وزیراعلیٰ مراد علی شاہ دل کی مرادیں پوری کریں
دانشور کہتے ہیں کہ ہمیشہ اپنے کہے ہوئے الفاظ کی حفاظت کرو
دانشور کہتے ہیں کہ ہمیشہ اپنے کہے ہوئے الفاظ کی حفاظت کرو، اس لیے کہ عملی زندگی میں تمہارے الفاظ تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں جو بعد میں آپ کے لیے سرخرو اعمال ہوتے ہیں پھر ان اعمالوں کی وجہ سے آپ تاریخ کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں نیکیاں اور محبتیں شاید آپ کو زندگی میں آسائشیں نہ دے سکیں مگر آنے والی نسلیں آپ کی مشکور ضرور ہوں گی۔
گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ شادی اور ولیمے میں ون ڈش ہو گی جب کہ تاجر صبح 9 بجے سے کاروبار شروع کر کے شام 7 بجے تک بند کر دیں اگر وزیر اعلیٰ نے ان پٹاریوں کو کھولا ہے تو وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے کم ازکم شادی اور ولیمے میں کھانے پر پابندی عائد کروادیں اور اس پر ہمت و استقامت سے عمل کروائیں اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو تاریخ جو غریب، نادار، مفلس مرتب کرے گا ان کا نام کرشماتی شخصیت میں آئے گا جس شخص کی چار بیٹیاں ہیں اور اس کی ماہانہ آمدنی چالیس ہزار ہے جب کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے جب وہ اپنی بچی کی شادی کا سوچتا ہے تو اس کا دل ڈوب جاتا ہے کہ اسے صرف 200 افراد کے کھانے کے لیے جو معمولی ہو گا ڈیڑھ لاکھ درکار ہیں، ہال کا کرایہ بھی لاکھ سے کم نہیں.
اس آس میں غریب کی بیٹیاں بے یار و مددگار ہوکر اپنے سروں میں چاندی کی لٹھیں سجا لیتی ہیں۔ مراد علی شاہ صاحب خدارا شادی پر کھانے پر پابندی کا بل اسمبلی سے ایک دفعہ اکثریت سے منظور کروا لیں، اس میں اپوزیشن والے بھی یقینا آپ کا ساتھ دیں گے اور جو نہیں دیں گے ان کے عزائم بھی کھل کر سامنے آجائیں گے۔ اس بات کو آپ ذہن نشین کر لیں کہ آپ کو بل پاس کروانا ہے جو لوگ دولت، تعلقات اور پیسے کے تخت پر براجمان ہیں انھوں نے تو وہی کرنا ہے جو امیروں کی شادیوں میں ہوتا مگر غریب اور مجبور کو تو بس بہانہ چاہیے کہ کیا کریں؟ بھئی کھانے پر پابندی ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ماضی میں بھی شادی کے کھانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
بحیثیت صحافی کے اکثر امیر و کبیر افراد کی شادیوں میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ کراچی کے جو بڑے لان تھے ان میں دو راستے ہوتے تھے ایک میں سیاست دان، بیوروکریٹ، ایم این اے، ایم پی اے، اعلیٰ افسران، صحافی حضرات ہوتے تھے۔ دوسرے راستے میں عام لوگ ہوتے تھے جب کہ ہم جیسے مفلس اور غریب صحافی تو وہ ڈش بھی استعمال کرتے تھے یہ سوچ کر کہ گھر میں تو یہ ملے گا جو کھانا ہے آج ہی کھا لو۔ ہال کے باہر پولیس کی گاڑیاں لوگوں کی حفاظت پر مامور ہوتی تھیں۔
