درد دل کے واسطے …
انسان ایک سماجی حیوان ہے، جس کے لیے معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے
انسان ایک سماجی حیوان ہے، جس کے لیے معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ ماں کی گود سے لے کر زمین کی گود تک ہر انسان دوسروں کے تعاون کا محتاج ہوتا ہے۔ تمام افراد اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے زندگی کا سفر طے کرتے ہیں، جس طرح کسی دور دراز علاقے کے سفر کے دوران مسافر دوسروں کے ساتھ معاونت کرتے اور ان سے معاونت لیتے ہوئے سفر کو آسانی کے ساتھ گزارتے ہیں۔
زندگی کے طویل سفر کو آسان بنانے کا یہی طریقہ ہے، کیونکہ ضرورت پڑنے پر دوسروں سے تعاون لینا اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کرنا انسانی جذبات کا خاصہ ہے۔ باہمی تعاون کی بدولت ہی دنیا کا نظام چل رہا ہے، اگر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی سوچ ختم ہوجائے تو نظام حیات جامد ہوکر رہ جائے گا۔ ماں باپ باہمی تعاون سے ہی ایک نسل اور خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔ باہمی تعاون ہی استاد اور شاگرد کے تعلق کو مضبوط بناتا ہے۔ تعاون ہی تو کسی بستی، شہر، ملک اور دنیا کے معاملات کو سلجھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ مالک اور ملازم کے باہمی تعاون کی وجہ سے ہی بڑے بڑے پروجیکٹ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔
باہمی تعاون ہی معاشروں اور قوموں کو اوج ثریا پر لے جاتا ہے۔ باہمی تعاون کی بدولت ہی تمام کارخانے، دفاتر، کاروبار اور دنیا بھر کا نظام زندگی چل رہا ہے۔ تعاون صرف انسانی زندگی ہی نہیں، بلکہ پورے کارخانہ قدرت کے چلنے کا باعث ہے۔ اگر انسان سے ہٹ کر اس کائنات کے پورے نظام کا مشاہدہ کیا جائے تو ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی نظر آتی ہے۔ سورج زمین سے تعاون کرتا ہے تو فصلیں پکتی ہیں۔ پھلوں کی مٹھاس چاند کی روشنی کے تعاون سے ہی ہے۔ ہوائیں بادلوں کے ساتھ تعاون کرتی ہیں تو بارش برستی ہے، اگر لوہے کو آگ کا تعاون حاصل نہ ہو اور لوہا لکڑی سے تعاون نہ کرے تو سارے کارخانے بند ہوجائیں اور ملکوں کی ترقی رک جائے، لیکن سب کچھ بہت سی چیزوں کے تعاون سے ہی چل رہا ہے۔
تعاون باہمی انسانوں کی فطرت کا جز ہے، اگر انسان دوسروں سے تعاون نہ کرے تو اس کا مطلب ہے، وہ اپنی تخلیق کے مقصد سے روگردانی کررہا ہے۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردی، ایثار، قربانی، محبت یہ سب تعاون کی بہترین صورتیں ہیں۔ انسان کا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعاون کرنا، ایثار اور قربانی پیش کرنے کا جذبہ ہمیشہ سے اٹل حقیقت رہا ہے۔ ان سچے جذبوں کے اظہار کو ہر ذی روح محسوس کرتا اور ان سے راحت بھی پاتا ہے۔
دوسروں کے ساتھ تعاون کرکے انسانیت کی خدمت کرنا ہر انسان کی ازلی خواہش ہوتی ہے، لیکن اس کے اظہار کی ہمت اور استطاعت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی، کیونکہ ذاتی مفادات کی خواہش دوسروں کی خدمت کی بجائے مفاد پرستی اور خود غرضی کے محور میں چکر لگانے پر آمادہ کرتی رہتی ہے اور یوں انسان اس عظیم مقصد سے دور ہوجاتا ہے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا تھا۔
انسانیت ہر جگہ باہمی تعاون، محبت، ہمدردی، ایک دوسرے کے کام آنے اور بھائی چارے سے جڑی ہوئی ہے۔ انسانیت کا رشتہ لوگوں کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھنے، ان کے دکھوں کا مداوا کرنے اور بلا تفریق دوسروں کے کام آنے میں پنہاں ہے۔ دوسروں کے درد کو اپنا محسوس کرنے اور دوسروں کے لیے ایثار ہی اس دنیا کا حقیقی حسن ہے، جن کی بدولت انسانیت کی ایسی بلند و بالا مسند عطا ہوتی ہے، جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔
دوسروں کے ساتھ تعاون اور ان کی بے لوث خدمت دلوں کو فتح کرنے کا موثر ترین ذریعہ ہی نہیں، بلکہ ایک مقدس فریضہ بھی ہے، جس کی ادائیگی کو اسلام نے اپنے ماننے والوں پر لازم قرار دیا ہے۔ دوسروں کی مدد کی تلقین اور ترغیب تو ہر مذہب میں موجود ہے، لیکن اسلام میں حقوق العباد کی تعلیمات معاشرتی ذمے داریوں اور انسانی فلاح و بہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ صدقہ، خیرات، زکوٰۃ، فطرانہ اور وقف یہ تمام عمل مال اور وسائل کو معاشرے کے محروم طبقات تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام نے جا بجا معاشرے کے ضرورت مند افراد کے ساتھ تعاون کے متعدد مواقعے فراہم کیے ہیں، جن پر عمل کرنے والے کے لیے عظیم اجر کا وعدہ بھی کیا ہے۔
ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ بندہ اللہ کا محبوب ہے جو اس کے کنبے کو نفع پہنچائے۔ اسلام کی تعلیمات ساری انسانیت کے لیے خیر اور بھلائی کا پیغام رکھتی ہیں، اسی لیے آپ ﷺ کو رحمۃ اللعالمین کا لقب دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو آپ ﷺ کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے تمام مخلوقات اور تمام انسانوں کے لیے محبت، تعاون اور خدمت کا جذبہ رکھنا چاہیے۔ خدمت خلق کو اللہ تعالیٰ نے اہم درجہ قرار دیا ہے، جس کے بارے میں یہی اِرشاد آیا ہے کہ دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کرو اور اْن کا خیال رکھو۔
خدمت خلق کرنے سے معاشرے میں سدھار آتا ہے اور انسان کو ایسا قلبی سکون حاصل ہوتا ہے، جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح دوسروں کی مدد کرتے وقت دراصل انسان اپنی مدد بھی کر رہا ہوتا ہے۔ امریکی جریدے سائنٹیفک امریکن مائنڈ کے مطابق دوسروں کا درد رکھنے والوں کے دل زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ انسان کے دل اور شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے اور دل مختلف امراض سے محفوظ رہتا ہے۔
اپنے نفع کے حصول کے لیے تو ہر کوئی زندگی گزارتا ہے، لیکن زندگی کی اصل چاشنی دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے،ان کو نفع پہنچانے اور ان کی تکلیف کو دور کرنے میں پوشیدہ ہے۔ ضرورت پڑنے پر دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا ایمان کا تقاضا ہے، جس پر عمل کرنا انسانوں کے لیے بہت سے فوائد کے حصول، محبت و رواداری، سکون و راحت کا ماحول سازگار کرنے کا ذریعہ ہے۔
اگر ہم اسلامی اصولوں اور ضابطوں پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کے ساتھ تعاون کریں تو یہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے نہایت مفید ہوگا۔ تعمیر انسانیت کے لیے انسان کے دل میں دوسروں کا درد ہونا انتہائی ضروری ہے۔ انسان کو دردِ دل کے واسطے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی تخلیق ایک دوسرے انسان کے ساتھ محبت، اخلاق و اخلاص، تعاون، ہمدردی، ایثار اور قربانی پر منحصر ہے۔ ضرورت مند لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں اور کوئی یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتا کہ اس پر کبھی برا وقت نہیں آئے گا یا وہ کبھی حاجت مند نہیں ہوگا۔ کچھ پتا نہیں کہ کس پر کب کیسے حالات آجائیں۔
اگر آج ہم دوسروں کے ساتھ تعاون کریں گے توکل ضرورت پڑنے پر دوسرے بھی ہمارے ساتھ تعاون کریں گے، اس لیے ہمیشہ دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کو اپنا شعار بنائیں۔ اگر ہر انسان یہ عہد کر لے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑے اور موقع ملے تو دوسروں کی مدد کرے گا۔ مجبور اور ضرورت مند لوگوں کی ضروریات حل کرنے میں مکمل تعاون کرے گا۔ کسی غریب طالب علم کی تعلیم کا خرچ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کا خرچ، کسی بے روزگار کی نوکری کا انتظام، کسی غریب بیمار کے علاج کا انتظام اور ہر ایسا کام کرے گا، جس سے کسی انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہو تو یقین کیجیے اس سے دنیا بدل جائے گی۔ دنیا میں نفرتیں ختم ہوکر صرف محبت کی حکمرانی اور سکون و راحت کا راج ہوگا۔
