دہشت گردی اور اس کی وجوہات
یورپ کو اپنے اندرونی معاملات اور اپنے باشندوں کے علاوہ اپنی حکومتی پالیسیوں پر بھی غور کرنا چاہیے
برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک نے قرار دیا ہے کہ یورپی شہروں کی جیلیں جہادی گروپوں کی پرورش کرنے والی ''بریڈنگ گراؤنڈز'' کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں کیونکہ جرائم کے مرتکب افراد اپنی قانونی سزا بھگتنے کے باوجود بالعموم باطنی طور پراحساس جرم سے آزاد نہیں ہو پاتے تو پھر وہ اس قسم کی تنظیموں سے رجوع کرنے پر راغب ہو جاتے ہیں۔ اس تھنک ٹینک کے تجزیے کے مطابق جہادیوں اور جرائم پیشہ افراد کی بھرتی ایک جیسے ذریعے سے ہی ہوتی ہے کیونکہ ان کے سماجی نیٹ ورک میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔
عسکریت پسندی اور سیاسی تشدد کے موضوع پر تحقیق کرنے والے تھنک ٹینک نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جرائم اور عسکریت پسندی میں بھی ایک گٹھ جوڑ کا احساس ہوتا ہے۔ اس موضوع پر تحقیق داعش کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک سے زیادہ مقامات پر شروع کی گئی تھی جب کہ یورپ میں اس تحقیق کا آغاز کئی سال قبل یعنی2011ء سے ہو گیا تھا۔ تحقیقی نتائج میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جہادی کلچر کی طرف مائل نوجوانوں کی تلاش کے لیے یونیورسٹیوں اور مذہبی تنظیموں اداروں میں جانے کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں بلکہ یہ لوگ آپ کو اکثریت میں جیلوں یا بندی خانوں میں مل سکیں گے۔
تحقیق کے مطابق قید ہونے والوں میں ایسے لوگ جو خود کو قطعاً بے گناہ سمجھتے ہیں وہ سزا ملنے کے بعد انتقامی جذبے کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی کسی عسکری تنظیم میں شمولیت بعدازاں ایسی جذبے کے تحت ہوتی ہے جہاں وہ اپنے آپ کو ظالموں سے بدلہ لینے کے قابل بنا سکیں گے۔ عسکریت پسندی اور تشدد کے موضوع پر تحقیقات کرنے والے برطانوی ادارے آئی سی ایس آر کے ڈائریکٹر پیٹر نیومین نے کہا ہے کہ اب جرائم اور جہادی گروپوں کے مابین رابطوں کے آثار بتدریج مدہم ہو رہے ہیں۔
نیومین نے اس کے ساتھ ہی اضافہ کیا کہ جیلوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اصل بنیادیں یہیں استوار ہوتی ہیں اور نیٹ ورک بھی انھی مقامات پر قائم ہوتے ہیں۔ مسٹرنیومین کے مطابق دہشتگردی کی وارداتوں میں اضافے کی وجوہات کی تلاش کے لیے مزید تحقیق کی جا رہی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ بنیادی وجوہات کی تلاش کے لیے ہمیں جیلوں کی طرف ہی دیکھنا ہو گا۔ نیومین نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اب عسکریت پسندی میں مزید شدت پیدا ہو رہی ہے کیونکہ ان میں سزا یافتہ لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں لہٰذا ان کا خطرناک عسکریت پسند بن جاتا ان کے بچاؤ کے کام بھی آتا ہے۔
یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو اپنی مہارتیں بھی منتقل کرتے ہیں اس موقع پر وہ ایک دوسرے کو ہتھیاروں کا استعمال بھی سکھاتے ہیں نیز مالی ضروریات کے حصول کے طریقوں سے بھی آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ متذکرہ تحقیق میں دیگر یورپی ممالک یعنی بلجیئم' فرانس' ڈنمارک اور جرمنی کی تحقیقات سے بھی مدد لینے کی کوشش کی گئی ہے جہاں پر مبینہ طور پر یورپ کے مختلف ملکوں میں کارروائی کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔یورپی جیلوں میں بند کچھ قیدی اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان مہذب ممالک میں بھی انصاف کرتے ہوئے غلطیاں ہو رہی ہیں' دوسری جانب یورپ میں نسل پرستی اور اخلاقی گراوٹ بھی انتہا پسندی کی طرف رغبت کا باعث بن رہا ہے۔