پابندی کے باوجود اندر جو کچھ کھلایا جاتا تھا اس کا پولیس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا کہ آخر احترام بھی کوئی چیز ہے جب کہ غریب خوش تھا کہ 30 یا 35 کریٹ ٹھنڈی بوتلوں سے اس کی جان چھوٹ جاتی تھی۔ خدارا شادی کے کھانے پر اسمبلی سے بل پاس کروائیں اور پھر یہ بل تو جب ہی منسوخ ہو گا جب کسی اور کی اکثریت اسمبلی میں ہو گی، PPP کے ہوتے ہوئے ہمیں یہ ناممکن نظر آتا ہے وزیر اعلیٰ ہمارے حکمران بادشاہ ہماری اپوزیشن بادشاہ ہماری قومی وصوبائی اسمبلیاں بادشاہ، بیوروکریسی بادشاہ، صنعت کاربادشاہ اور یاد رکھیں عوام کا صرف اللہ بادشاہ اور یہ خوب سمجھتی ہے کہ ان نقلی بادشاہوں کے اوپر بھی رب ذوالجلال کی ذات بادشاہ جو حقیقی بادشاہ ہے۔
مراد علی شاہ آپ پر اس حوالے سے منفی پروپیگنڈے کی بارش ہو گی۔ مختلف حوالے سے مال کمانے والے دلائل دیں گے مگر آپ انصاف کی چھتری کو تان لیں۔ رب کریم آپ کی مدد کرے گا، کتنے ہی بے شمار بزرگوں نے آپ کے اس بیان کو پڑھنے کے بعد مجھ سے کہا کہ آپ اس پرکچھ لکھیں شاید وزیر اعلیٰ کو کچھ رحم آ جائے وہ چاہتے تو ہمیں اس مشکل سے نکال سکتے ہیں۔ میں نے مملکت خدا داد میں رہنے والوں کی آواز آپ تک پہنچا دی ہے۔ ان غریبوں کی جھولیوں کو اپنے نام کر لیجیے اس میں آپ کی دین اور دنیا بہتر ہو جائے گی ۔
آج کل ایک اشتہار اخبارات کی زینت بن گیا ہے ''ہیلمٹ ضروری'' اس پہ بھی وزیر اعلیٰ سے درخواست ہے کہ اس معاملے پر خصوصی توجہ دیں، اس شہرکا مسئلہ ''ہیلمٹ'' نہیں ہے۔ لاقانونیت کا سدباب کیجیے 80 فیصد موٹرسائیکل سوار حضرات نے اس شہرکا حسن چھین لیا ہے آپ آئی جی اور ڈی آئی جی ٹریفک ڈاکٹر امیر شیخ کو ہدایت دیں کہ بغیر کسی رعایت کے قانون کے مطابق ایسے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں جو اس جرم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
(1) کم سن بچے بے خوف و خطر موٹرسائیکل چلا رہے ہیں (2) لائسنس اورکاغذات چیک کریں۔ (3) سائیڈ گلاس اور انڈیکٹر لگوائیں (4)۔ موٹرسائیکل والے حضرات سائیڈ میں چلیں۔(5) سگنل کی پابندی کریں۔ (6) جہاں چاہتے ہیں موٹرسائیکل ترچھی کر کے کھڑی کر دیتے ہیں ایسی موٹرسائیکل کو اٹھا کر تھانے میں بند کریں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر پولیس ایمانداری سے صرف لائسنس اورکاغذات چیک کرے تو یقین مانیں 80 فیصد کے پاس دونوں چیزیں نہیں ہوں گی۔ کار سواروں کے لیے یہ عذاب کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔
شریف شہری ٹیکس دینے کے باوجود بھی ان جیسے لوگوں کے ستم سہہ رہا ہے تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ لاقانونیت کے سوار پولیس اور قانون کو اپنے گھرکی لونڈی سمجھتے ہیں، ہیلمٹ خدارا اس شہر کا مسئلہ نہیں ہے قانونی طور پر لاقانونیت کرنے والوں کو کچل دیجیے تاکہ شریف شہری سکون کا سانس لے سکیں جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ موٹرکیب رکشہ نے پوری کر دی ہے ساری سڑک گھیر کر کھڑے ہوتے ہیں پولیس موجود ہوتی ہے مگر انھیں کچھ نہیں کہتی اس کی کیا وجہ ہے؟
یہ پولیس اور عوام اچھی طرح جانتے ہیں موٹرسائیکلوں، رکشوں پر نمبر پلیٹ تو اب ہوتی ہی نہیں ہے بیوروکریٹ اور پولیس افسران سے انتہائی معذرت کے ساتھ کبھی بغیر پروٹوکول کے ڈیفنس اور کلفٹن کے علاوہ خود گاڑی چلا کر شہر کا دورہ کریں تو اس لاقانونیت کو دیکھنے کے بعد دفتر پہنچنے سے پہلے ہی پریس کانفرنس کر دیں گے کہ جو جرائم اوپر تحریر کیے ہیں اس کی روشنی میں ہمارے معزز پولیس افسران کہہ بیٹھیں گے کہ جو ان جرائم میں ملوث پایا گیا اس کے خلاف موٹروہیکل رولز 1969ء کی دفعہ 73 (7) کے تحت سخت قانونی کارروائی کی جائے گی مگر جناب اس شہر میں شریف شہری کے ایسے نصیب کہاں خاص طور پر وہ شہری جن کی گاڑی میں کاغذات مکمل ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ نجانے ہمیں شرافت کا سبق کس نے یاد کرایا تھا۔
بھلا بتائیے خواتین کو ہیلمٹ کے درس دینے کے اشتہار دیے جا رہے ہیں۔ یورپ کی بات نہ کیجیے گا کہ وہاں خواتین ہیلمٹ استعمال کرتی ہیں اور اگر ایسی مثال دی جائے گی تو پھر بات بھی یورپین قانون کے تحت ہو گی پولیس قانون کی پاسدار ہے کروڑوں کے اشتہار اخبارات میں ہیلمٹ کے حوالے سے دیے گئے مگر جو خود سر ہیں وہ قانون کو پاؤں تلے رکھتے ہیں مخالف سمت سے آنے والوں نے ادھم مچا رکھا ہے۔ خدارا پولیس کے افسران سے گزارش ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کے احکامات پر عمل کریں تاکہ شریف شہری سکھ کا سانس لے سکیں کیا خوب شاعر نے کہا ہے:
میرے مزاج کا اس میں کوئی قصور نہیں
تیرے سلوک نے لہجہ بدل دیا میرا
گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ شادی اور ولیمے میں ون ڈش ہو گی جب کہ تاجر صبح 9 بجے سے کاروبار شروع کر کے شام 7 بجے تک بند کر دیں اگر وزیر اعلیٰ نے ان پٹاریوں کو کھولا ہے تو وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے کم ازکم شادی اور ولیمے میں کھانے پر پابندی عائد کروادیں اور اس پر ہمت و استقامت سے عمل کروائیں اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو تاریخ جو غریب، نادار، مفلس مرتب کرے گا ان کا نام کرشماتی شخصیت میں آئے گا جس شخص کی چار بیٹیاں ہیں اور اس کی ماہانہ آمدنی چالیس ہزار ہے جب کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے جب وہ اپنی بچی کی شادی کا سوچتا ہے تو اس کا دل ڈوب جاتا ہے کہ اسے صرف 200 افراد کے کھانے کے لیے جو معمولی ہو گا ڈیڑھ لاکھ درکار ہیں، ہال کا کرایہ بھی لاکھ سے کم نہیں.
