قوم کا منہ چڑاتی یہ کرسیاں
سمبلی ایوانوں میں خاموش رہیں اور پارٹی قائد کے ہر غلط یا درست فیصلے پر ڈیسک بجائیں
ٹی وی چینلز پر قوم کو ایک خوبصورت، بارعب، ایئرکنڈیشن بڑا ہال اکثر نظر آتا ہے جس میں نصب خوبصورت آرام دہ اور مہنگی کرسیاں اکثر خالی نظر آتی ہیں اور اس خالی رہنے والے ہال میں قوم کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر خالی نظر آنے والی کرسیاں اسی قوم کا منہ چڑاتی ہیں جس پر بیٹھنے والوں کو ساڑھے تین سال قبل اسی قوم نے منتخب کیا تھا۔ ان کرسیوں پر بیٹھنا بھی مقدر والوں ہی کا کام ہے عام آدمیوں کا داخلہ یہاں ممنوع ہے۔
البتہ عام لوگوں کو یہ اختیار ضرور ہے کہ وہ جسے چاہیں منتخب کریں اور یہاں بیٹھنے کے لیے بھیج دیں اور یہاں آکر حلف اٹھا لینے کے بعد حلف اٹھانے والے کی مرضی ہے کہ وہ آئے نہ آئے یا کب آئے۔ اسے منتخب کرنے والے تو اسے یہاں آنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتے کیونکہ اسے منتخب کرنے کے بعد اس کے ووٹروں کو اس کا دیدار شاذو نادر ہی نصیب ہوتا ہے اور ان کا منتخب کردہ شخص وزیر اعظم، وزیر، مشیر کے علاوہ وی آئی پیز میں ضرور شامل ہوجاتا ہے اور عوام اسے اگر ٹی وی چینلز پر دیکھنا چاہیں تو وہ میڈیا میں بولنا جانتا ہو تو ٹی وی پر ضرور حکومت کی حمایت یا مخالفت میں بولتا نظر آجائے گا مگر وہ اس ایوان میں بہت ہی کم نظر آئے گا جہاں اپنے ووٹروں کے مسائل کے لیے اسے بھیجا گیا تھا۔ ایوان کی خالی کرسیاں تو قوم کو نظر آجاتی ہیں مگر وہ نظر نہیں آتا جسے ان کرسیوں پر بیٹھنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
ایوان میں خالی نظر آنے والی کرسیاں معمولی نہیں ان میں صف اول کی کرسیاں وزیراعظم اور وزیروں، وزرائے مملکت، مشیروں کے لیے مختص رکھی جاتی ہیں اور پیچھے کرسیوں پر تین سو سے زائد افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا اور باوقار ایوان ہے جس کے ممبروں کا استحقاق بڑی جلدی مجروح ہوجاتا ہے اور انھیں اپنے ووٹروں کا استحقاق مجروح کرنے کا حق ملا ہوتا ہے۔ انھیں یہ بھی حق ہے کہ وہ اسی ایوان میں آئیں نہ آئیں اس سلسلے میں ان کا کوئی استحقاق مجروح نہیں ہوتا اور ایوان میں نہ آکر وہ ایوان کا استحقاق ضرور مجروح کرتے ہیں اور انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔ یہ قوم کا وہ ایوان ہے جس میں ملک کے ہر علاقے کے لوگ آتے ہیں اور ان کی تعداد بھی 341 ہے۔ یہاں عوام کے منتخب کردہ لوگ تو آتے ہی ہیں بلکہ مخصوص نشستوں پر ان ہی کے ذریعے منتخب ہونے والے بھی آتے ہیں جن میں خواتین اور اقلیتی برادری بھی شامل ہوتی ہے۔
اس ایوان کی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ آزادانہ طور پر منتخب ہونے کی پوزیشن نہ ہو تو سیاسی سہارا لینا پڑتا ہے۔ اہم اور بڑی پارٹیوں سے ٹکٹ لینا آسان نہیں ہوتا۔ اگر اس کی پوزیشن مالی، برادری اور سیاسی طور پر مستحکم ہو تو اسے آسانی سے پارٹی ٹکٹ مل جاتا ہے۔ پارٹی ٹکٹ دینے والے نہ خود امین و صادق ہیں نہ انھیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو آئینی ضروریات پوری کرتے ہوں۔ پارٹی ٹکٹ دیتے وقت اپنے پارٹی رہنماؤں کی ضروریات، سفارشات کے ساتھ امیدوارکی اہلیت آئین کے تحت نہیں بلکہ یہ دیکھی جاتی ہے کہ وہ کامیاب ہوسکے گا یا نہیں اور اس کی مالی حیثیت کیا ہے۔
یوں تو اقتدار میں رہنے والی پارٹیاں انتخاب لڑنے کے خواہش مندوں سے مقررہ پارٹی فیس کے ساتھ درخواستیں ضرور طلب کرتی ہیں مگر ٹکٹ دیتے وقت ٹکٹ ہولڈرکی وفاداری پارٹی سے زیادہ قائد کے ساتھ ہونے کی صلاحیت دیکھی جاتی ہے تاکہ وہ منتخب ہوکر اپنے قائد کا مکمل وفادار ثابت ہو۔ ویسے تو اب پارٹی اور قائد سے وفاداری کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ اس لیے پارٹی ٹکٹ لینے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارٹی سے الیکشن فنڈ مانگنے کی بجائے پارٹی کو الیکشن فنڈز دیں اور منتخب ہوکر اپنے ضمیرکی سننے کی بجائے پارٹی قائد کی پالیسی پر سو فیصد عمل کریں۔
اسمبلی ایوانوں میں خاموش رہیں اور پارٹی قائد کے ہر غلط یا درست فیصلے پر ڈیسک بجائیں۔آئین میں کرائی جانیوالی ترامیم کے مطابق پارٹی ہدایات اور پالیسی کو ہر حال میں ترجیح دیتی ہے۔ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں قائد کی اجازت سے بولنا ہے اور اجلاس کو کلاس روم سمجھ کر اچھے شاگرد کی طرح قائد کے حکم پر عمل کرنا ہے۔
کروڑوں روپے خرچ کر کے منتخب ہونیوالے کو اسمبلی سے اتنے الاؤنس نہیں ملتے کہ انتخابی اخراجات بمع سود وصول ہوسکیں۔ اس لیے ارکان اسمبلی اجلاسوں میں بس اتنی دلچسپی لیتے ہیں کہ ایوان میں وزیراعظم اور وہ وزرا موجود ہیں کہ نہیں کہ جن سے انھیں کام لینا ہے۔اگر ضرورت کے مطابق متعلقہ حضرات موجود نہ ہوں تو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بیٹھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ آتے ہوئے حاضری لگ ہی جاتی ہے کیونکہ صرف حاضری ضروری ہوتی ہے۔
ایوان میں ہونیوالے اجلاس میں شرکت اور وہاں کچھ دیر بیٹھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے ایوان کی کرسیاں راہ تکتی رہ جاتی ہیں اوراکثر ارکان تو کیا مقررہ کورم جتنی تعداد بھی موجود نہیں ہوتی اور یہ صورتحال زیادہ تر قومی اسمبلی ہی میں پیش آتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں یہ طے ہے کہ اگر مقررہ کورم بھی نہ ہو تو بیس پچیس ارکان بھی ہوں تو باہمی ملی بھگت سے کارروائی جاری رکھی جاتی ہے اور جہاں دونوں میں کسی ایک کا مفاد نہ ہو فوراً کورم کی نشاندہی کردی جاتی ہے اور اسپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے۔
کورم کا مسئلہ ہمیشہ قومی اسمبلی میں پیش آتا ہے اور کسی بھی صوبائی اسمبلی میں کورم کی اتنی صورتحال خراب نہیں ہوتی جتنی قومی اسمبلی میں اکثر ہوتی رہتی ہے ۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں موجود خالی کرسیاں ہی قوم کو منہ چڑاتی ہیں کہ یہ ہیں قوم کے منتخب ارکان جنھیں منتخب ہونے کے بعد اپنی آئینی ذمے داریوں کا احساس ہے نہ قومی خزانے پر پڑنیوالے بوجھ کی کہ جو غریب عوام سے ٹیکسوں کی صورت میں وصول ہوتا ہے۔
اجلاس کے دوران کروڑوں روپے ان ارکان قومی اسمبلی کو دیے جاتے جو مطلب یا مفاد کے بغیر ایوان میں آنا ضروری نہیں سمجھتے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ارکان کی بڑی تعداد اسلام آباد آتی ہے اور حاضری لگوا کر اپنے مقررہ الاؤنس وصول کرنے کی حقدار قانونی طور پر ضرور بن جاتی ہے۔ قومی اسمبلی کے خرچ پر اسلام آباد آنیوالوں کی زیادہ تعداد ایوان میں نہیں بلکہ وزیراعظم سیکریٹریٹ، وزیروں کے دفتروں اور پاکستان سیکریٹریٹ کے مختلف بلاکوں میں اپنے کاموں کیلء نظر آتی ہے۔
جس قومی اسمبلی کو اس کا قائد ایوان (وزیر اعظم) ہی اہمیت نہ دے تو وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب وزیر اعظم مہینوں بعد قومی اسمبلی میں آنا گوارا نہیں کریں گے تو ارکان قومی اسمبلی کوکیا پڑی کہ وہ ایوان میں بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت ضایع کریں۔ حاضری لگ جانے کے بعد ارکان اپنے کاموں کو ترجیح دینے لگتے ہیں اور ان کا بھی قومی اسمبلی کے بڑے ایوان میں وزیراعظم اور وزیروں کے بغیر دل نہیں لگتا تو وہ بھی وہاں بیٹھ کرکیوں بور ہوں۔ بعض وزرا اورارکان آتے ہیں تو ٹھنڈے ایوان میں اپنی نیند بھی پوری کرلیتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے ایوان کی خالی کرسیاں موجودہ دور میں ہی خالی نظرآتی ہیں دیگر ادوار میں یہ صورت حال بہت ہی کم ہوتی تھی۔ خالی کرسیوں کے ذمے دار ارکان اسمبلی سے زیادہ حکمران ہیں جنھیں مشکل ہی میں یہ ایوان یاد آتا ہے۔