فنِ مرثیہ گوئی اور میر انیسؔ
اردو زبان میں فن مرثیہ گوئی ایک معروف صنف ہے
اردو زبان میں فن مرثیہ گوئی ایک معروف صنف ہے۔ میر انیس نے اس صنف کو بام عروج پر پہنچا دیا اور اس کے خد وخال متعین کیے۔ مثلاً صُبح طیور کا زمزمہ کرنا، پیاس کا بیان، جنگ کا منظر، احباب اور اعزا کی قربانیوں کا منظر، رقت، ماحولیات گرمی کی شدت تپش جنگ کا منظر۔ جوش ملیح آبادی چونکہ بڑے قدوقامت کے شاعر تھے وہ کچھ مرثیہ میں اضافہ کر کے چلے گئے اور ان تجربات نے اس فن کو مزید آگے بڑھایا، مگر میر انیس کی شاعرانہ عظمت کو آج بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو اس دنیا کو چھوڑے ہوئے تقریباً 200 برس سے زیادہ ہو گئے مگر ان کے کلام کی گونج ہر سال محرم میں سنائی دیتی ہے۔
میرانیس خاندانی اعتبار سے شاعر تھے کئی پشتیں ان کے اجداد کی اس دشت میں گزر گئیں۔ میر ببر علی انیس کا تخلص کہا جاتا ہے کہ ان کے والد میر خلیق نے رکھا لیکن حالات اور تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ تخلص ناسخ مرحوم نے رکھا، اس میں میر حسن یا خلیق کا کوئی دخل نہیں ہے۔ گو کہ میر حسن صاحب کمال شاعر ہے اور اردو مثنوی میں آپ نے کمال کا حسن بیان کیا۔ شہزادہ بینظیر کی داستان گوئی ایک کمال ہے ظاہر ہے اپنے ماحول سے میر انیس بے انتہا متاثر ہوئے خود فرماتے ہیں:
باپ مداح کا مداح تو دادا مداح
ذرا آگے چل کر فرماتے ہیں
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
ساتویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
اس شعر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے آبا واجداد مرثیہ خوانی کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں اور یہ ان کی ساتویں پشت ہے۔ میروغالب سب نے اپنے اپنے حصے کی مداحیٔ شبیر فرمائی ہے۔ مگر میر انیس نے ایک منظم شکل وصورت میں فن مرثیہ گوئی کو پہنچا دیا۔ میر انیس نے منظر کشی کے ساتھ ساتھ فصاحت اور بلاغت کو بام عروج پر پہنچادیا۔ انھوں نے شاعری کی ابتدا میں خداوند تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ:
مبتدی ہوں مجھے توقیر عطا کر یارب
شوق مداحی شبیر عطا کر یارب
ان کی یہ دعا صد فیصد پوری ہوئی ذرا غور فرمایے، صبح کے منظر کو وہ کس طرح پیش کر رہے ہیں۔
وہ صبح اور وہ چھاؤں ستاروں کی اور وہ نور
دیکھے تو غش کرے آرنی گوئے کوہ طور
پیدا گلوں سے قدرت معبود کا ظہور
وہ جا بجا درختوں پہ تسبیح خواں طیور
گلشن خجل تھے وادی مینو اساس سے
جنگل تھا سب بسا ہوا پھولوں کی باس سے
امام حسینؓ حضرت علی مرتضیٰ کے فرزند تھے انھوں نے دنیائے عرب کے نامور تلوار بازوں کو سپرد خاک کیا اور آپ کی جنگ تاریخ کا ایک یادگار باب ہے۔ آپ جنگ کرتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تم نے تین روز کے پیاسے کی جنگ دیکھی فوجیں پسپا ہوتی جاتی تھیں۔ اس منظر کو میرانیس نے کچھ یوں پیش کیا ہے ان کے مرثیہ کا ایک بند ملاحظہ ہو۔
نکلی جو رن میں تیغ حسینی غلاف سے
اڑنے لگے شرر دم خارا شگاف سے
بجلی بڑھی چمک کے جو دشت معاف سے
صاف آئی الاماں کی صدا کوہ قاف سے
میر انیس گو کہ لکھنوی کہلاتے ہیں مگر ان کے اجداد دہلی سے آن کر فیض آباد یوپی میں آباد ہوئے تھے۔ مگر میر انیس اپنے بہت سے اوصاف میں میرتقی میرؔ سے مماثلت رکھتے تھے۔ شاہوں سے دور رہنا ان کا شیوہ تھا ۔ وہ عوامی مقبولیت کے شوقین تھے اور وہ آج تک عوام میں مقبول ہیں۔ کلام میں بے جا مشکل الفاظ سے گریز سادگی اور حسن و جمال سے آراستہ نظم ہوتی تھی۔ ان کے مزاج پر گفتگو ہو رہی تھی تو یہ واقعہ رقم کرتا چلوں۔
