پیپلز پارٹی کے سہارے
2008 میں مسلم لیگ (ق) کے مجموعی ووٹوں میں 2002 کے مقابلہ میں بائیس لاکھ سے زیادہ کمی ہوئی تھی
2013 کے عام انتخابات سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں دو سہارے تلاش کیے ہیں۔ گجرات کے چوہدری برادران اور وسائی والا کے میاں منظور احمد وٹو ۔ یہ دونوں ہی ایسے ساتھی ہیں جو خود اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
1970کی دہائی میں یہ بات عام تھی کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کھمبے کو بھی پارٹی ٹکٹ دے دیں تو وہ بھی الیکشن جیت جائے گا۔ 1988میں بے نظیر بھٹو نے تمام تر مخالفت کے باوجود اس پارٹی ووٹ کی مدد سے ہی دیگر جماعتوں سے زیادہ نشستیں جیتیں لیکن اس کے بعد ہر گزرتے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ووٹ بینک کم ہوتا چلا گیا۔ اب حالات یہ ہے کہ پارٹی کی اُمیدیں ق۔ لیگ کے ووٹوں سے وابستہ ہیں۔
حالیہ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ق) سے اتحاد اور اشتراک کے باوجود پیپلز پارٹی کے اُمیدوار آٹھ میں سے ایک بھی نشست نہیں جیت سکے۔ یہ خیال تو غلط ہی ثابت ہوا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ووٹ اکٹھے ہو جائیں گے تو مشترکہ امیدوار کو مسلم لیگ (ن) پر آسانی سے غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ آثار بتاتے ہیں کہ گجرات کے چوہدری برادران کی مسلم لیگ (ق) پیپلز پارٹی کے لیے جنرل الیکشن میں ایک کمزور سہارا ہی ثابت ہو گی۔
در اصل مسلم لیگ (ق) کے پاس پارٹی ووٹ نہیں ہے جو یہ پیپلز پارٹی کو منتقل کر سکے۔ یہ جماعت مقامی طور پر بااثر سیاسی خاندانوں پر مشتمل ایک گروپ ہے۔ مسلم لیگ کا جو تھوڑا بہت نظریاتی ووٹ بینک ہے اس نے ق لیگ کے پلڑے میں اپنا وزن نہیں ڈالا بلکہ وہ نواز شریف کے مسلم لیگی دھڑے کے ساتھ ہے۔ ان لوگوں میں پیش پیش پنجاب کے شہری متوسط طبقہ کے لوگ اور لاہور کا اُردو میڈیا ہے جس کا واضح جھکائو اور ہمدردی نواز شریف کی پارٹی کے ساتھ ہے۔
2008میں جب نواز شریف نے جلا وطنی سے واپس آ کر اپنی پارٹی کی کمان سنبھالی تو ان کی پارٹی کے اُمیدواروں کے ووٹوں میں نمایاں اضافہ ہوا جبکہ ق۔ لیگ کے ووٹوں میں بہت کمی ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2008 میں مسلم لیگ (ق) کے مجموعی ووٹوں میں 2002 کے مقابلہ میں بائیس لاکھ سے زیادہ کمی ہوئی تھی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں میں تقریباً 74 لاکھ کا اضافہ ہوا تھا۔ اُس وقت جنرل پرویز مشرف اقتدار میں تھے اور بیورو کریسی میں بھی ق لیگ کے حمایتی اچھے عہدوں پر تھے۔ پھر بھی اس کی پوزیشن گرتی چلی گئی۔ 2013 میں ق لیگ ان فوائد سے بھی محروم ہو گی تو اس کا کیا حال ہو گا۔
