اِس جنگ میں آگے اب کیا ہونا چاہیے
میاںداد اور آفریدی کے درمیان یہ لڑائی یہیں ختم نہیں ہوگی بلکہ میچ فکسنگ کی آگ دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے
میرے پاس، دولت ہے شہرت ہے، عزت ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟ میرے پاس نام، عزت، شہرت اور ایک ایسی صلاحیت بھی ہے جو اِن سب کو ذرا سی دیر میں مٹی میں ملا سکتی ہے، جی ہاں جناب! اس مشہور و معروف فلمی ڈائیلاگز سے یقیناً سب ہی آشنا ہوں گے اور یقیناً آپ سب میرے دوسرے فقرے سے بھی اتفاق کریں گے کہ یہ حضرت انسان کی زبان کا چمڑا کچھ ایسا پھسلواں ہے کہ ذرا سی دیر میں دولت، عزت، شہرت اور شخصیت کے دبیز پردوں تلے چھپے اصل کردار کو ذرا سی دیر میں عیاں کرسکتا ہے۔ اگر بات سمجھ نہیں آتی تو غور سے دنیائے کرکٹ کے دو مشہور اور ریکارڈ یافتہ کھلاڑیوں کی جانب دیکھئے جو یادگار چھکے لگانے کے ساتھ ساتھ زبانی شارٹس کھیلنے میں بھی کسی سے کم نہیں۔
جی محترم قارئین یہاں بات ہورہی ہے پاکستان کے دو صف اول کے کھلاڑیوں جاوید میانداد اور شاہد آفریدی کے درمیان جاری زبانی جنگ کی جو اب شدت اختیار کرتی جا رہی اور دونوں ہی جانب آگ برابر لگی ہوئی کے مصداق زبانی کلامی گولہ باری کا سلسلہ طول ہی پکڑتا جا رہا ہے اور دونوں ہی وقار کو داؤ پر لگائے (برائے مہربانی وقار یونس نہ سمجھئے گا) ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں۔ بات کا آغاز ہوا شاہد آفریدی کے کیرئیر کے آخری میچ کھیلنے کے حوالے سے، جب سابق کپتان و کوچ جاوید میانداد نے بوم بوم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آفریدی آخری میچ کھیلنے کا مطالبہ صرف پیسوں کے حصول کے لیے کررہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا لالہ کی موشگافیوں اور نڈر انداز سے تو سب ہی واقف ہیں۔
لالہ نے تو پھر میانداد کے تو لتے ہی لے لئے اور ایک تقریب کے دوران سابق بلے باز پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ
بس یہ بیان دینے کی دیر تھی کہ جاوید میانداد تو طیش میں آئے ہی لیکن میانداد اور آفریدی کے مداحوں کے درمیان ٹوئٹر پر ہی جنگ چھڑ گئی اور ایک دوسرے پر ہر وہ الزام لگایا جس کا تصور بھی محال تھا۔
مندرجہ بالہ مثالیں تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں کیونکہ وہاں درجنوں نہیں سینکڑوں ایسے پیغامات ہیں جس میں آفریدی اور میانداد کے مداحوں نے دونوں ہی کھلاڑیوں کی عزت کا تماشہ بنادیا ہے۔
لیکن جب اتنا سب کچھ ہوجائے تو میانداد بھلا کیسے خاموش رہ سکتے ہیں، انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے بعد شاہد آفریدی پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کردئیے۔ جس کے بعد معاملہ کی نوعیت سنگین صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آفریدی نے الزام پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے سنجیدگی سے لیتے ہوئے میانداد کو قانونی نوٹس بھجوانے کا اعلان کردیا ہے۔
خیر کچھ اور ہو یا نہ ہو اس توتکار میں دونوں کھلاڑیوں کی شہرت اور عزت پر ضرور انگلیاں اٹھ رہی ہیں، اگر جاوید میاںداد نے بیان داغتے وقت اپنی بزرگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو آفریدی نے بھی حدود پھلانگتے ہوئے لحاظ کو فراموش کردیا اور اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ معاملہ قانونی چارہ جوئی تک جا پہنچا ہے۔
لیکن میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر میانداد سمجھتے ہیں کہ وہ میچ فکسنگ کا الزام عائد کرکے خود کو سرخرو ثابت کرلیں گے اور آفریدی کا یہ خیال ہے کہ وہ نوٹس بھیج کر اپنی پوزیشن واضح کرسکتے ہیں تو یہ دونوں ہی حضرات کی بھول ہے کیونکہ اس طرح کی حرکتوں کا مقصد صرف اور صرف اپنی انا کو تسکین پہنچانا ہے اور اس طرح یہ معاملہ یہی اختتام پزیر نہیں ہوگا بلکہ میچ فکسنگ کی آگ دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ لالہ اور میاںداد دونوں کو اِس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئیے کہ اگر وہ پیسوں کیلئے ہی کھیلتے ہیں تو اس میں ایسی کوئی اچھنبھے کی بات نہیں کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ۔ تو میرا مشورہ تو یہی ہے کہ جو ہوا سو ہوا چھوٹے میاں اور بڑے میاں دونوں برادران ِ کرکٹ کو چاہیے کہ ذرا سا دل کو کشادہ کریں اور ایک دوسرے کی بدکلامی اور الزامات کو نظر انداز کر دیجئے اور پاکستان کرکٹ جو عالمی طور پر بحالی کی جانب گامزن ہے اس کی بدنامی کا سبب نہ بنیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جی محترم قارئین یہاں بات ہورہی ہے پاکستان کے دو صف اول کے کھلاڑیوں جاوید میانداد اور شاہد آفریدی کے درمیان جاری زبانی جنگ کی جو اب شدت اختیار کرتی جا رہی اور دونوں ہی جانب آگ برابر لگی ہوئی کے مصداق زبانی کلامی گولہ باری کا سلسلہ طول ہی پکڑتا جا رہا ہے اور دونوں ہی وقار کو داؤ پر لگائے (برائے مہربانی وقار یونس نہ سمجھئے گا) ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں۔ بات کا آغاز ہوا شاہد آفریدی کے کیرئیر کے آخری میچ کھیلنے کے حوالے سے، جب سابق کپتان و کوچ جاوید میانداد نے بوم بوم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آفریدی آخری میچ کھیلنے کا مطالبہ صرف پیسوں کے حصول کے لیے کررہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا لالہ کی موشگافیوں اور نڈر انداز سے تو سب ہی واقف ہیں۔
لالہ نے تو پھر میانداد کے تو لتے ہی لے لئے اور ایک تقریب کے دوران سابق بلے باز پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ
''جاوید میانداد کو ہمیشہ پیسوں کا مسئلہ درپیش رہا ہے ملک کے اتنے بڑے کرکٹر کو پیسوں کی بات نہیں کرنی چاہیئے اور عمران خان اور جاوید میانداد کے درمیان یہی فرق ہے۔''
بس یہ بیان دینے کی دیر تھی کہ جاوید میانداد تو طیش میں آئے ہی لیکن میانداد اور آفریدی کے مداحوں کے درمیان ٹوئٹر پر ہی جنگ چھڑ گئی اور ایک دوسرے پر ہر وہ الزام لگایا جس کا تصور بھی محال تھا۔
مندرجہ بالہ مثالیں تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں کیونکہ وہاں درجنوں نہیں سینکڑوں ایسے پیغامات ہیں جس میں آفریدی اور میانداد کے مداحوں نے دونوں ہی کھلاڑیوں کی عزت کا تماشہ بنادیا ہے۔
لیکن جب اتنا سب کچھ ہوجائے تو میانداد بھلا کیسے خاموش رہ سکتے ہیں، انہوں نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے بعد شاہد آفریدی پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کردئیے۔ جس کے بعد معاملہ کی نوعیت سنگین صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آفریدی نے الزام پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے سنجیدگی سے لیتے ہوئے میانداد کو قانونی نوٹس بھجوانے کا اعلان کردیا ہے۔
خیر کچھ اور ہو یا نہ ہو اس توتکار میں دونوں کھلاڑیوں کی شہرت اور عزت پر ضرور انگلیاں اٹھ رہی ہیں، اگر جاوید میاںداد نے بیان داغتے وقت اپنی بزرگی اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو آفریدی نے بھی حدود پھلانگتے ہوئے لحاظ کو فراموش کردیا اور اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ معاملہ قانونی چارہ جوئی تک جا پہنچا ہے۔
لیکن میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر میانداد سمجھتے ہیں کہ وہ میچ فکسنگ کا الزام عائد کرکے خود کو سرخرو ثابت کرلیں گے اور آفریدی کا یہ خیال ہے کہ وہ نوٹس بھیج کر اپنی پوزیشن واضح کرسکتے ہیں تو یہ دونوں ہی حضرات کی بھول ہے کیونکہ اس طرح کی حرکتوں کا مقصد صرف اور صرف اپنی انا کو تسکین پہنچانا ہے اور اس طرح یہ معاملہ یہی اختتام پزیر نہیں ہوگا بلکہ میچ فکسنگ کی آگ دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ لالہ اور میاںداد دونوں کو اِس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئیے کہ اگر وہ پیسوں کیلئے ہی کھیلتے ہیں تو اس میں ایسی کوئی اچھنبھے کی بات نہیں کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ۔ تو میرا مشورہ تو یہی ہے کہ جو ہوا سو ہوا چھوٹے میاں اور بڑے میاں دونوں برادران ِ کرکٹ کو چاہیے کہ ذرا سا دل کو کشادہ کریں اور ایک دوسرے کی بدکلامی اور الزامات کو نظر انداز کر دیجئے اور پاکستان کرکٹ جو عالمی طور پر بحالی کی جانب گامزن ہے اس کی بدنامی کا سبب نہ بنیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