یورپ کو اپنے اندرونی معاملات اور اپنے باشندوں کے علاوہ اپنی حکومتی پالیسیوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ یورپ کی استحصالی پالیسیاں غریب اور پسماندہ ملکوں میں احساس محرومی اور محکومی کے جذبات پیدا کر رہی ہیں' دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی استحصالی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ غریب اور پسماندہ ملکوں کو بھی ترقی کا حق حاصل ہے' اگر غریب ملک ترقی کریں گگے تو ان کے باشندوں میں محکومی کا احساس ختم ہو گا' اس سے دنیا بھر میں دہشت گردی میں کمی ہو گی۔
عسکریت پسندی اور سیاسی تشدد کے موضوع پر تحقیق کرنے والے تھنک ٹینک نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جرائم اور عسکریت پسندی میں بھی ایک گٹھ جوڑ کا احساس ہوتا ہے۔ اس موضوع پر تحقیق داعش کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک سے زیادہ مقامات پر شروع کی گئی تھی جب کہ یورپ میں اس تحقیق کا آغاز کئی سال قبل یعنی2011ء سے ہو گیا تھا۔ تحقیقی نتائج میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جہادی کلچر کی طرف مائل نوجوانوں کی تلاش کے لیے یونیورسٹیوں اور مذہبی تنظیموں اداروں میں جانے کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں بلکہ یہ لوگ آپ کو اکثریت میں جیلوں یا بندی خانوں میں مل سکیں گے۔
تحقیق کے مطابق قید ہونے والوں میں ایسے لوگ جو خود کو قطعاً بے گناہ سمجھتے ہیں وہ سزا ملنے کے بعد انتقامی جذبے کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی کسی عسکری تنظیم میں شمولیت بعدازاں ایسی جذبے کے تحت ہوتی ہے جہاں وہ اپنے آپ کو ظالموں سے بدلہ لینے کے قابل بنا سکیں گے۔ عسکریت پسندی اور تشدد کے موضوع پر تحقیقات کرنے والے برطانوی ادارے آئی سی ایس آر کے ڈائریکٹر پیٹر نیومین نے کہا ہے کہ اب جرائم اور جہادی گروپوں کے مابین رابطوں کے آثار بتدریج مدہم ہو رہے ہیں۔
نیومین نے اس کے ساتھ ہی اضافہ کیا کہ جیلوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اصل بنیادیں یہیں استوار ہوتی ہیں اور نیٹ ورک بھی انھی مقامات پر قائم ہوتے ہیں۔ مسٹرنیومین کے مطابق دہشتگردی کی وارداتوں میں اضافے کی وجوہات کی تلاش کے لیے مزید تحقیق کی جا رہی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ بنیادی وجوہات کی تلاش کے لیے ہمیں جیلوں کی طرف ہی دیکھنا ہو گا۔ نیومین نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اب عسکریت پسندی میں مزید شدت پیدا ہو رہی ہے کیونکہ ان میں سزا یافتہ لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں لہٰذا ان کا خطرناک عسکریت پسند بن جاتا ان کے بچاؤ کے کام بھی آتا ہے۔
یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو اپنی مہارتیں بھی منتقل کرتے ہیں اس موقع پر وہ ایک دوسرے کو ہتھیاروں کا استعمال بھی سکھاتے ہیں نیز مالی ضروریات کے حصول کے طریقوں سے بھی آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ متذکرہ تحقیق میں دیگر یورپی ممالک یعنی بلجیئم' فرانس' ڈنمارک اور جرمنی کی تحقیقات سے بھی مدد لینے کی کوشش کی گئی ہے جہاں پر مبینہ طور پر یورپ کے مختلف ملکوں میں کارروائی کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔یورپی جیلوں میں بند کچھ قیدی اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان مہذب ممالک میں بھی انصاف کرتے ہوئے غلطیاں ہو رہی ہیں' دوسری جانب یورپ میں نسل پرستی اور اخلاقی گراوٹ بھی انتہا پسندی کی طرف رغبت کا باعث بن رہا ہے۔
یورپ کو اپنے اندرونی معاملات اور اپنے باشندوں کے علاوہ اپنی حکومتی پالیسیوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ یورپ کی استحصالی پالیسیاں غریب اور پسماندہ ملکوں میں احساس محرومی اور محکومی کے جذبات پیدا کر رہی ہیں' دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی استحصالی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ غریب اور پسماندہ ملکوں کو بھی ترقی کا حق حاصل ہے' اگر غریب ملک ترقی کریں گگے تو ان کے باشندوں میں محکومی کا احساس ختم ہو گا' اس سے دنیا بھر میں دہشت گردی میں کمی ہو گی۔