ق لیگ کے پاس لے دے کر رہ گئے مقامی سیاستدانوں کے ذاتی ووٹ بنک۔ کسی مقامی سیاستدانوں کے شخصی ووٹوں کو مکمل طور پر کسی دوسرے اُمیدوار کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اگر میں خود الیکشن لڑوں تو میرے حمایتی مجھے تو ووٹ دیں گے لیکن اگر میں کسی اور اُمیدوار کی حمایت کروں تو میرے سارے کے سارے ووٹر اُس دوسرے اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے، البتہ تھوڑے سے لوگ میرا کہنا مان بھی لیں گے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ 2002 اور 2008 کے انتخابات میں جن لوگوں نے ق لیگ کے اُمیدواروں کو ووٹ دیا تھا، وہ اب پیپلز پارٹی کے اُمیدواروں کو بھی ووٹ دیں گے۔ اس لیے پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے ووٹ جمع ہونے کا مفروضہ خاصا کمزور ہے۔
ضمنی الیکشن کا پیپلز پارٹی کے لیے ایک منفی پہلو اور بھی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو یہ دیکھ کر کسی پارٹی کی حمایت کرتی ہے اور اسے ووٹ ڈالتی ہے جس کے بارے میں عام خیال ہو کہ وہ الیکشن جیت جائے گی۔ جس پارٹی یا اُمیدوار کے جیتنے کا امکان کم نظر آ رہا ہو۔ بہت سے لوگ الیکشن سے پہلے ہی اُس کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ 4 دسمبر کے ضمنی الیکشن کے نتائج سے پیپلز پارٹی کی کمزوری کا تاثر ابھرا ہے اور مسلم لیگ (ن) زیادہ طاقتور جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
اب پنجاب کے عملیت پسند افراد اور دھڑے ن لیگ کے پیچھے بھاگنے لگیں گے جہاں اِن کے مفادات کا بہتر تحفظ ہو سکے گا۔ منظور وٹو کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر بنانے کا بڑا مقصد تو یہی تھا کہ وہ مقامی با اثر سیاستدانوں کو کھینچ کر پیپلز پارٹی میں لائیں گے۔ موجودہ صورت حال میں ان کا کام مشکل ہو گیا ہے۔ منظور وٹو کا ہنر تو یہی ہے کہ سبز باغ دکھا کر مقامی سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور ریاستی نوازشات سے ان کی جھولی بھرنے میں مدد کریں۔ نگران حکومت قائم ہوتے ہی وہ کسی کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ووٹ بینک امیروں اور شہری متوسط طبقہ میں نہیں ہے بلکہ کم آمدن والے اور غریب لوگوں میں ہے۔ اگر صدر زرداری کی حکومت نے گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں کم آمدنی والے طبقوں اور افراد کے لیے ٹھوس کام کیے ہوتے تو انھیں ایسے نازک موقع پر کھڑپینچ سیاستدانوں کا سہارا نہ لینا پڑتا۔ عام انتخابات میں چار پانچ رہ گئے ہیں۔ نگران حکومت اس سے بھی پہلے بن جائے گی۔ اب پارٹی کی حکومت کے پاس اتنا وقت اور وسائل نہیں کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے کوئی نیا پروگرام شروع کر سکے۔ بے تحاشا لوڈ شیڈنگ، صنعتوں کی بندش سے مزدوروں کی بے روزگاری اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں ایک سو فیصد سے زیادہ اضافہ ایسے عوامل ہیں جن سے پنجاب کے عوام براہ راست متاثر ہوئے ہیں، اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔
کسی پارٹی کی حکومت کی اچھی کارکردگی اور اس کے عوام دوست پروگرام سے اس کے حق میں جو لہر چلتی ہے اور اس کے جو حامی اور رضا کار کارکن پیدا ہوتے ہیں وہ بڑے پیمانے پر ہونے والے جنرل الیکشن جیتنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر مقامی سیاستدانوں کے اپنے ذاتی اثرو رسوخ اور برادری کے ووٹ ہی انتخاب جیتنے کے لیے کافی ہوا کرتے تو وہ لوگ مختلف پارٹیوں کے ٹکٹوں کے لیے دوڑ دھوپ کیوں کرتے؟ کسی سیاسی پارٹی کے مضبوط ووٹ بینک کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ مقامی کھڑپینچوں سے اتحاد اور اشتراک اس کا اچھا بدل نہیں ہو سکتا۔ ضمنی انتخابات میں ہم نے اس کی ایک جھلک دیکھی ہے۔