زندگی کے طویل سفر کو آسان بنانے کا یہی طریقہ ہے، کیونکہ ضرورت پڑنے پر دوسروں سے تعاون لینا اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کرنا انسانی جذبات کا خاصہ ہے۔ باہمی تعاون کی بدولت ہی دنیا کا نظام چل رہا ہے، اگر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی سوچ ختم ہوجائے تو نظام حیات جامد ہوکر رہ جائے گا۔ ماں باپ باہمی تعاون سے ہی ایک نسل اور خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔ باہمی تعاون ہی استاد اور شاگرد کے تعلق کو مضبوط بناتا ہے۔ تعاون ہی تو کسی بستی، شہر، ملک اور دنیا کے معاملات کو سلجھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ مالک اور ملازم کے باہمی تعاون کی وجہ سے ہی بڑے بڑے پروجیکٹ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔
باہمی تعاون ہی معاشروں اور قوموں کو اوج ثریا پر لے جاتا ہے۔ باہمی تعاون کی بدولت ہی تمام کارخانے، دفاتر، کاروبار اور دنیا بھر کا نظام زندگی چل رہا ہے۔ تعاون صرف انسانی زندگی ہی نہیں، بلکہ پورے کارخانہ قدرت کے چلنے کا باعث ہے۔ اگر انسان سے ہٹ کر اس کائنات کے پورے نظام کا مشاہدہ کیا جائے تو ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی نظر آتی ہے۔ سورج زمین سے تعاون کرتا ہے تو فصلیں پکتی ہیں۔ پھلوں کی مٹھاس چاند کی روشنی کے تعاون سے ہی ہے۔ ہوائیں بادلوں کے ساتھ تعاون کرتی ہیں تو بارش برستی ہے، اگر لوہے کو آگ کا تعاون حاصل نہ ہو اور لوہا لکڑی سے تعاون نہ کرے تو سارے کارخانے بند ہوجائیں اور ملکوں کی ترقی رک جائے، لیکن سب کچھ بہت سی چیزوں کے تعاون سے ہی چل رہا ہے۔
تعاون باہمی انسانوں کی فطرت کا جز ہے، اگر انسان دوسروں سے تعاون نہ کرے تو اس کا مطلب ہے، وہ اپنی تخلیق کے مقصد سے روگردانی کررہا ہے۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردی، ایثار، قربانی، محبت یہ سب تعاون کی بہترین صورتیں ہیں۔ انسان کا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعاون کرنا، ایثار اور قربانی پیش کرنے کا جذبہ ہمیشہ سے اٹل حقیقت رہا ہے۔ ان سچے جذبوں کے اظہار کو ہر ذی روح محسوس کرتا اور ان سے راحت بھی پاتا ہے۔
دوسروں کے ساتھ تعاون کرکے انسانیت کی خدمت کرنا ہر انسان کی ازلی خواہش ہوتی ہے، لیکن اس کے اظہار کی ہمت اور استطاعت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی، کیونکہ ذاتی مفادات کی خواہش دوسروں کی خدمت کی بجائے مفاد پرستی اور خود غرضی کے محور میں چکر لگانے پر آمادہ کرتی رہتی ہے اور یوں انسان اس عظیم مقصد سے دور ہوجاتا ہے، جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا تھا۔
انسانیت ہر جگہ باہمی تعاون، محبت، ہمدردی، ایک دوسرے کے کام آنے اور بھائی چارے سے جڑی ہوئی ہے۔ انسانیت کا رشتہ لوگوں کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھنے، ان کے دکھوں کا مداوا کرنے اور بلا تفریق دوسروں کے کام آنے میں پنہاں ہے۔ دوسروں کے درد کو اپنا محسوس کرنے اور دوسروں کے لیے ایثار ہی اس دنیا کا حقیقی حسن ہے، جن کی بدولت انسانیت کی ایسی بلند و بالا مسند عطا ہوتی ہے، جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔
دوسروں کے ساتھ تعاون اور ان کی بے لوث خدمت دلوں کو فتح کرنے کا موثر ترین ذریعہ ہی نہیں، بلکہ ایک مقدس فریضہ بھی ہے، جس کی ادائیگی کو اسلام نے اپنے ماننے والوں پر لازم قرار دیا ہے۔ دوسروں کی مدد کی تلقین اور ترغیب تو ہر مذہب میں موجود ہے، لیکن اسلام میں حقوق العباد کی تعلیمات معاشرتی ذمے داریوں اور انسانی فلاح و بہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ صدقہ، خیرات، زکوٰۃ، فطرانہ اور وقف یہ تمام عمل مال اور وسائل کو معاشرے کے محروم طبقات تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام نے جا بجا معاشرے کے ضرورت مند افراد کے ساتھ تعاون کے متعدد مواقعے فراہم کیے ہیں، جن پر عمل کرنے والے کے لیے عظیم اجر کا وعدہ بھی کیا ہے۔
ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ بندہ اللہ کا محبوب ہے جو اس کے کنبے کو نفع پہنچائے۔ اسلام کی تعلیمات ساری انسانیت کے لیے خیر اور بھلائی کا پیغام رکھتی ہیں، اسی لیے آپ ﷺ کو رحمۃ اللعالمین کا لقب دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو آپ ﷺ کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے تمام مخلوقات اور تمام انسانوں کے لیے محبت، تعاون اور خدمت کا جذبہ رکھنا چاہیے۔ خدمت خلق کو اللہ تعالیٰ نے اہم درجہ قرار دیا ہے، جس کے بارے میں یہی اِرشاد آیا ہے کہ دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کرو اور اْن کا خیال رکھو۔
خدمت خلق کرنے سے معاشرے میں سدھار آتا ہے اور انسان کو ایسا قلبی سکون حاصل ہوتا ہے، جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح دوسروں کی مدد کرتے وقت دراصل انسان اپنی مدد بھی کر رہا ہوتا ہے۔ امریکی جریدے سائنٹیفک امریکن مائنڈ کے مطابق دوسروں کا درد رکھنے والوں کے دل زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ انسان کے دل اور شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے اور دل مختلف امراض سے محفوظ رہتا ہے۔
اپنے نفع کے حصول کے لیے تو ہر کوئی زندگی گزارتا ہے، لیکن زندگی کی اصل چاشنی دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے،ان کو نفع پہنچانے اور ان کی تکلیف کو دور کرنے میں پوشیدہ ہے۔ ضرورت پڑنے پر دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا ایمان کا تقاضا ہے، جس پر عمل کرنا انسانوں کے لیے بہت سے فوائد کے حصول، محبت و رواداری، سکون و راحت کا ماحول سازگار کرنے کا ذریعہ ہے۔
اگر ہم اسلامی اصولوں اور ضابطوں پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کے ساتھ تعاون کریں تو یہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے نہایت مفید ہوگا۔ تعمیر انسانیت کے لیے انسان کے دل میں دوسروں کا درد ہونا انتہائی ضروری ہے۔ انسان کو دردِ دل کے واسطے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی تخلیق ایک دوسرے انسان کے ساتھ محبت، اخلاق و اخلاص، تعاون، ہمدردی، ایثار اور قربانی پر منحصر ہے۔ ضرورت مند لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں اور کوئی یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتا کہ اس پر کبھی برا وقت نہیں آئے گا یا وہ کبھی حاجت مند نہیں ہوگا۔ کچھ پتا نہیں کہ کس پر کب کیسے حالات آجائیں۔
اگر آج ہم دوسروں کے ساتھ تعاون کریں گے توکل ضرورت پڑنے پر دوسرے بھی ہمارے ساتھ تعاون کریں گے، اس لیے ہمیشہ دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کو اپنا شعار بنائیں۔ اگر ہر انسان یہ عہد کر لے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑے اور موقع ملے تو دوسروں کی مدد کرے گا۔ مجبور اور ضرورت مند لوگوں کی ضروریات حل کرنے میں مکمل تعاون کرے گا۔ کسی غریب طالب علم کی تعلیم کا خرچ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کا خرچ، کسی بے روزگار کی نوکری کا انتظام، کسی غریب بیمار کے علاج کا انتظام اور ہر ایسا کام کرے گا، جس سے کسی انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہو تو یقین کیجیے اس سے دنیا بدل جائے گی۔ دنیا میں نفرتیں ختم ہوکر صرف محبت کی حکمرانی اور سکون و راحت کا راج ہوگا۔