اس آس میں غریب کی بیٹیاں بے یار و مددگار ہوکر اپنے سروں میں چاندی کی لٹھیں سجا لیتی ہیں۔ مراد علی شاہ صاحب خدارا شادی پر کھانے پر پابندی کا بل اسمبلی سے ایک دفعہ اکثریت سے منظور کروا لیں، اس میں اپوزیشن والے بھی یقینا آپ کا ساتھ دیں گے اور جو نہیں دیں گے ان کے عزائم بھی کھل کر سامنے آجائیں گے۔ اس بات کو آپ ذہن نشین کر لیں کہ آپ کو بل پاس کروانا ہے جو لوگ دولت، تعلقات اور پیسے کے تخت پر براجمان ہیں انھوں نے تو وہی کرنا ہے جو امیروں کی شادیوں میں ہوتا مگر غریب اور مجبور کو تو بس بہانہ چاہیے کہ کیا کریں؟ بھئی کھانے پر پابندی ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ماضی میں بھی شادی کے کھانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
بحیثیت صحافی کے اکثر امیر و کبیر افراد کی شادیوں میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ کراچی کے جو بڑے لان تھے ان میں دو راستے ہوتے تھے ایک میں سیاست دان، بیوروکریٹ، ایم این اے، ایم پی اے، اعلیٰ افسران، صحافی حضرات ہوتے تھے۔ دوسرے راستے میں عام لوگ ہوتے تھے جب کہ ہم جیسے مفلس اور غریب صحافی تو وہ ڈش بھی استعمال کرتے تھے یہ سوچ کر کہ گھر میں تو یہ ملے گا جو کھانا ہے آج ہی کھا لو۔ ہال کے باہر پولیس کی گاڑیاں لوگوں کی حفاظت پر مامور ہوتی تھیں۔
پابندی کے باوجود اندر جو کچھ کھلایا جاتا تھا اس کا پولیس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا کہ آخر احترام بھی کوئی چیز ہے جب کہ غریب خوش تھا کہ 30 یا 35 کریٹ ٹھنڈی بوتلوں سے اس کی جان چھوٹ جاتی تھی۔ خدارا شادی کے کھانے پر اسمبلی سے بل پاس کروائیں اور پھر یہ بل تو جب ہی منسوخ ہو گا جب کسی اور کی اکثریت اسمبلی میں ہو گی، PPP کے ہوتے ہوئے ہمیں یہ ناممکن نظر آتا ہے وزیر اعلیٰ ہمارے حکمران بادشاہ ہماری اپوزیشن بادشاہ ہماری قومی وصوبائی اسمبلیاں بادشاہ، بیوروکریسی بادشاہ، صنعت کاربادشاہ اور یاد رکھیں عوام کا صرف اللہ بادشاہ اور یہ خوب سمجھتی ہے کہ ان نقلی بادشاہوں کے اوپر بھی رب ذوالجلال کی ذات بادشاہ جو حقیقی بادشاہ ہے۔
مراد علی شاہ آپ پر اس حوالے سے منفی پروپیگنڈے کی بارش ہو گی۔ مختلف حوالے سے مال کمانے والے دلائل دیں گے مگر آپ انصاف کی چھتری کو تان لیں۔ رب کریم آپ کی مدد کرے گا، کتنے ہی بے شمار بزرگوں نے آپ کے اس بیان کو پڑھنے کے بعد مجھ سے کہا کہ آپ اس پرکچھ لکھیں شاید وزیر اعلیٰ کو کچھ رحم آ جائے وہ چاہتے تو ہمیں اس مشکل سے نکال سکتے ہیں۔ میں نے مملکت خدا داد میں رہنے والوں کی آواز آپ تک پہنچا دی ہے۔ ان غریبوں کی جھولیوں کو اپنے نام کر لیجیے اس میں آپ کی دین اور دنیا بہتر ہو جائے گی ۔
آج کل ایک اشتہار اخبارات کی زینت بن گیا ہے ''ہیلمٹ ضروری'' اس پہ بھی وزیر اعلیٰ سے درخواست ہے کہ اس معاملے پر خصوصی توجہ دیں، اس شہرکا مسئلہ ''ہیلمٹ'' نہیں ہے۔ لاقانونیت کا سدباب کیجیے 80 فیصد موٹرسائیکل سوار حضرات نے اس شہرکا حسن چھین لیا ہے آپ آئی جی اور ڈی آئی جی ٹریفک ڈاکٹر امیر شیخ کو ہدایت دیں کہ بغیر کسی رعایت کے قانون کے مطابق ایسے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں جو اس جرم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
(1) کم سن بچے بے خوف و خطر موٹرسائیکل چلا رہے ہیں (2) لائسنس اورکاغذات چیک کریں۔ (3) سائیڈ گلاس اور انڈیکٹر لگوائیں (4)۔ موٹرسائیکل والے حضرات سائیڈ میں چلیں۔(5) سگنل کی پابندی کریں۔ (6) جہاں چاہتے ہیں موٹرسائیکل ترچھی کر کے کھڑی کر دیتے ہیں ایسی موٹرسائیکل کو اٹھا کر تھانے میں بند کریں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر پولیس ایمانداری سے صرف لائسنس اورکاغذات چیک کرے تو یقین مانیں 80 فیصد کے پاس دونوں چیزیں نہیں ہوں گی۔ کار سواروں کے لیے یہ عذاب کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔
شریف شہری ٹیکس دینے کے باوجود بھی ان جیسے لوگوں کے ستم سہہ رہا ہے تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ لاقانونیت کے سوار پولیس اور قانون کو اپنے گھرکی لونڈی سمجھتے ہیں، ہیلمٹ خدارا اس شہر کا مسئلہ نہیں ہے قانونی طور پر لاقانونیت کرنے والوں کو کچل دیجیے تاکہ شریف شہری سکون کا سانس لے سکیں جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ موٹرکیب رکشہ نے پوری کر دی ہے ساری سڑک گھیر کر کھڑے ہوتے ہیں پولیس موجود ہوتی ہے مگر انھیں کچھ نہیں کہتی اس کی کیا وجہ ہے؟
یہ پولیس اور عوام اچھی طرح جانتے ہیں موٹرسائیکلوں، رکشوں پر نمبر پلیٹ تو اب ہوتی ہی نہیں ہے بیوروکریٹ اور پولیس افسران سے انتہائی معذرت کے ساتھ کبھی بغیر پروٹوکول کے ڈیفنس اور کلفٹن کے علاوہ خود گاڑی چلا کر شہر کا دورہ کریں تو اس لاقانونیت کو دیکھنے کے بعد دفتر پہنچنے سے پہلے ہی پریس کانفرنس کر دیں گے کہ جو جرائم اوپر تحریر کیے ہیں اس کی روشنی میں ہمارے معزز پولیس افسران کہہ بیٹھیں گے کہ جو ان جرائم میں ملوث پایا گیا اس کے خلاف موٹروہیکل رولز 1969ء کی دفعہ 73 (7) کے تحت سخت قانونی کارروائی کی جائے گی مگر جناب اس شہر میں شریف شہری کے ایسے نصیب کہاں خاص طور پر وہ شہری جن کی گاڑی میں کاغذات مکمل ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ نجانے ہمیں شرافت کا سبق کس نے یاد کرایا تھا۔
بھلا بتائیے خواتین کو ہیلمٹ کے درس دینے کے اشتہار دیے جا رہے ہیں۔ یورپ کی بات نہ کیجیے گا کہ وہاں خواتین ہیلمٹ استعمال کرتی ہیں اور اگر ایسی مثال دی جائے گی تو پھر بات بھی یورپین قانون کے تحت ہو گی پولیس قانون کی پاسدار ہے کروڑوں کے اشتہار اخبارات میں ہیلمٹ کے حوالے سے دیے گئے مگر جو خود سر ہیں وہ قانون کو پاؤں تلے رکھتے ہیں مخالف سمت سے آنے والوں نے ادھم مچا رکھا ہے۔ خدارا پولیس کے افسران سے گزارش ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کے احکامات پر عمل کریں تاکہ شریف شہری سکھ کا سانس لے سکیں کیا خوب شاعر نے کہا ہے:
میرے مزاج کا اس میں کوئی قصور نہیں
تیرے سلوک نے لہجہ بدل دیا میرا