جنگ نہیں امن

اسلام دین فطرت اور امن وسلامتی کا مذہب ہے، عقل و شعور، حکمت وبصیرت، صبر، تحمل و برداشت اوروسیع النظری اسلام کا خاصا ہے


[email protected]

اسلام دین فطرت اور امن وسلامتی کا مذہب ہے، عقل و شعور، حکمت وبصیرت، صبر، تحمل و برداشت اوروسیع النظری اسلام کا خاصا ہے۔ سیرت نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل جنگ میں تلاش کرنا دانش مندی کے خلاف ہے، اسلام وسیع القلبی کے ساتھ احترام آدمیت اورتکریم انسانیت کا درس دیتا ہے۔

امن پسندی اور صلح جوئی کے تمام ترجذبات کے ساتھ ساتھ تاریخ کی اس ناقابل تردید حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ محمد علی بوگرہ سے لے کر اب میاں نواز شریف تک سب ہی نے بھارت کو اپنے اپنے ادوار میں امن کی پیش کش کی مگر بھارت نے ہمیشہ بدمست ہاتھی کی طرح ہماری ہر پیش کش کو نہ صرف اپنے پاؤں تلے کچل دیا بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے کی پس پردہ سازشیں جاری رکھیں اور پاکستان کے وجود کو تسلیم کبھی نہیں کیا۔ حالانکہ خود پاکستان بھی یہی چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہی نکالا جائے لیکن بھارت کی مرضی کچھ اور ہی رہی ہے اور یہی اس مسئلے کی اصل جڑ ہے۔

پاکستان اقوام متحدہ امن فوج کا سب سے بڑا حصے دار ہے اور اسے اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قراردادوں پر مکمل اعتماد بھی ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ بھارت ہوش کے ناخن لے اور جنگی جنون ترک کرکے مذاکرات کی میز پر آئے دونوں ممالک کے درمیان تناؤکا خاتمہ اور حقیقی قیام امن وقت کا اہم تقاضا ہے اور اس میں دونوں ممالک کے سیاسی وعسکری چینلز اہم کردار ادا کرتے ہوئے ایسا مشترکہ لائحہ عمل تیار کرسکتے ہیں جس سے دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان اعتماد سازی کی فضا قائم ہو، تمام مسائل کا حل نکلے اور دائمی امن قائم ہو، بصورت دیگر دونوں ہی ممالک ایٹمی قوتیں ہیں اور دونوں کے درمیان جنگی فضا وایٹمی تصادم دونوں ممالک و اقوام کے لیے قیامت صغریٰ برپا کردے گا، یہ ایسا مہلک خودکش پچھتاوا ہوگا کہ جس کا مداوا پھر کسی صورت ممکن نہ ہوگا، لہٰذا مذاکرات کیجیے اس سے پہلے کہ بہت دیرہوجائے۔ سب کچھ کھوجائے اور اقوام عالم کی داستانوں میں پاک وہندکی داستان تک مٹ جائے۔

1998 میں پاکستان وبھارت کے ایٹمی قوت بننے کے ساتھ ہی یہاں کی اقوام بھی ایٹمی یرغمال بن گئے، یہ خیال بھی پروان چڑھا کہ دونوں ممالک میں اب کبھی جنگ نہیں ہوگی اور اگر ہوئی تو وہ دونوں ممالک کے لیے آخری و حتمی معرکہ ہوگا جنگیں کبھی مسائل کا حل ثابت نہیں ہوئیں۔ جنگوں میں نقصان عوام کا ہی ہوتا ہے انسان ہی مرتے ہیں، ممالک واقوام تباہ وبرباد ہوتے ہیں اور بالآخر ندامت و پشیمانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ تھک ہارکر جو لوگ بچ جاتے ہیں وہ امن معاہدوں پر اکتفا کرتے ہیں اور امن و سکون کو ہی غنیمت جانتے ہیں آپ ان اقوام سے پوچھیے جنھوں نے دو عالمی جنگیں لڑیں تباہ و برباد ہوئے لاکھوں کی تعداد میں جانی و مالی نقصان ہوا کچھ خیر ہاتھ نہ آیا شر ہی شر سب کچھ کھاگیا جو بچ رہے انھیں امن و امان و سکون کی قدروقیمت کا شدت سے احساس ہوا اور آج وہ جنگ کے نام سے بھی کانپتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ امریکی تحقیقاتی ادارے نے کچھ عرصہ پہلے ہی اپنی اہم تحقیقی رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری جنگ چھڑگئی تو اس سے پوری دنیا کا موسم تبدیل ہوجائے گا۔ امریکی ریاست نیو جرسی کی اتگرز یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن ربوک نے تجزیہ کیا تھا کہ پاک بھارت جوہری جنگ سے پوری دنیا کے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوںگے اور دنیا میں 10 فی صد بارشوں میں کمی واقع ہوگی۔

ریسرچ میں کہا گیا تھا کہ ایسی جنگ سے دنیا بھر کی آب و ہوا تبدیل ہوجائے گی، جوہری دھماکوں سے اٹھنے والے بادل پوری دنیا کے درجہ حرارت پر اثر انداز ہوںگے اور ان سے مذکورہ خطے کے علاوہ دور دراز کے ممالک تک میں مضر و بد ترین اثرات پڑیںگے، دنیا بھرکی زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوجائے گی۔