1970کی دہائی میں یہ بات عام تھی کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کھمبے کو بھی پارٹی ٹکٹ دے دیں تو وہ بھی الیکشن جیت جائے گا۔ 1988میں بے نظیر بھٹو نے تمام تر مخالفت کے باوجود اس پارٹی ووٹ کی مدد سے ہی دیگر جماعتوں سے زیادہ نشستیں جیتیں لیکن اس کے بعد ہر گزرتے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ووٹ بینک کم ہوتا چلا گیا۔ اب حالات یہ ہے کہ پارٹی کی اُمیدیں ق۔ لیگ کے ووٹوں سے وابستہ ہیں۔
حالیہ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ق) سے اتحاد اور اشتراک کے باوجود پیپلز پارٹی کے اُمیدوار آٹھ میں سے ایک بھی نشست نہیں جیت سکے۔ یہ خیال تو غلط ہی ثابت ہوا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ووٹ اکٹھے ہو جائیں گے تو مشترکہ امیدوار کو مسلم لیگ (ن) پر آسانی سے غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ آثار بتاتے ہیں کہ گجرات کے چوہدری برادران کی مسلم لیگ (ق) پیپلز پارٹی کے لیے جنرل الیکشن میں ایک کمزور سہارا ہی ثابت ہو گی۔
در اصل مسلم لیگ (ق) کے پاس پارٹی ووٹ نہیں ہے جو یہ پیپلز پارٹی کو منتقل کر سکے۔ یہ جماعت مقامی طور پر بااثر سیاسی خاندانوں پر مشتمل ایک گروپ ہے۔ مسلم لیگ کا جو تھوڑا بہت نظریاتی ووٹ بینک ہے اس نے ق لیگ کے پلڑے میں اپنا وزن نہیں ڈالا بلکہ وہ نواز شریف کے مسلم لیگی دھڑے کے ساتھ ہے۔ ان لوگوں میں پیش پیش پنجاب کے شہری متوسط طبقہ کے لوگ اور لاہور کا اُردو میڈیا ہے جس کا واضح جھکائو اور ہمدردی نواز شریف کی پارٹی کے ساتھ ہے۔
2008میں جب نواز شریف نے جلا وطنی سے واپس آ کر اپنی پارٹی کی کمان سنبھالی تو ان کی پارٹی کے اُمیدواروں کے ووٹوں میں نمایاں اضافہ ہوا جبکہ ق۔ لیگ کے ووٹوں میں بہت کمی ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2008 میں مسلم لیگ (ق) کے مجموعی ووٹوں میں 2002 کے مقابلہ میں بائیس لاکھ سے زیادہ کمی ہوئی تھی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں میں تقریباً 74 لاکھ کا اضافہ ہوا تھا۔ اُس وقت جنرل پرویز مشرف اقتدار میں تھے اور بیورو کریسی میں بھی ق لیگ کے حمایتی اچھے عہدوں پر تھے۔ پھر بھی اس کی پوزیشن گرتی چلی گئی۔ 2013 میں ق لیگ ان فوائد سے بھی محروم ہو گی تو اس کا کیا حال ہو گا۔
ق لیگ کے پاس لے دے کر رہ گئے مقامی سیاستدانوں کے ذاتی ووٹ بنک۔ کسی مقامی سیاستدانوں کے شخصی ووٹوں کو مکمل طور پر کسی دوسرے اُمیدوار کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اگر میں خود الیکشن لڑوں تو میرے حمایتی مجھے تو ووٹ دیں گے لیکن اگر میں کسی اور اُمیدوار کی حمایت کروں تو میرے سارے کے سارے ووٹر اُس دوسرے اُمیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے، البتہ تھوڑے سے لوگ میرا کہنا مان بھی لیں گے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ 2002 اور 2008 کے انتخابات میں جن لوگوں نے ق لیگ کے اُمیدواروں کو ووٹ دیا تھا، وہ اب پیپلز پارٹی کے اُمیدواروں کو بھی ووٹ دیں گے۔ اس لیے پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے ووٹ جمع ہونے کا مفروضہ خاصا کمزور ہے۔
ضمنی الیکشن کا پیپلز پارٹی کے لیے ایک منفی پہلو اور بھی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو یہ دیکھ کر کسی پارٹی کی حمایت کرتی ہے اور اسے ووٹ ڈالتی ہے جس کے بارے میں عام خیال ہو کہ وہ الیکشن جیت جائے گی۔ جس پارٹی یا اُمیدوار کے جیتنے کا امکان کم نظر آ رہا ہو۔ بہت سے لوگ الیکشن سے پہلے ہی اُس کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ 4 دسمبر کے ضمنی الیکشن کے نتائج سے پیپلز پارٹی کی کمزوری کا تاثر ابھرا ہے اور مسلم لیگ (ن) زیادہ طاقتور جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
اب پنجاب کے عملیت پسند افراد اور دھڑے ن لیگ کے پیچھے بھاگنے لگیں گے جہاں اِن کے مفادات کا بہتر تحفظ ہو سکے گا۔ منظور وٹو کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر بنانے کا بڑا مقصد تو یہی تھا کہ وہ مقامی با اثر سیاستدانوں کو کھینچ کر پیپلز پارٹی میں لائیں گے۔ موجودہ صورت حال میں ان کا کام مشکل ہو گیا ہے۔ منظور وٹو کا ہنر تو یہی ہے کہ سبز باغ دکھا کر مقامی سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور ریاستی نوازشات سے ان کی جھولی بھرنے میں مدد کریں۔ نگران حکومت قائم ہوتے ہی وہ کسی کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ووٹ بینک امیروں اور شہری متوسط طبقہ میں نہیں ہے بلکہ کم آمدن والے اور غریب لوگوں میں ہے۔ اگر صدر زرداری کی حکومت نے گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں کم آمدنی والے طبقوں اور افراد کے لیے ٹھوس کام کیے ہوتے تو انھیں ایسے نازک موقع پر کھڑپینچ سیاستدانوں کا سہارا نہ لینا پڑتا۔ عام انتخابات میں چار پانچ رہ گئے ہیں۔ نگران حکومت اس سے بھی پہلے بن جائے گی۔ اب پارٹی کی حکومت کے پاس اتنا وقت اور وسائل نہیں کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے کوئی نیا پروگرام شروع کر سکے۔ بے تحاشا لوڈ شیڈنگ، صنعتوں کی بندش سے مزدوروں کی بے روزگاری اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں ایک سو فیصد سے زیادہ اضافہ ایسے عوامل ہیں جن سے پنجاب کے عوام براہ راست متاثر ہوئے ہیں، اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔
کسی پارٹی کی حکومت کی اچھی کارکردگی اور اس کے عوام دوست پروگرام سے اس کے حق میں جو لہر چلتی ہے اور اس کے جو حامی اور رضا کار کارکن پیدا ہوتے ہیں وہ بڑے پیمانے پر ہونے والے جنرل الیکشن جیتنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر مقامی سیاستدانوں کے اپنے ذاتی اثرو رسوخ اور برادری کے ووٹ ہی انتخاب جیتنے کے لیے کافی ہوا کرتے تو وہ لوگ مختلف پارٹیوں کے ٹکٹوں کے لیے دوڑ دھوپ کیوں کرتے؟ کسی سیاسی پارٹی کے مضبوط ووٹ بینک کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ مقامی کھڑپینچوں سے اتحاد اور اشتراک اس کا اچھا بدل نہیں ہو سکتا۔ ضمنی انتخابات میں ہم نے اس کی ایک جھلک دیکھی ہے۔