مرزا دبیر اور میر انیس کی مجلس کا یہ واقعہ واجد علی شاہ کی والدہ معظمہ ملکہ کشور صاحبہ نے اپنے وقت کے دونوں بڑے مرثیہ گو کو اپنے گھر مجلس پڑھنے کا ارادہ فرمایا۔ مرزا دبیر اور میر انیس دونوں مجلس پڑھنے حاضر ہوئے پہلے مرزا دبیر نے کلام سنایا آپ نے خصوصی پوشاک اور دستار بندی کی ہوئی تھی آپ نے شاہ کی شان میں چند اشعار اور پھر سلام پڑھا۔ اس کے بعد میر صاحب کی باری آئی آپ نے سفید ململ کا کرتا اور سفید ٹوپی زیب تن کی ہوئی تھی اور منبر پر کلام پڑھنے تشریف لائے اور سلام کی ابتدا کچھ یوں کی:
غیر کی مدح کریں شہ کا ثنا خواں ہو کر
مجرٔی اپنی ہوا کھوئیں سلیماں ہو کر
جب میر انیس نے سلام کا دوسرا شعر پڑھا
زلف اکبرکو جو دیکھا سر نیزہ پُرخوں
موئے سر کھول دیے ماں نے پریشاں ہو کر
بس ایک دم چلمن الٹ کر بادشاہ باہر نکل آئے اور بے ساختہ فتح اللہ برق سے مخاطب ہو کر کہا کیوں فتح اللہ میں نہ کہتا تھا کہ میر انیس لکھنو میں ایک ہی شاعر ہیں۔ بعد ختم مجلس میر انیس کو رسم شاہی کے اعزاز کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ گو کہ میر انیس نے اپنے اشعار میں طنز کا پہلو نہاں رکھا تھا۔ میر انیس نے گھوڑوں کی تعریف راکب و مرکب کی تعریف ہینچوں کی تعریف کچھ اس طرح کی فرماتے ہیں:
پیاسوں کے نیچے بھی غضب آبدار تھے
سیل فنا تھے صاعقہ و شعلہ بار تھے
عام طور پر شاعرانہ گفتگو میں میر انیس نے حضرت علی اکبر صاحبزادہ حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے جس خوبصورتی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے حضرت علی اکبر کی تعریف کی ہے وہ انتہائی کمال سے پیش کیا گیا ہے:
کنبے کی جان باپ کا اقبال گھرکا نور
یوسف جمال' صاحب توقیر ذی شعور
میر انیس نے سلام کے فن کو حسن سے دوچارکر دیا ہے اور بعض اشعار تو برزبان عام ضرب المثل کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں مثلاً:
انیس دم کا بھروسہ نہیں زمانے میں
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
ایک اور مقطع ملاحظہ فرمائیں کس قدر دوستی کی خو بو ہے اور کتنا شعور اس شعر میں پوشیدہ ہے:
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
میر انیس نے رباعی کو بھی بدرجہ کمال عروج بخشا، مناجات، قصیدہ ہر ایک فن شاعری کے شعبے کو جس کا مذہب اسلام سے تعلق ہو اس کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ ایک طرف جہاں میر انیس نے کربلا کی روایت حقیقی کو بھی برقرار رکھا ہے۔ وہ واقعہ نگاری میں اپنا جواب نہیں رکھتے میر انیس نے امام حسین کی جنگ کے واقعات کو یوں بیان کیا ہے جیسے کوئی اس وقت کربلا میں رقم کر رہا ہو۔ ان کی خیال آفرینی اور تحریرکو شیکسپیئر اور منظر نگاری کو ولیم ورڈز ورتھ سے بڑھ کر تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
امام حسین کی جنگ کے دوران دشمن تتر بتر ہو گئے تھے اور قریب کوئی نہ آتا تھا۔ کوئی نیزہ پھینکتا تھا توکوئی تیر، قریب کوئی نہ آتا تھا اس کو انھوں نے یوں رقم کیا کہ حسینؓ کے جسم پر ایک ہزار نو سو پچاس ضربیں لگی تھیں ذرا ملاحظہ فرمائیے:
ہزار نو صد و پنجاہ زخم کھائے ہوئے
حسین خاک پہ بیٹھے ہیں سر جھکائے ہوئے