پروفیسر ایلن ربوک کے مطابق کمبوڈیا، تھائی لینڈ بھی اس سے متاثر ہوںگے جوہری جنگ سے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھے گی جس میں تیل، پلاسٹک اور لکڑیاں جلنے سے بڑے پیمانے پر دھوئیں کے بادل اٹھیںگے اور گرمی کی شدت میں انتہائی اضافہ ہوجائے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ بیس سال میں کی گئی یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور واحد تحقیق ہے اس کے علاوہ کولوراڈو یونی ورسٹی کے پروفیسر اون برین ٹون کی سربراہی میں ہونے والی ایک دوسری تحقیقی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان و بھارت کو خبردار کیا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہیروشیما میں گرائے گئے بموں جیسے ہی دھماکے ہوئے تو ان دھماکوں سے بھی 90 لاکھ تا ایک کروڑ 25 لاکھ بھارتی شہری جب کہ 65 لاکھ تا 90 لاکھ پاکستانی شہری لقمہ اجل بن جائیں گے اور اگر زخمیوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد دگنا ہوجائے گی ان رپورٹوں میں دونوں ممالک کے لیے عبرت کا سامان اور امن کا پیغام عیاں ہے۔ بالخصوص بھارت کو اپنے ایٹمی وجنگی جنون کو ترک کرکے مذاکرات کی جانب توجہ دینی چاہیے، دور رس اور موثر ترین امن معاہدے عمل میں لانے چاہئیں اور مسئلہ کشمیر کے فوری حل کی جانب وقت ضایع کیے بغیر فوراً پیش قدمی کرنی چاہیے۔

پاکستان و بھارت ہی نہیں دنیا میں اور بھی ایٹمی ممالک ہیں جن کی وجہ سے صرف وہاں کے عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ایٹمی یرغمال بن چکی ہے۔اس کرۂ ارض پر حضرت انسان نے اپنے قیام کے عرصے میں خطرناک ارتقائی سامان جمع کرلیا ہے جیسے جارحیت اور رسم پرستی کی طرح موروثی رجحان، رہبروں کی اطاعت اور غیر ملکیوں سے معاندانہ رویہ وغیرہ۔ اس طرز عمل نے ہماری بقا کو خطرے سے دو چار کردیا ہے، ذرا غورکیجیے تو ہر سوچنے سمجھنے والا شخص ایٹمی جنگ سے خوف کھاتا ہے اور پھر بھی ہر تکنیکی ریاست اس کی منصوبہ بندی کرتی ہے، ہر ایک جانتا ہے کہ یہ پاگل پن ہے اوراس کے باوجود ہر قوم کے پاس اس کا عذر موجود ہے۔

یہ عذر خواہی کا ایک بڑا بے کیف سلسلہ ہے،اس نازک سیارے پرکوئی جگہ محفوظ نہیں۔ موت کے جن صرف چراغ رگڑے جانے کے منتظر ہیں ان ہتھیاروں میں کل توانائی دس ہزار میگا ٹن سے بھی کہیں زیادہ ہے اور کل آتشیں اسلحہ محض چند گھنٹوں میں تقسیم ہونے کے لیے تیار ہے، یعنی اس سیارے کے ہر خاندان کے لیے بلاک بسٹر، ایک آرام دہ دوپہر کے ہر سیکنڈ میں ایک دوسری جنگ عظیم چھپی ہے۔ ایٹمی حملے سے آنے والی موت کے فوری اثرات آتشیں جھونکنے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جو کئی کلومیٹر تک بڑی مضبوط اور قوی البنیاد عمارات کو زمین بوس کردیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ اثرات گاما شعاعوں، آتشیں طوفان اور نیوٹران کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو ارد گرد کے تمام انسانوں کو جلاکر بھسم کردیتے ہیں۔

موجودہ حالات کے مطابق یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر 5 منٹ بعد ایک فرد قتل ہوتا ہے، انفرادی ہلاکتیں اور بڑی جنگیں در اصل ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں یہ بات درست ہے کہ جنگ دراصل بڑے پیمانے پر قتل کی ہی ایک شکل ہے جب ہماری بہبود کوکوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے یا جب اپنے بارے میں ہمارا مثالی بھرم ٹوٹتا ہے تو ہم غضبناک ہوکر قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں جب ان حالات کا اطلاق قوم پر ہوتا ہے تو وہ بھی اسی طرح کردیتی ہے اور یوں سربرآوردہ لوگ اسے دو آتشہ کرکے طاقت یا فوائد حاصل کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے قتل وغارت گری کی ٹیکنالوجی ترقی کرتی جارہی ہے جنگ کے نقصانات بڑھتے جارہے ہیں یوں ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ قیامت صرف چند عشرے ہی دور ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے نشانہ باز ایک روز ہمیں ضرور عالمی تباہی سے دو چار کریںگے ان ہی کی بدولت آج کل انسانیت کرۂ ارض پر مکمل طور پر ایٹمی یرغمال بن چکی ہے۔

ہم کہتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی ہے، کیا واقعی ہم نے یہ ترقی کی ہے؟ کیا ہم نے عقل سے جنون کو باندھ دیا ہے؟ کیا ہم نے حقیقتاً جنگ کے اسباب کا جرأت مندانہ جائزہ لیا ہے؟ ہم اپنی ابھرتی ہوئی تہذیب پر ایک ایٹمی جنگ اور ہولناک و عبرت ناک عالمی تباہی مسلط کردینے پر تلے بیٹھے ہیں تو کیا ہمیں ایک انتشار آمادہ معاشرے کی تعمیر نوکے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے؟ مجھے یہاں ایچ جی ویلزکی بات یاد آرہی ہے۔ اس نے کیا خوب کہاکہ ''ہمارا انتخاب یا تو کائنات ہوگی یا کچھ بھی نہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں