طبقاتی تفریق

ظلم اور استحصال کی بنیادوں پر قائم طبقاتی تفریق ہماری قومی بنیادوں کوکمزورکرسکتی ہے

LAHORE:
ظلم اور استحصال کی بنیادوں پر قائم طبقاتی تفریق ہماری قومی بنیادوں کوکمزورکرسکتی ہے۔گزشتہ 60 برس سے جاری ایک اہم روایت کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے وہ روایت یہ تھی کہ عمومی طور پر میٹرک و انٹر کے امتحانات میں متوسط طبقے کے طلبا وطالبات ہی پوزیشنز حاصل کرتے تھے اور لیکن اب ان کا تعلق اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے سے ہے جن اسکولوں سے ان کا تعلق ہے وہاں متوسط طبقے کے والدین اپنے بچوں کا داخلہ کرانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

ماضی کی اس روایت کا ٹوٹ جانا آگے چل کر ملک و قوم کے لیے انتہائی نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے یہ اس بات کی نشاندہی بھی ہے کہ نہ صرف ہوش ربا گرانی نے متوسط طبقے کے طالب علموں کی ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کیا ہے بلکہ مڈل کلاس میں آگے بڑھنے کا جذبہ بھی کم ہو رہا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں یہی وہ کلاس ہوتی ہے جو اپنے اسی جذبے کی وجہ سے اجتماعی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ تعلیمی شعبے کے حوالے سے ایک عام خیال یہ ہے کہ اس شعبے کے بعض مفاد پرست لوگ بھاری رقوم لے کر نجی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کو پوزیشنز سے نوازتے ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض بڑے اور نامور تعلیمی اداروں میں یہ رقم Donation کے نام سے وصول کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے مڈل کلاس طبقے کے والدین کے لیے اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات ہی برداشت کرنا دشوار ہے، وہ ان اخراجات کے علاوہ بھاری رقم کا بندوبست کس طرح کرسکتے ہیں؟

یہی وجہ ہے کہ متوسط طبقے کے اکثرگھرانوں کے بیشتر نوجوان میٹرک یا انٹر کرکے ہی روزگار سے منسلک ہونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ والدین کا بوجھ کم کرسکیں۔ ان میں بیشتر ذہین اور باصلاحیت نوجوان بھی ہوتے ہیں جن کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ یا اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک ایسا خواب بن کر رہ جاتا ہے جس کی انھیں کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ متوسط طبقے کو غربت کی نچلی سطح کی جانب یوں ہی دھکیلا جاتا رہا تو خطرہ ہے کہ ملک میں انتشار بڑھتا جائے گا جس سے انتہا پسندی کے رجحان کو فروغ ملے گا۔ شدت پسندوں کو مایوس نوجوانوں کی بڑی تعداد میسر آجائے گی۔ ویسے بھی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جرائم کے راستے پر قدم رکھ چکی ہے۔

وطن عزیز میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری غیر یقینی صورتحال، معاشی بدحالی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کو چھونے والی گرانی نے ظلم اور استحصال کی بنیادوں پر قائم طبقاتی تفریق میں اضافہ کردیا ہے۔

نہایت عجیب بات ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کلمہ گو مسلمانوں کی اکثریت ہے جو ایک اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے پیروکار ہیں ایک الہامی کتاب قرآن پاک سے رہنمائی حاصل کرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اس کے باوجود اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنے پر نہ صرف رضامند ہیں بلکہ اس کو قائم رکھنے پر بضد بھی ہیں۔


پڑوسی ملک بھارت میں ہندومذہب کے پیروکار ایسا کریں تو تعجب نہیں ہو کہ ان کے مذہب نے انھیں انسانوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن ہمارے مذہب نے تو ہمیں طبقاتی تفریق مٹانے کا حکم دیا ہے ہمارے نبی پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺکا تو مشن ہی توحید اور انسانی مساوات کا قیام تھا۔ کیا ہم بحیثیت مجموعی رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے برخلاف نہیں چل رہے ہیں؟

طبقاتی تفریق کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ملک میں ہمہ اقسام کے تعلیمی نظام رائج ہیں جو اس تفریق کو استحکام بھی بخشتے ہیں۔ ان یکسر مختلف نظام ہائے تعلیم کے ذریعے مزید طبقات اور مختلف درجوں کے حاکمین و محکومین تیار ہو رہے ہیں چنانچہ معاشرتی نظام جن قدروں پر استوار ہے وہ صرف غیر اخلاقی ہی نہیں ظالمانہ حد تک غیر انسانی بھی ہیں۔

تعلیمی اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ کیا پڑھایا جائے؟ کون پڑھائے؟ کتنی فیس لی جائے؟ اور ماحول کیسا ہو ان تمام معاملات پر کسی قسم کی کوئی قدغن محسوس نہیں ہوتی۔

باوجود اس کے کہ تعلیم کا شعبہ گویا تجارتی منڈی کی سی حیثیت اختیارکرچکا ہے امیر طبقے کی ضروریات اور مفادات کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے عوام کے لیے وسائل کی ہمیشہ کمیابی بلکہ نایابی ہی رہتی ہے۔ عوام کے لیے وسائل اور ذرایع کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں رہتا یہ اور ان جیسی دیگر بہت سی وجوہات ہیں جو معاشرے کو مسلسل انتشار اور بحران کے راستے پر لے جا رہی ہیں اور وہ ''وحدت ملی'' جس کا تذکرہ کرتے کرتے ہمارے علمائے کرام، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں کی زبانیں نہیں تھکتیں اس ''وحدت ملی'' کا مظاہرہ خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

یہ ظلم اور استحصال پر مبنی طبقاتی تفریق کا ہی شاخسانہ ہے کہ سیاسی میدان میں بھی چند خاندان ہی شہسوار بنے ہوئے ہیں، صلاحیت ہو یا نہ ہو باپ کے بعد بیٹا ہی سارا سسٹم سنبھالتا ہے اور شاید اخلاقی انحطاط اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب اس چیز کو معاشرے میں برا بھی نہیں سمجھا جاتا بلکہ جس گروہ کے لوگوں کو اس خرابی کی اصلاح کرنی چاہیے اور جو اس کے دعوے دار بھی ہیں یعنی بعض مذہبی گروہوں میں بھی یہ رجحان داخل ہوچکا ہے۔

لوگوں! تمہارا رب ایک ہے تمہارا باپ ایک ہے تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اورآدم مٹی سے تھے۔ نہ کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل ہے اور نہ کوئی عجمی کسی عربی پر فضیلت رکھتا ہے نہ گورا کالے پر فوقیت رکھتا ہے اور نہ کالے کو گورے پر فضیلت و برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے۔''کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے فرمان اقدس کی پیروی کرنے کے بجائے عہد جاہلیت کی جانب پلٹ رہے ہیں۔
Load Next Story