور بعض دیگر اقدامات اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ ان حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے مگر خوش آیند بات یہ ہے کہ سیاسی اور فوجی قیادت اپنی ذمے داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اور ہر طرح کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

وزیراعظم نوازشریف کو اس صورتحال کا بخوبی ادراک ہے اسی لیے انھوں نے اسلام آباد پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بلایا۔ وزیر اعظم نے سابق صدر آصف علی زرداری کو خود فون کر کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی مگر انھوں نے اپنے صاحبزادے اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اجلاس کے لیے نامزد کر دیا۔ وزیر اعظم نوازشریف نے مولانا فضل الرحمن اور فاروق ستار سمیت تمام اہم سیاسی رہنماؤں کو اجلاس میں مدعو کیا اور حکومت پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو بھی دعوت دی گئی لیکن انھوں نے بوجوہ اجلاس شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ نہایت افسوس ناک بات ہے اس فیصلے سے بھارت کو خوشی ہوگی۔ بہرکیف عمران خان کے بغیر بھی یہ اجلاس ہوا اور تمام سیاسی پارٹیاں کشمیر کے مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھیں۔ اس سے بھارت کو یہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت متحرک ہے اور تمام سیاسی جماعتیں بھارت کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملا دیں گی۔ ایسی بے یقینی کی فضاء میں حکومت پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں سے صلاح و مشورہ کرنا ایک اچھا فیصلہ تھا۔

امید ہے اب یہ اجلاس نتیجہ خیز بھی ثابت ہو گا۔ بعدازاں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تاکہ مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔ لیکن عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ وہ نوازشریف کو وزیر اعظم نہیں مانتے جس پر حکومتی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بھی حیرت کا اظہار کیا گیا۔

خاص طور پر پیپلزپارٹی کے رہنماؤں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور اعتراز احسن نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ عمران خان کے بائیکاٹ کا اعلان سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ وزیر اعظم نوازشریف کی اے پی سی میں تو شاہ محمود قریشی چلے گئے تھے۔ لیکن پی ٹی آئی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔ دراصل عمران خان اپنی جماعت کو ہی حقیقی اپوزیشن تصور کرتے ہیں اور پیپلز پارٹی کو اپوزیشن کے طور پر اہمیت نہیں دیتے اسی لیے وہ اپوزیشن سے مل کر فیصلے کرنے کے بجائے سولو فلائیٹ کرتے ہیں۔

حالانکہ بعض فیصلے انھیں مہنگے بھی پڑے ہیں۔ بہرحال پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم محمد نوازشریف نے کہا کہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہوئی ہے۔ یہ ایوان عوامی اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے جس میں دفاع وطن کے حوالے سے تقسیم کی کوئی یکسر نہیں کوئی حزب اختلاف ہے نہ حزب اقتدار۔ پاکستان کے دفاع کے لیے ہم سب پاکستانی ہیں۔ اگر بھارت واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو اپنے قول و فعل کے تضاد کو دور کرے۔ پاکستان جنگ نہیں چاہتا پائیدار امن کی خواہش رکھتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر بامعنی، بامقصد اور نتیجہ خیز بات چیت چاہتے ہیں۔ انھوں نے بھارتی وزیر اعظم مودی کو للکارتے ہوئے کہا کہ بارود بونے سے پھول نہیں کھلتے اور کشمیریوں کو نابینا کرکے دنیا کو اندھا نہیں بناسکتے۔ اجلاس سے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ، مولانا فضل الرحمن، فاروق ستار، سراج الحق، غلام احمد بلور، آفتاب شیر پاؤ، سعید غنی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ پاک بھارت کشیدگی کے پس منظر میں حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر نہایت مستحسن فیصلہ کیا ہے۔

اس سے آیندہ لائحہ مرتب کرنے میں بھی مدد ملے گی اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے نئی تجاویز بھی سامنے آئیں گی۔ مگر یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ اس موقع پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا وزیر اعظم نوازشریف کی اے پی سی اور پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرنے جو تاثر بھارت سمیت پوری دنیا میں پھیلا ہے وہ سراسر منفی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے اس خبر کو بری طرح اچھالا ہے اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا بھارتی میڈیا کو اچھا موقع ہاتھ آگیا ہے۔

بھارتی میڈیا نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں اپوزیشن بھی نوازشریف کا ساتھ نہیں دے رہی جو نواز حکومت کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ عمران خان کے غیر دانشمندانہ فیصلوں سے دشمن کے ہاتھ مضبوط ہورہے ہیں اور پاکستان کی جنگ ہنسائی ہورہی ہے۔ انھوں نے اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کو قومی مفادات پر ترجیح دے کر بدترین مثال قائم کی ہے۔ یہ ملک و قوم پر ایسا حساس وقت تھا کہ جب انھیں تمام اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر ہونا چاہیے۔ مگر مسلسل وہ انتشار کی سیاست کررہے ہیں اور جو دشمن ملک کی سلامتی کے در پے ہے اس کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔

رائے ونڈ مارچ میں انھوں نے اسلام آباد بند کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ً 30 اکتوبر کو وہ اسلام آباد پر چڑھائی کریں گے ایک طرف ملک پر جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں اور دشمن ہماری تاک میں بیٹھا ہے اور دوسری طرف عمران خان 30 اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین کو غالباً ملک کے موجودہ حالات کا قطعی کوئی ادراک نہیں ہے بلاشبہ سینیٹر نہال ہاشمی نے درست کہا ہے کہ مودی باہر سے اور عمران خان ملک پر اندر سے حملہ کررہے ہیں۔

بعض حلقوں نے اسے عمران خان کی اسلام آباد پر سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی سے بھی تعبیر کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اب آیندہ عام انتخابات میں تقریباً ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔ عمران خان اس دوران صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنے غیر دانشمندانہ فیصلوں سے پاکستان اور اپنی جماعت کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ اور اگر وہ مسلسل اپنی موجودہ پالیسیوں پر عمل پیرا رہے تو اس سے ایک طرف بھارت خوش ہوگا اور دوسری جانب ان پر جمہوریت اور جمہوری حکومت گرانے کا الزام بھی عائد کیا جائے گا۔ میری عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